1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hamid Ateeq Sarwar/
  4. Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (21)

Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (21)

جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ (21)

فیض کے آخری زمانے کی ایک نظم ہے جس کا عنوان ہے "اب تم ہی کہو کیا کرنا ہے"۔ اس میں وہ ہماری اجتماعی زندگی کی آرزووں اورآشاوں کی عدم تکمیل اور قوم کے سینے کے گھاو نہ بھرنے کی وجہ ویدوں اور نسخوں / ٹوٹکوں پر وشواس ہونے کے باوجود عدم تشخیص اور بے اثر علاج کو قوم کے سینے کے گھاو کے نہ بھرنے کی وجہ بتاتے ہیں۔

ہندی الفاظ کے استعمال سے ایسا نہیں کہ ان کی وید (طبیب) اور ٹوٹکے/ نسخے سے مراد علاج اور تشخیص کا آریوویدک اور نتیجتا" archaic ہونا ہے مگر نظم کا اصل موضوع چارہ گروں کی نالائقی اور نسخوں میں دوا کا بے اثر ہونا ہے اور نظم کی آخری دولائینیں:

اب تمہی کہو کیا کرنا ہے

یہ گھاو کیسے بھرنا ہے

ایک نسبتا" مایوس کن انجام پہ ختم ہوتی ہے۔ جناب انور مسعود اسی تاثر کو اپنی مزاحیہ/ سنجیدہ نظم "سوچی پئے آں، ہن کی کرئیے" میں اپنے مخصوص انداز میں بتاتے ہیں کہ الیکشن، جمہوریت، مارشل لا، آمریت اور دیگر حکومتی اقدامات کا لوگوں کی زندگی کے کمتر معیار پر کوئی بھی فرق نہیں پڑتا۔

ہماری حکومت کے نظم و نسق کی ظاہری صورت پر جائیں تو اس میں وہ سب کچھ ہے جو دنیا کے ترقی یافتہ یا اچھی ترقی پذیر قوموں میں ہوتا ہے۔ الیکشن، آئین، اسمبلیاں، سینٹ، عدالتیں، محکمے، پرائیویٹ سیکٹر اور ایک متحرک اور متجسس میڈیا۔

زیادہ تفصیل میں جاوں تو جیسے ہم بھارت سے پہلے اسی کی دہائی کے شروع میں ٹیکسوں کے انتظام میں IBM کی AS400 مشینیں لے آئے، بھارت سے پہلے 2007 میں ٹیکس گوشواروں کی ای فائلنگ شروع کردی۔ نادرا کا شناختی کارڈ کا نظام بھارت کے آدھار سے پہلے کا ہے۔ موٹروے تمام جنوبی ایشیا میں سب سے پہلے ہم نے بنانا شروع کی۔ باہر سے لوگ ہماری اصلاحات کرنے آتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے تمام ممکنہ ادارے، کافی سارا فزیکل اور نان فزیکل انفراسٹرکچر اور انتظامی بندوبست اپنی بلڈنگز، عہدوں اور کمپیوٹرز سمیت موجود ہے۔ مسئلہ وہی ہے کہ یہ سب کچھ کرکے بھی حالات جوں کے توں بلکہ دگرگوں۔ وہی جو فیض اور انور مسعود کا dillema ہے کہ اب کیا کریں۔

علم حیاتیات میں ایک اصطلاح Isomorphism استعمال ہوتی ہے۔ آئسو سے مطلب ایک سی اور مارفامولوجی سے مراد ظاہری ہئیت۔ اسی سے ایک بائیالوجی اور سوشل سائینس میں ایک اصطلاح ایجاد ہوئی ہے جسے isomorphic mimicry کہتے ہیں یعنی ڈیل ڈول اور صورت شکل سے پہلوان اور اندر سے ریت کا ڈھیر۔ اگر آپ جانداروں کے ارتقا پر یقین رکھتے ہیں تو بائیالوجی میں جانداروں کی وہ اقسام اس بحث میں آتی ہیں جہاں طاقتور جاندار سے ملتی جلتی صورت والی کمزور جنس بھی بسا اوقات survival of the fittest والے فوائد میں سے کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔

