Jahannam Ki Air Conditioning Ka Theka (1)
جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ (1)
استاد یوسفی نے آب گم کے پیش لفظ میں اسی کی دہائی کے اواخر کے حالات پر یہ جملہ لکھا تھا کہ پاکستان کے حالات کو بہتر بنانا گویا جہنم کی ائر کنڈیشننگ کا ٹھیکہ لینا ہے۔ یہ اس آدمی کا تبصرہ تھا جو پاکستان بننے سے ٹوٹنے تک ملک کے معاشی حالات براہ راست ایک بینک میں اعلیٰ عہدیدار کی حیثیت سے دیکھتا رہا اور ایک نامور اور حساس ادیب کے طور پر اس معاشرے کے سیاسی اور سماجی ارتقا (زوال) کو محسوس کرتا رہا۔
بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن کے وقت یوسفی اغلبن یونائیٹڈ بینک کے سربراہ تھے۔ یہاں سے بے روزگار ہو کر آغا حسن عابدی کے ساتھ بی سی سی آئی چلے گئے اور اس کے کسی سکینڈل کی زد میں آئے بغیر 1990 کے آس پاس واپس پاکستان آ گئے اور ڈیڑھ سال قبل اپنی وفات تک زیادہ تر کراچی میں مقیم رہے۔ اردو ادب میں نثر میں مزاح نگار کی حیثیت میں نظر آنے والا یہ شخص دراصل ہر حوالے سے اردو ادب کا سب سے بڑا نثر نگار ہے۔
جملے کی بنت، کاٹ اور اثر انگیزی میں کوئی نثر نگار ان کی پاؤں کی گرد کو بھی نہیں پہنچتا اور اس میں جب ان کا وسیع مطالعہ، عمیق مشاہدہ اور بے مثل تجزیہ بھی شامل کر لیں تو تمام اردو ادب میں شعر میں غالب اور نثر میں یوسفی کا کوئی ہمسر نہیں۔ غالب تو پھر اپنی خانہ ساز اور دیگر غذائی اور سماجی مجبوریوں کے طفیل بادشاہوں اور انگریزوں کے قصیدے لکھتے رہے مگر یوسفی صاحب کو اللہ نے اس سے بھی بے نیاز رکھا۔ تمہید بے حد طویل ہوگئی کہ یوسفی ہمارے روحانی استاد، محبوب اور ممدوح ہیں۔
مگر بات پاکستان کے حالات کی ہے جو سدھرنے کی بجائے شاید اس کے قیام سے ہی رو بہ زوال ہیں۔ پاکستان کے ہندوستان میں واپس ضم ہو جانے کا امکان نہرو، گاندھی اور آزاد کے ہاں یقین کی حد تک موجود تھا۔ اس کے بنے رہنے میں شاید کسی حد تک بین الاقوامی طاقتوں (امریکہ، برطانیہ) کا بھی کچھ کردار رہا ہوگا کہ نہرو کے سوشلسٹ رحجانات کے ساتھ روس اور چین کے کمیونسٹ اور سوشلسٹ ایجنڈا کو روکنے کے لئے انہیں ایسے ملکوں کی ضرورت تھی (اسی سے ملتا جلتا کام جنوبی کوریا اور جنوبی ویتنام سے بھی لیا جا رہا تھا)۔
لیاقت علی خان کا امریکہ کے ساتھ ترجیحی تعلقات کا قیام اور پھر بعد میں ہمارا سیٹو اور سینٹو میں جانا انہی وجوہات کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستان کی نوزائیدہ مملکت کو واپس اکھنڈ بھارت میں شامل ہونے سے روکنے کی یہ کوشش ہمارے اکابر سیاستدانوں اور اہل حشم کی جانب سے سب سے سہل اور تن آسانی والی آپشن تھی جس کے طفیل ہم 1950 سے 1988 تک کا وقت گزار گئے۔ اس دوران ملنے والی بے شمار فوجی اور مالی امداد کو ہمارے مقتدر لوگوں نے ایسے ہی خرچ کیا جیسے رو بہ زوال مغلیہ حکومت کیا کرتی تھی۔
پچاس کی دہائی میں ایک اچھے آئینی بندوبست سے انحراف، من پسند امراء پر عنایات، عام انتخابات سے فرار اور لیاقت علی خان، غلام محمد اور اسکندر مرزا (اور ان سب کے پیچھے ان کے چنیدہ وزیر دفاع کی طاقت) کی مطلق العنانیت اور اپنے اقدامات کے consequences سے بے پروائی اس بات کی غماز ہے کہ اس زمانے کی سیاست (اور اس کے بعد آنے والے تمام زمانوں کی سیاست) صرف ذاتی اقتدار اور اختیار کی consolidation اور توسیع کی خواہش کے علاوہ کچھ نہیں رہی۔
