Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Hamid Ateeq Sarwar
  4. Hukumat Ka Muashi Kirdar (2)

Hukumat Ka Muashi Kirdar (2)

حکومت کا معاشی کردار (2)

بات ہو رہی تھی حکومت کے معاشی کردار کی اور اس بات کی موجودہ بجٹ یا اس سے پہلے آنے والے کئی تخمینوں میں اخراجات کیا حکومت کی معاشی ذمہ داریوں کے مطابق ہیں یا ان سے لا تعلق۔ یقیناََ حکومت کی کچھ سیاسی اور سماجی ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں مگر ہمارا موضوع صرف حکومتی اخراجات کے معاشی پہلو کے دائرہء کار کو معین کرنا ہے۔ اگر دور حاضر کی حکومتیں عوام کے ووٹوں سے آتی ہیں تو لا محالہ انہیں یہ ثابت کرنا ہے کہ ان کی جانب سے وصول کیا گیا ایک ایک پیسہ (ٹیکس جمع قرض) خرچ کئے جانے کا معاشی، اخلاقی، سماجی یا سیاسی جواز رکھتا ہے ورنہ لوگوں سے ٹیکس کی وصولی یا ان کے نام پر لیا گیا قرض سراسر بے جا ہوگا۔

ان حوالوں سے اگر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے اخراجات کی پرکھ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے ہمارے دگرگوں معاشی حالات کے سدھار کی ایک صورت مزید ٹیکسوں اور مزید قرضوں کے علاوہ بھی دکھائی دینے لگے گی۔ ایک دفعہ یہ طے ہو جائے کہ کسی خرچ کا معاشی جواز موجود نہیں تو پھر سوشیالوجی اور پولیٹیکل سائنس کے ماہرین ان اخراجات کی سماجی اور سیاسی توجیہہ پر بحث کر سکتے ہیں (ہر چند کہ معاشی، سماجی اور سیاسی پہلو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا بعض اوقات ناممکن ہوتا ہے)۔

گزشتہ حصے میں ہم اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ حکومت کا معیشت میں کردار عمومی طور پر تین طرز کا ہے۔

1: مارکیٹ فیلیئرز کی درستگی کا ادارہ جاتی بندوبست۔

2: فسکل، مالیاتی اور ایکسچینج ریٹ پالیسی سے میکرو اکنامک اشاریوں کو قابل برداشت حد میں رکھنا۔

3: کاروبار کے لئے سازگار ماحول جس میں امن، حفاظت، انصاف، سیاسی استحکام، انفراسٹرکچر، لوگوں کی فیصلہ سازی میں شرکت شامل ہیں۔

مارکیٹ فیلیئرز یا مارکیٹ نظام کی ناکامی کو کتابوں میں اکثر پانچ اشکال میں بیان کیا جاتا تھا اور اب امرتیا سین کے معرکتہ الآرا کام کے بعد "انتہائی غربت" کو اب مارکیٹ میکانزم کی ناکامی ہی گردانا جاتا ہے اور اسی طرح یہ دیکھتے ہوئے کہ غربت بھی مارکیٹ میکانزم میں ذرائع اور منافع کی غیر مساواتی تقسیم کا ایک نتیجہ ہو سکتی ہے اس لئے equitable distribution بھی ایک طرح کا مارکیٹ فیلیئر ہی ہے کہ market efficiency اور equity کا بیک وقت حصول ناممکن گردانا جاتا ہے۔

سو مارکیٹ فیلیئرز سات ہوئے، پبلک گڈز کی عدم فراہمی، مناپلی اور کارٹل، ایکسٹرنیلٹی (فضائی آلودگی وغیرہ)، خریدار اور فروخت کنندہ کے درمیان information asymmetry، نامکمل مارکیٹ، انتہا درجے کی غربت اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم۔

بنیادی مارکیٹ فیلیئرز(failures) میں اول، پبلک گڈز کی عدم یا کم دستیابی ہے۔ یعنی انسانی نفسیات ہے کہ اجتماعی کاموں میں تمام تر لوگ خرچہ کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ پچاس گھروں کے درمیان پکی گلی بننے سے سب آبادی کا بھلا ہو سکتا ہے اور کاروباری منافع بھی بڑھ سکتا ہے مگر اس کے لئے پیسے دینے میں سب فائدہ حاصل کرنے والے شامل نہیں ہوتے۔ مگر جب چند سرپھرے لوگ کسی طرح یہ کام کر جائیں تو ہر رہنے والا اور آنے جانے والا اس سہولت سے مفت فائدہ اٹھاتا ہے۔

اگر گلی بننے میں یہ مشکل ہے تو سوچیں کہ کراچی سے حیدرآباد کی موٹر وے اپنی مدد آپ کے ساتھ کیسے بن سکتی ہے؟ اس کے مقابلے میں حکومت ایسے کاموں کو لوگوں سے وصول کردہ ٹیکسوں سے یعنی انہی کے دئے گئے پیسوں سے یہ کام بآسانی کر لیتی ہے۔ یہی حال دفاع، انصاف، امن عامہ وغیرہ پر مناسب خرچے میں بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دفاع اور انفراسٹرکچر پر خرچ اپنی معاشی توجیہہ رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ دفاع کے زمرے میں خرچ کیا صرف combat اور نیشنل آرمی کے لئے محدود رکھا جائے یا ایک مکمل standing army اپنے تمام ویلفیئر لوازمات کے ساتھ۔

