Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (11)
جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ (11)
دنیا کی سب سے مضبوط کرنسی یعنی امریکی ڈالر کے سب سے بڑے نوٹ پر بنجمن فرینکلن کی تصویر لگی ہے۔ دس سال کی عمر سے پڑھائی چھوڑ دینے والا یہ مزدور کا بیٹا اپنی محنت اور لیاقت کے بل بوتے پر دنیا کے بڑے لوگوں میں شمار ہوا۔ کیا ہمہ جہت شخصیت تھی۔ پرنٹنگ، صحافت، ادب، سائینس، سیاست، کاروبار، ایجادات، کمیونیکیشن، سفارت کاری اور آئین سازی میں اس کی خدمات آج بھی حیرت سے پڑھی جاتی ہیں۔ امریکہ کا صدر تو نہیں رہا مگر اپنی خدمات کے صلے میں پہلا امریکی شہری شمار ہوتا ہے۔
برطانوی سامراج کے دور میں شمالی نوآبادیات کا پوسٹ ماسٹر جنرل تھا اور آزادی کے بعد امریکہ کا پہلا پوسٹ ماسٹر جنرل۔ سائینس میں برقیات پر اپنی جان خطرے میں ڈال کر کی جانے والی ریسرچ، کنڈکٹر اور انسولیٹر مادوں کی شناخت کا باعث بنی۔ اس کا بنایا ہوا oven کوئی دو سو سال امریکہ میں رائج رہا۔ فرانس میں امریکہ کا پہلا سفیر بنا اور اپنے نوزائیدہ ملک کو فرانس سے مالی اور سفارتی امداد دلوائی۔ امریکی آزادی کی دستاویز اور دستور پر اس کی contribution اور دستخط اسے امریکہ کے founding fathers کا درجہ دیتے ہیں۔
ہر چند کے 1790 میں اپنی وفات کے وقت کچھ لوگ اس کی برطانیہ سے قربت کی بنا پر اس کی امریکہ سے حب الوطنی کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے مگر وفات کے بعد اور خاص کر اس کی خود نوشت سوانح کے چھپنے کے بعد اس کی عظمت کو تسلیم کرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔
بات کچھ اور کرنا تھی مگر ضروری تھا کہ بنجمن فرینکلن کا نام آئے تو اس کی بات بھی ہو۔ نام آنے کی وجوہات دو ہیں۔ اول تو یہ وہی زمانہ ہے جب برطانوی ٹیکسز کی بھرمار نے بہت سے اور عوامل کے ساتھ امریکہ کی آزادی کی جدوجہد میں catalyst کا کام کیا۔ فرینکلن نے تو 1754 ہی میں البانی سٹیٹ میں no taxation without representation کا نعرہ لگا دیا تھا (گو بعد میں اقبال کی طرح وہ بھی برطانوی راج اور مقامی راج کے بارے کچھ کنفیوژن کا شکار رہا۔ جیسے کہ stamp act 1765 پر اس کی بدلتے ہوئے نظریات سے عیاں ہے)۔
برطانوی راج کے اونٹ کی کمر پر آخری تنکا اغلبن 1773 کا Tea Act تھا (جس میں چین سے آئی چائے پر کمپنی بہادر کا ٹیکس لگا تھا) جس کے بعد بوسٹن ٹی پارٹی کا واقعہ ہوا (جس میں بآغیوں نے بندرگاہ پر کھڑے جہاز سے چائے کی بوریاں سمندر میں گرادیں ) اور آزادی کی جدوجہد نے زور پکڑا جس کا نتیجہ پہلے آزادی کی دستاویز میں اور بعد ازاں کوئی 1783 کے اردگرد برطانیہ سے مکمل آزادی کی صورت ظاہر ہوا۔ اس سے یہ سبق بھی ملا کے ٹیکسوں کا بے ڈھنگ نفاذ حکومتی بندوبست کو تتر بتر کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اپنے حالات پر نظر دوڑائیں تو یوں لگتا ہے کہ ہمارا ٹیکس کا نظام بہت سے غیر مساوی اور adhoc ٹیکسوں کا مرقع ہے جس نے ہمیں ترقی کی راہ پر جانے سے روک رکھا ہے اور ڈر ہے کہ یہ نظام بڑھتی مہنگائی کے اس دور میں کسی موقع پر social unrest کا باعث نہ بن جائے (گو اس کا امکان کم ہے)۔
ایک ترقی یافتہ معیشت کا دارومدار کارپوریٹ انتظام اور بڑی صنعتوں اور اداروں پر ہوتا ہے۔ یہی کمپنیاں اور ادارے سمال اینڈ میڈیم انٹر پرائز ز کے بڑے خریدار ہوتے ہیں۔ ہمارا موجودہ کارپوریٹ ریٹ بمع سپر ٹیکس اس خطے کے سب سے زیادہ ریٹ پر چلا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھی وصول کئے جانے والے ٹیکسوں کا 80 فیصد بوجھ اسی formal طبقے پر تھا اور اس سال سپر ٹیکس کی continuation سے خطرہ ہے کہ بہت سا formal اور documented sector بھی informal sector میں جانے کی کوشش کرے گا جس سے قومی ترقی میں مزید کمی ہوگی اور بے روزگاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔
