Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (14)
جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ (14)
نون میم راشد اردو شاعری کا ایک بہت بڑا نام ہیں۔ چونکہ ہم نے ہر صاحبِ ہنر کو اپنے مروجہ اخلاقی معیارات پر پرکھنا ہوتا ہے سو ہمارے رجعت پسند معاشرے میں بہت مقبول نہیں رہے۔ کچھ راشد صاحب خود بھی ابلاغ کے لئے عوامی سطح پر آنے کو تیار نہیں تھے سو آج زیادہ تر، اپنی ان چند نظموں کے طفیل (جنہیں ضیاء محی الدین نے پڑھ کر امر کر دیا) جانے جاتے ہیں، ہر چند کہ "ماورا"، "ایران میں اجنبی"، "لا مساوی انسان" اور "گماں کا ممکن" نامی چار کتابوں میں ادبِ عالیہ کے بہترین نمونے پائے جاتے ہیں۔
ان کی ایک نسبتا" معروف نظم "اندھا کباڑی" ہے۔ اس نظم میں ایک اندھا کباڑی لوگوں کے ٹوٹے پھوٹے خوابوں کے ٹکڑے اپنے اندروں میں process کرکے لوگوں کو بیچنے نکلتا ہے۔ قیمتاََ بیچتا ہے تو لوگ اصلی اور نقلی کی بات کرتے ہیں حالانکہ وہ انہی لوگوں کی امنگوں کی پریکٹیکل ترجمانی کر رہا ہوتا ہے۔ پھر تنگ آکر شام تک مفت بیچنے کو آجاتا ہے مگر اب لوگ مفت بیچنے پر اس کی نیت اور خوابوں کے معیار پر شک کرتے ہیں۔ نظم کے آخر میں وہ ماندہ کباڑی سوتے میں بڑبڑاتا ہے کہ مجھ سے خواب بھی لے لو اور ان کے دام بھی۔
راشد کی اس نظم کا زمانہ کوئی پچاس/ ساٹھ کی دہائی کا ہے مگر یوں لگتا ہے کہ ہمارے ہاں آج بھی اچھے آئیڈیاز کے ساتھ یہی سلوک جاری ہے کہ کوئی انہیں پیسوں سمیت بھی خریدنے کو تیار نہیں۔ ہمارے ارد گرد کے کتنے ہی لوگ ہمارے معاشی اور معاشرتی سدھار کے طریقے بتانے والے موجود ہیں، مگر سب کا کہا بسا اوقات صدا بصحرا ہی ثابت ہوتا ہے۔ دنیا میں کوئی سو کے قریب significant (آبادی، رقبہ، وسائل) ممالک ہیں، کوئی پچاس بہت اچھے اور پچاس کی حرکتیں ہمارے والی۔ یہ الگ بات کہ ہم ان پچاس کے بھی آخری پانچ میں سے ہیں۔ کچھ تو ہے کہ وینزویلا، سعودی عرب جتنے تیل کے باوجود ہمارے جیسا ہے۔ یہی حال ارجنٹائن، میکسیکو، مصر، گھانا وغیرہ کا ہے مگر ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے پاس کوئی خاص قدرتی وسائل بھی نہیں۔
ہمارے یا ہم جیسے پیچھے رہ جانے والے ممالک کے معاملات کے ٹھیک نہ ہونے اور چین، بھارت، کوریا، ویت نام وغیرہ کے آگے بڑھ جانے میں ایک ہی بات کارفرما ہے کہ اچھے ممالک، اچھے ذہن والوں کی بات سنی جاتی ہے جو لوگوں کی آرزووں اور خوابوں کی تکمیل کے لمبے اور دشوار گزار راستوں کو جانتے ہیں اور ناکام ممالک میں ان کی جن کے پاس کچھ تبدیل کئے بغیر معجزے دکھانے کا جادو کا زعم ہوتا ہے۔
ہمارے ایک معتوب، معاشیات کے پروفیسر عاطف میاں کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں governance کے سوچنے اور عمل کرنے کا ہنر مفلوج ہو چکا ہے۔ یہ شاید اس لئے بھی درست ہو کہ پچھلے 35 سال میں ہم نے شاید ہی کوئی ایسے فیصلے یا اقدامات کئے ہوں جن کی دنیا مثال دے یا نقل کرنے کی کوشش کرے۔ اس کے بر عکس ہماری بہت سی ایسی پالیسیاں، جیسے آئی پی پی معاہدے، غیر ملکی قرضوں پر انحصار، ٹیکسوں کا معیار اور مقدار، بے قابو مہنگائی، ڈالر کی تجارت اور ترسیل پر کھلی چھوٹ، بے جا حکومتی اخراجات، بجلی گیس کی چوری وغیرہ کی وہ نوعیت ہے کہ بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں معاشی پالیسی کی ناکامی کی مثال کی صورت پڑھائی جائے۔
ہماری معاشی اور معاشرتی خرابیاں، خود رو نہیں بلکہ ایک متواتر، بے سوچے سمجھے کی پالیسیوں یا بے ڈھنگ عملدرآمد کا نتیجہ ہیں۔ اچھی سوچ / پالیسی / خواب سے پہلے ہمیں اپنے غلط سمت میں اٹھائے قدم واپس لینے ہیں اور پوائنٹ زیرو تک پہنچنا ہے اور پھر ترقی کے راستے پر چلنا ہے۔ پوائنٹ ایکس(جہاں ہم کھڑے ہیں) سے پوائنٹ وائے (جہاں ہم جانا چاہتے ہیں) کا رستہ سیدھا نہیں بلکہ point of origin سے ہو کر جاتا ہے۔ لاہور سے کراچی جانا ہے اور آپ جہلم پہنچ گئے ہیں تو پہلے واپس لاہور پہنچیں۔ تیس سال کے اس معکوس سفر سے واپسی مشکل بھی ہے اور تکلیف دہ بھی مگر اسے کئے بغیر معاملات صحیح سمت میں جانے کا امکان کم ہے۔
