Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamid Ateeq Sarwar
  4. Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (6)

Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (6)

جہنم کی ائر کنڈیشننگ(6)

جادو کا چراغ

انسانی دماغ ہمارے جسم کے باقی حصوں کی طرح عمومی طور پر سہل پسند ہے۔ یہی وجہ کہ ذاتی اور اجتماعی زندگی میں ہم پیچیدہ مسائل کا آسان حل دینے والوں کے پیچھے چل پڑنے کا رحجان رکھتے ہیں۔ بہت سی بیماریوں کا علاج پپیتے کے رس سے کرنے کے قائل ہو جاتے ہیں۔ ملکی مسائل سے تنگ آئے ہوں تو کسی لمبے اور مشکل حل بتانے والوں کی بجائے ہمارا رحجان نجات دہندہ، مسیحا، جادو کے چراغ والی شخصیت پرستی کی طرف ہوتا ہے۔

کبھی ایمانداری اور سادگی ہمارے تمام مسائل کا حل بنا کر بیچ دی جاتی ہے تو کبھی بے رحم احتساب اور پانچ سو پھانسیاں اس کا حل بن جاتی ہیں۔ کبھی زرعی انقلاب سب مسائل کا حل دکھتا ہے تو کبھی دینی نظام کا حقیقی نفاذ۔ دہائیوں کے نقائص کو دنوں میں درست کرنے کے خواب دیکھے بھی جاتے ہیں اور بیچے بھی جاتے ہیں۔ مگر ہر سال دو سال کے بعد جب چار چھ مہینے کو آنکھ کھلتی ہے تو زوال کی نئی منزل ہمارا منہ چڑا رہی ہوتی ہے۔

نہ ڈالر کی قدر میں استحکام دکھتا ہے نہ دیگر اشیا کی قیمت کہیں دم لیتی ہے۔ اس خرابی کی وجوہات ڈھونڈنے نکلیں تو یوں لگتا ہے کہ پچھلے 75 سال میں کوئی بھی صحیح فیصلہ نہیں ہوا۔ مگر ہم اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ 1947 میں بھارت آزاد ہوا تھا اور پاکستان بنایا گیا تھا۔ آزاد ہونے والے بھارت کو تو ایک چلتا ہوا نظام چلانا تھا، مگر ہمارے ہاں سب کچھ نئے سرے سے بنایا جانا تھا۔

قومی اسمبلی، فیڈرل کورٹ، سٹیٹ بینک، فوج، فضائیہ، بحریہ، حکومت، دارالحکومت، بینک، فضائی سروس سبھی کچھ نئے سرے سے بننا تھا۔ اس پر مستزاد مشرقی اور مغربی حصے کا جغرافیائی، ثقافتی، تہذیبی، لسانی اور سیاسی بعد صوبوں کے حالات بھی عجیب کہ سندھ اور سرحد 1930 کی دہائی میں بنے تھے اور مشرقی پاکستان بھی متحدہ بنگال کی حکومت میں ایک غیر اہم حصہ تھا۔

پنجاب کا پاکستان کو ملنے والا حصہ بھی زیادہ تر 1908 کی نہری آبادیوں پر مشتمل تھا۔ جس پر حکومتی عملداری کا نظام نسبتا" بہت نیا تھا۔ حالات یوں تھے کہ لاہور کے ہندو پاکستان کے متعلق سوچ کر ہنسا کرتے تھے کہ اگر مسلمانوں نے اپنا ملک بنا لیا تو اس میں دکانیں اور کاروبار کون چلائے گا۔ کیونکہ متحدہ ہندوستان میں ان کاموں پر ہندووں کی اجارہ داری تھی۔ ان مشکل حالات میں بہت سے عجیب فیصلے ہوئے۔

جن کا نتیجہ ہمارے امریکہ اور یورپ کی طرف جھکاو، فوج کی حکومت میں بڑھی ہوئی عملداری، بین الاقوامی امداد اور قرض پر انحصار، کمزور جمہوری اور عدالتی نظام اور غیر منفعل انتظامیہ کی صورت میں سامنے آیا۔ مگر ان فیصلوں کے ساتھ بہت سے مناسب اقدامات بھی ہوئے، جس کے نتیجے میں 75 سال سے ہم ایک الگ ملک کی صورت میں قائم ہیں۔ جیسا تیسا بھی ہے، مگر ایک نظام ہے، جس میں جدید دنیا کے قریب قریب سبھی خدو خال موجود ہیں۔