پاکستان کے دوام کے لئے بطور ایک anti socialist rentier state حاصل کی گئی، بین الاقوامی امداد اور تعاون شاید ہمارے تمام برے قومی فیصلوں کی بنیادی اساس ہے۔ اس equation میں 60 کی دہائی کے آغاز میں بڑھی انڈیا چائنہ مخاصمت کے نتیجے میں چین کی امداد بھی شامل کر لیں تو ان بے جا فیصلوں کا جواز اور بھی واضح ہو جاتا ہے۔
اگر ہمیں اپنے دوام اور بقا کی جنگ اس بین الاقوامی امداد کے steroid کے بغیر لڑنا پڑتی تو شاید آج ہم ایک تن آسان، امداد کے منتظر، قرضوں کے متمنی، صنعت اور حرفت سے نا آشنا اور محمد شاہ رنگیلا جیسے فیصلے کرنے والی قوم کی بجائے شاید تھوڑے سے غریب مگر ذمہ دار فیصلے کرنے والی خوددار قوم ہوتے۔ ہمارے حکمرانوں کے لایعنی اور سمجھ میں نہ آنے والے فیصلے اسی نہ لڑی جانے والی بقاء کی جنگ کا شاخسانہ ہیں جو ہماری قوم کی اشرافیہ نے نہیں لڑی (بنگلہ دیش نے یہ جنگ خاص کر اکیسویں صدی میں لڑی اور آج ترقی اور وقار کی راہ پر گامزن ہے)۔
ذرا غور کیجئے کہ یہ بقا کی جنگ اگر ہم خود سے لڑتے تو مشرقی پاکستان کے سیاسی اور ان لیکچوئل ایلیٹ کو معاشی، سماجی اور سیاسی فیصلوں میں اس برے طریقے سے نظر انداز کیا جا سکتا تھا؟ کیا ہزار میل کے فاصلے سے بٹے دو حصوں میں 1947 سے 1970 تک عام انتخابات کو avoid کیا جا سکتا تھا؟ کیا حسین شہید سہروردی، جو متحدہ بنگال کا وزیراعلٰی رہ چکا تھا (اور جس کی عوامی مقبولیت مسلم لیگ کے ووٹ بینک کی مرہون منت نہ تھی) ایک فالج زدہ اور فاتر العقل گورنر جنرل کے فرمان سے وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کیا جا سکتا تھا؟
کیا ہمسائے میں نہرو کے اقدامات کے برخلاف landed elite کی انگریز حکومت کی چاپلوسی سے حاصل کردہ بے شمار رقبوں کو بغیر land reforms کے چھوڑا جا سکتا تھا؟ کیا 2018 تک ملک میں قبائلی علاقے انگریز کے پولیٹیکل ایجنٹ کے انتظام سے چلائے جا سکتے تھے؟ کیا بلوچستان کی صوبائی حیثیت 23 سال تک روکی جا سکتی تھی؟ کیا لائسنس راج سے جنم لینے والی صنعتی، بینکنگ اور تاجر اشرافیہ کو امیر سے امیر تر ہونے کی اجازت دی جاسکتی تھی؟
کیا کسی کو مشرقی پاکستان کے ملک کا حصہ ہوتے ہوئے اور کراچی کی demography کو سمجھتے ہوئے پوٹھوہار کی ایک غیر آباد جگہ پر دارالحکومت بنانے کی اجازت دی جا سکتی تھی؟ (کراچی کی وسیع الاقوامی بنت، اس کی بندرگاہ اور جغرافیائی حیثیت اس بات کی متقاضی تھی کہ یہ ہمیشہ ایک capital territory رہتا۔ اگر کراچی اپنی بوہیمین اساس برقرار رکھتا اور اگر نیشنلائزیشن نہ ہوتی تو دوبئی، دوحہ، ابوظہبی اور بنکاک آج بھی تیسرے درجے کے شہر ہوتے)۔
پھر بہت سے ایسے مسائل بھی تھے جو بنیادی، سماجی اور جمہوری ارتقاء کے عمل سے انحراف کے باعث اور بقا کی جنگ لڑنے سے گریز کی وجہ سے ہمارے مقتدر طبقے کے سامنے آئے اور ہمارے کم نظر، اقتدار کے دوام اور سستی مقبولیت کے خواہاں لوگوں نے وہ فیصلے کئے کہ جس کے نتیجے میں ہمارے سماج میں تھیوکریسی نے اپنی جڑیں مضبوط کیں اور جس کے باعث آج ہم اکثر معاملات میں آج کے سعودی عرب سے بھی زیادہ کٹر، شدت پسند اور (کمزوری کے باوجود) اپنی رائے کو مطلق سمجھنے اور اس پر عمل درآمد کروانے پر مصر رہنے والا معاشرہ ہیں جس کے سفر کی سمت ہمیں بین الاقوامی تنہائی کی طرف لے جانے پر، گامزن ہے۔