معاشرت کو رواداری، برداشت اور پر امن بقائے باہمی پر لانا ہے، معیشت کو پیداوار اور ایکسپورٹ کی طرف اور حکومت کو آمدن میں اضافے اور غیر پیداواری خرچ میں کنجوسی کی طرف۔ اس راہ پلٹنے کے سفر میں بہت سے بھوت، پریت اور عفریت آئیں گے۔ ماضی کے اقدامات کی قیمت مع سود بھی دینی ہوگی اور آگے بڑھنے لے قدم بھی اٹھانے ہوں گے۔ دولت والے بھی بگڑیں گے اور غریب بھی روئے گا مگر اس جراحی کے علاوہ، بدقسمتی سے، تمام راہیں مسدود ہیں۔ اب governance کا آرٹ یہ ہے کہ اس راستے کی تکلیف کو کیسے کم سے کم رکھا جائے۔
پٹرول کی قیمت بڑھانی ہے تو شاید حکومتی اخراجات میں بھی پٹرول کی مد میں اخراجات کم سے کم رکھنے ہوں گے جس کے لئے حکومتی physical نقل و حرکت کو covid کے زمانے والی remote working پر شفٹ کرنا بھی ایک آپشن ہو سکتی ہے۔ ڈالر کا ایکسچینج کمپنیوں کو سپرد کردینا اور ہنڈی کو نہ روکنا 1990 اور 2000کی دہائی کے چند بے سوچے سمجھے بنائے گئے قوانین کا نتیجہ ہے جن کو درست کرنے اور ان پر عمل درآمد کے لئے موجودہ اقدامات کو برقرار رکھنا ہے۔ بجلی کو renewable پر بھی جانا ہے مگر 2030 تک بجلی گھروں کی قسطیں ادا کرنے کے لئے موجودہ مہنگی بجلی کو بیچنا بھی ہے اور اس کی ضیاع اور چوری کو روکنا بھی ہے۔ ٹیکسوں کی کوالٹی کو بہتر کرنے کے تمام آمدنیوں اور اخراجات پر ایسے ٹیکس لگانا ہے کہ سب صاحب ثروت لوگوں سے ایک جیسی وصولی ہو سکے اور غریب اور نچلے متوسط طبقے پر ٹیکسوں کا بوجھ کم کیا جا سکے۔ اور ان سب کے دوران حکومت اور سیاست کے کچھ شعبوں پر یوں اتفاق رائے ہو کہ حکومت کے آنے جانے سے یہ طے شدہ رستہ اپنی جگہ قائم رہے۔
ان میں سے ہر چیز نے اپنی detail میں جاکر ٹھیک ہونا ہے اور وقتی اور superficial اقدامات اس کا حل نہیں۔ جزئیات تک معاملات کو جاننے والے اور ان میں بہتری کا احوال جاننے والے اندھے کباڑی کم ہیں مگر نا پید نہیں۔ ان کو ڈھونڈنے اور اختیار دینے کی ضرورت ہے۔ اچھے خوابوں والے وہ ہونگے جو آپ کو وہ مشورہ دیں گے جو قوم کو انعام یافتہ اقوام کے طریقے پر لے جائے گا اور اس راستے سے منع کریں گے جو بربادی اور گمراہی کے رستے پر لے جاتا ہے۔ مفت دیتے ہیں تو لے لیں کہ اچھے long term ideas کے دل کی بھٹی میں ڈھالے گئےخوابوں کو نہ اپنانے کی صورت میں دام، ساری قوم کو دینے پڑتے جیسے ابھی ہم دے رہے ہیں۔ راشد کی نظم پڑھئیے اور لطف اندوز ہوئیے۔
اندھا کباڑی
ن م راشد
شہر کے گوشوں میں ہیں بکھرے ہوئے
پا شکستہ سر بریدہ خواب
جن سے شہر والے بے خبر!
گھومتا ہوں شہر کے گوشوں میں روز و شب
کہ ان کو جمع کر لوں
دل کی بھٹی میں تپاؤں
جس سے چھٹ جائے پرانا میل
ان کے دست و پا پھر سے ابھر آئیں
چمک اٹھیں لب و رخسار و گردن
جیسے نو آراستہ دولہوں کے دل کی حسرتیں
پھر سے ان خوابوں کو سمت رہ ملے!
"خواب لے لو خواب۔۔ "
صبح ہوتے چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا
خواب اصلی ہیں کہ نقلی؟"
یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑھ کر
خواب داں کوئی نہ ہو!
خواب گر میں بھی نہیں
صورت گر ثانی ہوں بس
ہاں مگر میری معیشت کا سہارا خواب ہیں!
شام ہو جاتی ہے
میں پھر سے لگاتا ہوں صدا
مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب۔
"مفت" سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ
اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ
"دیکھنا یہ "مفت" کہتا ہے
کوئی دھوکا نہ ہو؟
ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو؟
گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں
یا پگھل جائیں یہ خواب؟
بھک سے اڑ جائیں کہیں
یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب
جی نہیں کس کام کے؟
ایسے کباڑی کے یہ خواب
ایسے نا بینا کباڑی کے یہ خواب!"
رات ہو جاتی ہے
خوابوں کے پلندے سر پہ رکھ کر
منہ بسورے لوٹتا ہوں
رات بھر پھر بڑبڑاتا ہوں
"یہ لے لو خواب۔۔ "
"اور لے لو مجھ سے ان کے دام بھی
خواب لے لو، خواب
میرے خواب
خواب میرے خواب
خواب
ان کے دام بھی