پاکستان اپنے طور کا ایک منفرد قومی تجربہ تھا۔ جس کی کوئی اور بین الاقوامی مثال دینا مشکل ہے۔ سو اس کی موجودہ مشکلات کو صرف گزشتہ حکومتوں کی ناکامی پر ڈال دینا شاید درست سیاسی تجزیہ نہیں ہوگا۔ یہ درست ہے کہ بنگلہ دیش ہم سے زیادہ مشکل حالات کے باوجود ترقی کی دوڑ میں ہم سے آگے نکل گیا ہے، مگر یاد رہے کہ ہاکستان کا مشرقی حصہ ہمیشہ سے متحدہ پاکستان کی ایکسپورٹ کا گڑھ تھا۔

اور ان کے لئے اس رفتار کو بڑھاتے ہوئے ایک کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس والا ملک بننا نسبتا" آسان تھا۔ لیکن عوام کے عمومی معیار زندگی پر نظر ڈالیں تو آج بھی ڈھاکہ سے ہو کر آنے والے وہاں کی تنگ اور ٹوٹی ہوئی سڑکوں اور پاکستان کی نسبت کم ظاہری خوشحالی کی گواہی دیتے ہیں۔ جنوبی کوریا اور ویتنام کی ترقی کے اسباب ہمارے لئے مشعل راہ ضرور ہیں، مگر ان ممالک کا جغرافیہ اور وسائل کا نقشہ ہم سے قدرے مختلف ہے۔

ان گزارشات کا مقصد پاکستان میں کئے جانے والے غلط فیصلوں کا دفاع نہیں ہے۔ مگر اس بات کی طرف توجہ دلانا ہے کہ پاکستان کا ماضی اتنا بھی داغدار نہیں جتنا اسے مطعون کیا جاتا ہے۔ ہمارے حالات بڑی حد تک اپنے وقت کے مطابق نیک نیتی پر مبنی تھے۔ یہ الگ بات کہ ان میں سے، بہت سے فیصلے طویل المدت منصوبہ بندی اور سوچ کے بغیر کئے گئے، جو ہماری جیسی نوزائیدہ مملکت کے لئے کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔

ذرا غور کیجئے کہ بھارت سے سرحدی کشمکش کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر کون سا حکمران 50 کی دہائی میں سیٹو اور سینٹو میں شامل ہونے سے گریز کرتا۔ کون سا حکمران 1962 کی ہند چینی جنگ کے بعد چین کے قریب نہ ہونا چاہتا۔ کون سا حکمران افغانستان سوویت جنگ اور بعد میں امریکہ افغان جنگ میں آنے والے اربوں ڈالر کی فوجی اور بجٹ امداد کو ٹھکراتا۔ اپنے تمام تر مضمرات کے باوجود یوں لگتا ہے کہ۔

ہمارے غلط یا صحیح فیصلوں میں تاریخ کے جبر کا کردار بھی ہمارے برے حکمرانوں سے کم نہ تھا۔ کچھ بڑے فیصلے ایسے ضرور ہیں، جن پر آج بھی بحث ممکن ہے۔ کراچی سے دارالحکومت کی تبدیلی، مشرقی پاکستان سے متعلق ہماری حکومتوں کا رویہ، نیشلائزیشن، آئی پی پی ماڈل پر بجلی کی پیداوار شاید وہ فیصلے ہیں۔ جن کو نہ کرنا شاید ہمارے حق میں بہت بہتر ہوتا۔ ان کے علاوہ کئے گئے تمام فیصلوں اور کاموں کو ایک ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے نظام کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے۔

جس کو بہتر کرنے کے مواقع مستقبل میں بھی دستیاب رہیں گے۔ بھارت دشمنی میں سارا قصور ہمارا نہیں۔ ایران کی دنیا بھر سے الگ چال ہمارا قصور نہیں۔ افغانستان کے حالات میں ہمارا ہاتھ ضرور ہے، مگر اس میں بھی بڑا حصہ امریکہ اور روس کی مہم جوئی سے جڑا ہے۔ آرمی، ملا، سیاسی کلٹ، صحافت اور عدالت کے درمیان طاقت کی سیاسی کشمکش بھی ہمارے جیسے قریب ہر نوزائیدہ نیم جمہوری نظام کا حصہ ہے۔