ایک اور خرابی آمدنی یا آمدنی کی close proxy نہ ہونے والی transaction پر ٹیکس ہے۔ ٹھیکے، سامان کی سپلائی، درآمدات، بجلی، گیس، بینک چیک، برآمدات، فون، گاڑی کی خرید / رجسٹریشن / ٹوکن، زمین کی خرید و فروخت پر ودہولڈنگ ٹیکس اس کی عام مثالیں ہیں۔ پاکستان کے علاوہ شاید ہی دنیا کا کوئی ملک اس طریقے اس انکم ٹیکس جمع کرتا ہے۔ چونکہ ان transactions کا آمدن سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا اس لئے یہ ٹیکس ایک قسم کا سیلز ٹیکس بن جاتا جس کا قریب تمام تر بوجھ حتمی good یا service کے خریدار پر منتقل ہو جاتا ہے جس سے منتج طلب کی کمی سے مجموعی قومی پیداوار اپنی صلاحیت سے کم رہ جاتی ہے۔
بعض اوقات یہ ٹیکس ان لوگوں پر بھی لاگو ہو جاتے ہیں جن کی آمدن 6 لاکھ کی بنیادی چھوٹ سے کم ہے۔ اس کی ایک مثال موبائل فون کے سترہ کروڑ کنکشنز سے وصول کیا جانے والا ٹیکس ہے جس کا دو تہائی حصہ ان لوگوں سے وصول ہوتا ہے جن کا ماہانہ بل 500 روپے سے کم ہے اور ان میں مالی، مزدور، ڈرائیور، گھریلو ملازمین اور ریڑھی بان بھی شامل ہیں۔
اسی طرح دنیا بھر میں کھانے کی خام اشیا، انکی inputs اور ادویات پر سیلز ٹیکس نہیں۔ ہمارے ہاں کھاد کی input پر بھی ٹیکس ہے، pesticide اور زرعی آلات پر بھی اور ادویات پر بھی۔
ایک اور distortion بارسوخ طبقے کو آمدن اور امپورٹ پر چھوٹ دینے سے آتی ہے اور ہمارا کسٹم ایکٹ کا پانچواں شیڈول اس سلسلے کی ایک مثال ہے۔ زمین مکان کی آمدن پر خرید کے چار برس بعد فروخت پر منافع پر ٹیکس کا نہ ہونا بھی یہی کچھ ہے۔
ٹیکس distortion کی تیسری صورت ٹیکسوں کی غیر مساویانہ وصولی ہے جس میں دس لاکھ آمدن بتانے والے تنخواہ دار اور تاجر کے وسائل میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر ٹیکس کا بوجھ ایک سا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ دس لاکھ بتانے والے کی آمدن 10 کروڑ ہوگی اور تنخواہ والے کی وہی 10 لاکھ۔ اس بات سے فرینکلن کی دوسری بات یاد آئی۔ اس کا مشہور قول ہے کہ اس دنیا میں موت اور ٹیکسوں سے مفر ممکن نہیں۔ یہ بات اس نے اپنے فرانسیسی دوست لی رائے کو خط میں اپنی موت سے ایک سال قبل امریکی حالات بتاتے ہوئے سن 1789 میں لکھی تھی۔
Our new Constitution is now established, everything seems to promise it will be durable; but, in this world, nothing is certain except death and taxes.
اس بات سے قطع نظر کے ٹیکس اچھے تھے یا برے، مجھے انگریز یا امریکہ کے ٹیکس کے نظام پر ضرور حیرت ہوتی ہے جہاں اٹھارہویں صدی میں بھی لوگوں کو موت کی حد تک ٹیکس وصول کیے جانے کا یقین تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے انور مسعود کو منیر نیازی کو یہ بات بتاتے ہوئے تھا کہ جسم کے دو عضو ایسے ہیں جنہیں کاٹنے سے نہ خون نکلتا ہے نہ درد ہوتا ہے۔ یعنی ناخن اور بال۔ جس پر منیر نے ایک توقف کے بعد کہا تھا کہ " انور! توں ساڈے پنڈ دا نائی نئیں ویکھیا (انور! لگتا ہے تم نے ہمارے گاوں کا نائی نہیں دیکھا)۔
حیف! بنجمن فرینکلن نے یہ بات کرتے وقت پاکستان کے ٹیکسوں کا آج کا نظام نہیں دیکھا تھا، جہاں موت کا مزا تو سب نے چکھنا ہے مگر ٹیکس کی بیشتر ذمہ داری وہی پچیس کروڑ میں قریب لاکھ دو لاکھ کی ہی رہے گی۔