سوشل سائینس اور حکومتی نظم و نسق میں یہ اصطلاح کامیاب ناکامی (successful failure)کے تیر بہدف نسخے کے طنزیہ نام سے پکاری جاتی ہے۔ ریسرچ کہتی ہے کہ یہ صورت احوال ترقی کی راہ کی بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ یعنی یہ حکومتوں میں پائی جانے والی وہ خرابی ہے جہاں وہ ترقی یافتہ اور کامیاب حکومتوں کے نظام، اس کے چلانے کے طریقہ کار اور حتی کہ اس products کی "best international practices" کے نام پر، ان چیزوں کی بے روح نقالی کرتے ہیں۔ جہاں طرز عمل تو دکھتا ہے مگر عمل مفقود۔ یعنی یہ تو لگتا ہے کہ سرکار مدار بہت کچھ کر رہی ہے اور اسی شکل و صورت میں کر رہی ہے جو کامیاب ملکوں میں نظر آتی ہے مگر عملا" کچھ اثر دکھائی نہیں دیتا۔

جیسے کسی quack نے ہسپتال بنایا ہو، مشینیں موجود ہوں، دوا ہو، مریض آئے تو وہ کمپوڈر سفید کوٹ پہن کر اس کی تشخیص اور علاج کر رہا ہو۔ اور پھر مریض تندرست ہو کر نہ دے۔ یعنی isomorphic mimicry کے طفیل حکومت capable دکھتی تو ہے مگر ہوتی نہیں۔ شکل و صورت سے ٹھیک مگر صلاحیت میں بہت کمزور۔ اور یہ بات کسی بدنیتی کی وجہ سے ظہور نہیں پاتی اور اگر ان اصلاحات کو بے حد اچھی اور Active منصوبہ بندی سے نہ برتا جائے تو یہ "کامیاب ناکامی" ان اصلاحات کا قدرتی راستہ (natural course) یا مقدر ہوتا ہے۔ عمومی طور پر تعلیم و ترقی کی بین الاقوامی امداد، کم ترقی یافتہ ملکوں کی حکومتوں میں کلاسیکی جمود اور سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے قدرتی رحجان کے باوصف، keen supervision کے بغیر اکثر اسی قسم کی صورت احوال کو جنم دیتی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ کوئی 1987 میں نئی روشنی سکول کے نام سے تعلیمی اصلاحات کا بیڑا اٹھایا گیا۔ امداد آئی، 10 سے 14 سال کے، سکول سے بھاگے ہوئے بچوں کو شام میں پہلے سے موجود سکولوں میں پڑھائی کا انتظام ہوا۔ ہزاروں استاد سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہوئے۔ کچھ دن مانگے تانگے کے بچوں کی پڑھائی شروع ہوئی۔ تین مہینے بعد طلبا ندارد اور دوسال بعد پروگرام بند۔ اس سے ملتا جلتا پروگرام بھارت کی کچھ ریاستوں میں خاصی کامیابی سے چلا اور غالبا" اب بھی چل رہا ہے۔ یہ ایک مثال نہیں، ہمارے ملک میں سینکڑوں ایسی سکیمیں اور ادارے ہیں جو دکھنے میں بائیسویں صدی کے ہیں، مگر روح میں چودھویں صدی کے۔

کچھ برس پہلے ایک کارخانہ دار دوست نے بتایا کہ اس کے صنعتی علاقے میں اس کے ہمسائے میں کچھ سالوں سے صنعتی امداد کے لئے حکومت کی جانب سے جدید سی این سی مشینری درآمد کرکے لگوائی جارہی تھے تاکہ اس علاقے کے تمام صنعت کار ان جدید مشینوں کو common facility کے طور پر استعمال کر سکیں۔ منصوبہ مکمل ہونے کے 6 ماہ بعد تک کچھ نہ ہوا تو وہ دوست اس ادارے میں گیا۔ وہاں اس کے سربراہ دفتر میں اخبار پڑھ رہے تھے اور ملازمین گیراج میں ان کی گاڑی دھو رہے تھے۔ ساتھ کمرے میں موم جامے ملفوف جدید مشینری بھی لگی۔ ان سے استفسار کیا کہ کیا ہم ان مشینوں کو استعمال کر لیں تو ارشاد فرمایا کہ ان مشینوں کے مکینک بھرتی ہونے میں ابھی کچھ تاخیر ہے سو ان کا استعمال ممکن نہیں۔ قرائن ہیں کہ اس منصوبے کی state of the art مشینیں بھی اب تک مکینک نہ بھرتی ہونے کی وجہ سے اپنی طبعی عمر پوری کرکے بیکار ہوگئی ہوں گی مگر ہمارا common facility لگانے کا اقدام ضرور ٹک باکس ہوگیا ہوگا۔