اس کشمکش میں چلتے چلتے ہم اب اس قومی منزل پر پہنچ گئے ہیں، جہاں سے آگے کا راستہ ایک بڑی سٹرکچرل تبدیلی سے ہو کر جاتا ہے۔ اس تبدیلی میں بدقسمتی سے قریب 15 سال کی سختی کا زمانہ شاید اب ہماری ممکنہ تقدیر کا حصہ ہے۔ گو ہم 1971 اور 1999 میں بھی خاصے مایوس کن حالات سے خوش قسمتی سے باہر نکل آئے تھے، مگر اس بار مشکلات کی نوعیت اور ساخت قدرے مختلف ہے۔

اس بار کا عذاب ہمارے ملک کے بیلنس آف پیمنٹ سے متعلق ہے اور ممکنہ طور پر اس کو درست کرنے میں دس سے پندرہ سال کا وقت درکار ہے۔ اس تمام دور میں ہمیں بین الاقوامی قرضوں کی واپسی اور مزید قرضوں پر کم انحصاری کے رستے پر یکسو ہو کر چلنا ہے۔ اس رستے میں روپے کی قدر میں لگاتار گراوٹ اس وقت تک جاری رہے گی، جب تک ہماری برآمدات اور ترسیلات زر ہماری درآمدات اور قرض کی قسط اور سود کے برابر نہیں ہو جاتیں۔

درآمدات میں تیار اور نیم تیار شدہ اشیا ہماری معاشی پہنچ سے دور ہوتی جائیں گی۔ جس میں مڈل کلاس کو بجلی، گیس، پٹرول، ڈیزل، چائے اور خوردنی تیل کی مہنگائی سے نمٹنا ہوگا اور خوشحال طبقے کو نئی گاڑیوں، بین الاقوامی سفر، امپورٹڈ کاسمیٹکس، موبائل فون، ٹی وی، فریج، ائر کنڈیشنرز سے پیچھے ہٹنا ہوگا۔ لوگوں کو سرکاری نوکریوں سے پرے رکھ کر پرائیویٹ ملازمت یا کاروبار کو جانا ہوگا۔

غیر ضروری سرکاری ملازمتوں کو ختم کرکے ان کو متبادل روزگار کی طرف لانا ہوگا۔ پراپرٹی کے کاروبار کے منافع کو کم ترین سطح پر لانا ہوگا تاکہ تمام تر قومی وسائل زرعی، صنعتی، آئی ٹی اور دیگر سروسز کی پیداوار میں سرمایہ کاری کے لئے استعمال ہو سکیں۔ پچھلے پندرہ سے بیس سالوں میں یہی فیصلے ٹال کر آج ہم ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑے ہیں اور موجودہ اور آئندہ آنے والی کوئی حکومت کے پاس ان اقدامات کے علاوہ شاید ہی کوئی راستہ ہو۔

اس راستے پر نہ جانے کی کوشش میں گزرا ہوا ایک ایک دن اس عذاب کی مدت کو مہینوں اور سالوں میں بڑھاتا چلا جائے گا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈیفالٹ ہو بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ تو عرض ہے کہ یونان اور سری لنکا کا تجربہ یہ بتاتا ہے ڈیفالٹ کا چھے مہینے یا سال کا وقت قومی آمدنی میں ایک انتہا درجے کی گراوٹ لے کر آئے گا، جس کے ساتھ بیروزگاری، مہنگائی اور اشیا کی وقت بے وقت عدم دستیابی پورا زور پکڑ لے گی۔

اس بدحالی کے بعد پھر اس سے بھی سخت شرائط والا آئی ایم ایف پروگرام۔ یعنی بقول غالب مرنے کی مصیبت سے گزر گئے پر مرنا بدستور ہے۔ یعنی وہی سو پیاز اور سو جوتے والا معاملہ۔ اس سے کہیں بہتر سو پیاز کھانے کی موجودہ شرائط ہیں۔ جن کو اپنانے میں ہی ہماری عافیت ہے۔ مگر یہ ہم سے ہونا نہیں سو یہی زندہ باد مردہ باد کرتے ہوئے، اس نجات دہندہ کا انتظار کیجئے جو کوہ قاف سے جادو کا چراغ لے کر آئے گا اور اسے رگڑ کر ہمارے تمام مسائل چالیس، دن میں حل کر دے گا۔

Check Also

Kya Sinfi Tanaza Rafa Hoga?

By Mojahid Mirza