اگست 1947 سے دسمبر 1971 تک کے غیر ذمہ دارانہ، لایعنی اور ذاتی اقتدار کو دوام دینے کے "مخلصانہ" فیصلوں کی ایک لمبی تاریخ ہے جن کا مکمل احاطہ اس تحریر میں ممکن نہیں۔ یہ نہیں کہ اس دور میں زرعی اور صنعتی ترقی ناپید تھی یا عوام اور حکومت کسی حد تک (خاص طور بھارت اور قریبی ممالک کے مقابلے میں ) خوشحال نہ تھی مگر یہ سارا بندوبست شاخ نازک پہ وہ آشیانہ تھا جس کی ناپائیداری کا مرض آج بھی ہمیں کھا رہا ہے۔
اس سے آگے چلیں تو ایک وقفہ کٹے پھٹے پاکستان کو اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑا کرنے کا ہے جس میں 1972 سے 1977 کے اچھے برے فیصلے ہیں۔ پھر ہماری جہد للبقاء سے عاری 1979 سے 1988 اور پھر دوبارہ 2001 سے 2007، جہاں ہماری فرنٹ لائن خدمات ہمیں درست معاشی، سماجی اور سیاسی ارتقا سے پرے رکھتی رہیں۔ اس میں نوے کی دہائی اور 2008 سے آج تک کا سفر بھی شامل کر لیں جب ہم نے اپنا رہن سہن، فیصلوں کا طریقہ اور قومی عادات وہی رکھیں جو امداد اور قرض، کے بگاڑے، فقرے رئیسوں کی ہوتی ہیں۔
یاد رہے کہ فیصلوں اور حکومت کے مروجہ انداز سے مختلف نتیجوں کی توقع کو آئن سنائین احمق ہونے کا ثبوت قرار دیتا ہے۔ میری رائے میں اس عدم ارتقاء اور اس بقاء کی جنگ سے انحراف نے آج ہمیں وہ بنا دیا ہے جو ہمیں نہیں ہونا چاہئے تھا۔ میری نظر میں پاکستان کو مختلف ادوار میں یہ بین الاقوامی امداد کی تن آسانی مہیا نہ ہوتی تو ہم پاک چائنہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچتے۔
سوئی گیس کے قیمتی ترین ذخیرے کو سی این جی گاڑیوں کی دیا سلائی سے محفوظ رکھتے۔ حکومتوں کے خرچوں کو قابو میں رکھتے (اس بجٹ میں صوبائی اور وفاقی حکومت کے اخراجات قریب چودہ کھرب ہیں جس میں وفاق اور صوبوں کے غیر دفاعی اور غیر ترقیاتی اخراجات ساڑھے پانچ کھرب کے ہیں)۔ یہ تن آسانی نہ ہوتی تو ہم گورننس کی بہتری پر محنت کرتے جس میں سرکاری اہلکار نوٹ لکھنے اور بنانے کی بجائے آبی گزرگاہوں میں عمارتیں بنانے سے روکتے۔
تعلیم اور صحت، جس پر سرکار سال کے 1500 ارب خرچ کرتی ہے، اس گرے ہوئے معیار پر نہ ہوتی جو لوئر مڈل کلاس والوں کو بھی پرائیویٹ سکولوں اور ہسپتالوں کا راستہ دکھاتی ہے۔ ہمارا ٹیکس کا نظام زیادہ آسان، منصفانہ اور فعال ہوتا۔ ہماری انتظامیہ اور پولیس لوگوں کے استحصال اور حکومت کرنے والا ہونے کی بجائے ان کی مددگار ہوتی۔ ہمارے خارجہ تعلقات دشمنی اور بھیک مانگنے کے مواقع ڈھونڈنے کی بجائے تجارت، سرمایہ کاری اور ہمہ گیر دوستی پر استوار ہوتے۔
ممکن ہے کہ اس ترقی معکوس کی اور وجوہات بھی ہوں (جو یقیناََ ہوں گی) مگر پاکستان کی تاریخ اچھے فیصلے نہ کرنے، دستک دیتی ہوئی opportunities کو نظر انداز کرنے اور نیوٹن کے inertia سے مشتق جمود یا بے سمت حرکت سے عبارت ہے جو ہمیں اور ہمارے ہم وطنوں کو اسی نیم زندہ نیم مردہ حالت میں حنوط کئے رکھے گی جب تک status quo کے مدار سے نکلنے کی توانائی اور درست سمت کا تعین مہیا نہیں ہوتا۔
فیض کہہ گئے ہیں کہ:
وصال یار بڑی چیز ہے مگر ہمدم
وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں۔