اگر معیشت کی مثال سامنے رکھیں تو ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے پچھلے بیس سال میں دو ارب ڈالر سے زائد کی امداد اور قرض کے باوجود عملا" نہ ٹیکس بڑھے ہیں، نہ برآمدات۔ حالانکہ لارج ٹیکس پیئر دفاتر، ڈیٹا سینٹرز، ای فائلنگ، ای پیمنٹ، ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ، ٹریڈ ڈویلپمنٹ اٹھارٹی، تمام دنیا میں کمرشل قونصلروں کی تعیناتی وغیرہ وہی اقدامات ہیں جو ان شعبوں کی درستگی کے لئے کامیاب معیشتوں نے کئے ہیں۔

بین الاقوامی امداد دینے والے ادارے بشمول آئی ایم ایف اس خرابی کو ریسرچ لٹریچر میں" agenda conformity" کے نام سے لکھتے ہیں اور کے سدِباب کے بارے بات کر رہے ہیں کہ معاہدے کرتے وقت ادارہ جاتی اصلاحات کی پوشاک کی حد تک تو service delivery ہو جاتی ہیں یوں پراجیکٹ کے سارے اہداف حاصل ہو جاتے ہیں مگر پوشاک کے اندر کا وجود ویسے ہی لاغر اور بے عمل رہتا ہے۔ ورلڈ بینک کے 2004 سے 2011 کے پروگرام میں عمارتوں، اداروں، قوانین، کمپیوٹر، نئے عہدے اور ان پر پرائیویٹ سیکٹر کے افراد کا تقرر سب کچھ ٹک مارک ہوگیا مگر ٹیکس جی ڈی پی شرح 12 فیصد سے 8 فیصد پر آگئی اور زیادہ تر ٹیکس دینے والے لوگ وہی کل آبادی کا اعشاریہ صفر آٹھ فیصد۔ وجہ وہی بے روح نقالی۔

اس پر طرہ یہ کہ ہم نے ورلڈ بینک وغیرہ کے Agenda Conformity کے اعتراض کو ختم کرنے کے لئے اپنے آڈیٹر جنرل کے دفتر کو روپے پیسے کے آڈٹ کے ساتھ پرفارمنس آڈٹ کی ذمہ داری بھی دے ڈالی۔ یعنی اب ہر ادارے کے ساتھ اس کی کارکردگی اور اثر انگیزی کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ خیال برا نہیں تھا مگر برا ہو isomorphic mimicry کا کہ یہاں بھی یوں در آئی کہ پی اے سی میں بیٹھ کر ان paras میں سے اکثر کو سن کر اور ان کا انجام دیکھ کر حکومتی نسق کی رہی سہی صلاحیت پر بھی ایمان جاتا رہتا ہے۔

اب یہ بھی سنتے ہیں ایف بی آر ڈیجیٹائز ہونے جارہا ہے۔ ان اصلاحات میں بھی اسی بے روح نقالی کا شدید خدشہ ہمارے نظام میں in-built ہے، جسے بہت سمجھداری ہی سے avoid کیا جاسکتا ہے۔ قاسمی صاحب کی طرح دل تو وہی ارض باک پہ اسی بے اندیشہ زوال والی فصلِ گل کی دعا میں ہے مگر کیا کریں کہ عقل غالب کی پیروکار ہے جو دشمن (ایڈ ایجنسی سمجھ لیجے) سے بھی پیالے کی بجائے شراب کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ جانتے ہوئے کہ پیالہ نری isomorphic mimicry ہے۔

پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے

پیالہ گر نہیں دیتا نہ دے شراب تو دے

Check Also

Gustakhi Ki Talash Aur Hum

By Qasim Asif Jami