اس بات کا زیادہ تر انحصار ملک کی جغرافیائی لوکیشن اور ہمسایوں اور دوسرے ممالک کے متعلقہ ملک کے بارے میں جارحانہ عزائم پر مبنی ہے۔ طویل المدتی جنگ کے خطرے یا عزائم والے ممالک دفاع کے لئے ایک زیادہ مربوط نظام مرتب کرتے ہیں جب کہ نسبتاََ پرامن خطے کے لوگوں کا دفاع پر خرچ کم رہتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جنگ کے خطرے یا عزائم والے ممالک کسی بڑی تاریخی تبدیلی (جاپان، اٹامک حملے کے بعد یا جرمنی دوسری جنگ عظیم کے بعد) کی عدم موجودگی میں اپنے مومینٹم کی وجہ سے اپنے سائز اور خرچ میں اضافے کی طرف مائل رہتا ہے۔

اسی طرح انفراسٹرکچر کا خرچ بھی پبلک گڈ کے زمرے میں آتا ہے مگر کئی ممالک پہلے انفراسٹرکچر پر خرچ کرکے ترقی کرتے ہیں اور بعض دوسرے ذرائع سے ترقی کرکے سٹیٹ آف دی آرٹ انفراسٹرکچر کی طرف آتے ہیں۔ بنگلہ دیش اور بھارت ہم سے کہیں زیادہ امیر ہونے کے باوجود پاکستان جیسی موٹروے وغیرہ (خاص طور پر 2010 تک) نہیں رکھتے تھے مگر ہم نے قرض لے کر ان میگا پراجیکٹس کی راہ اپنائی۔

اس بارے میں سوچا جا سکتا ہے کہ ہمیں پبلک انفراسٹرکچر پر کس حد تک خرچ کرنا چاہئے۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں اس مد میں اربوں ڈالر خرچ کرکے عوامی پذیرائی تو حاصل کی جا سکتی ہے مگر ہماری صوبائی اور وفاقی اخراجات میں قریب ڈھائی سے تین کھرب کے ترقیاتی اخراجات میں نہایت احتیاط کی ضرورت ہے اور پہلے سے کئے گئے ایسے خرچوں کے مکمل، cost benefit analysis کے بغیر ایسا کچھ کرنا ایک کم وسائل کے لئے کسی حد غیر ضروری ہے۔

میرے اپنے تجربے میں پلاننگ کمیشن اور صوبائی پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کے زیادہ تر منصوبے غیر مربوط، myopic اور مقامی سیاسی تقاضوں کے تحت بنتے ہیں۔ ٹاپ ڈاؤن ترقی کی پلاننگ کا یہ انتظام بھارت میں 2014 کے بعد سے متروک ہے۔ وہاں اب صرف NITI آیوگ کے نام کا ایک ادارہ قائم ہے (کل بجٹ 4 ارب INR) جو bottom up اپروچ کے تحت صوبوں کی رہنمائی کرنے کا تھنک ٹینک ہے۔ جب کہ ہمارے یہاں وفاق کے تمام تر ترقیاتی کام (اس سال قریب 1300 ارب) پلاننگ کمیشن کی منظوری اور نگرانی میں ہوتا ہے اور یہی حال اور بجٹ صوبائی پلاننگ اور ڈویلپمنٹ کے اداروں کا ہے۔

ہر نئے بننے والے سکول، ٹریننگ ادارے، ڈسپنسری، ڈیم، گرڈ سٹیشن، ٹرانسمیشن نظام، سٹیڈیم، نہر، سڑک اور ادارے کے ساتھ اس کو چلانے کا خرچ، نئے ملازمین کی تنخواہ اور پینشن کا خرچ حکومت کے پہلے سے جاری اخراجات کے بوجھ کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ ترقیاتی اخراجات بجائے خود اتنا بڑا misnomer ہے کہ جس سے عوام تو ایک طرف، بہت معقول معاشی ماہرین بھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔ ہماری نیشنل اکاؤنٹنگ کے طریقے میں پہلے سے موجود ہسپتال اور سکول میں تعلیم اور صحت کے معیار کو بہتر کرنے کا خرچ "غیر ترقیاتی" ہے جبکہ آبادی سے سو کلومیٹر دور نئے سکول یا ڈسپنسری پر لگنے والی اینٹیں"ترقیاتی اخراجات" ہیں۔

یہ بحث بھی ضروری ہے کہ تعلیم اور صحت پر ہمارے جیسے ملک کو کتنا اور کہاں خرچ کرنا چاہئیے۔ ڈویلپمنٹ اکنامکس کے گرو اس بات پر متفق ہیں کہ ہمارے جیسے ممالک میں حکومت کو تعلیم پر زیادہ سے زیادہ انٹرمیڈیٹ لیول تک خرچ کرنے کی ضرورت ہے اور یونیورسٹی تعلیم کا خرچ نجی شعبے میں رہنا چاہئے اور حکومت لائق طلبا کو بلا سود قرض وغیرہ دے کر اعلیٰ تعلیم دلوا سکتی ہے۔

صحت کے شعبے میں بھی ملکی سطح پر سرکاری خرچ کے سب سے زیادہ فوائد ثانوی صحت کے اداروں (ڈسٹرکٹ ہسپتال، رورل ہسپتال) تک محدود ہیں اور حکومت کو گردہ، دل، جگر کے اداروں پر خرچ نہیں کرنا چاہئیے کہ نجی شعبہ یہ سہولیات دے سکتا ہے اور حکومت انشورنس کے نظام میں حصہ داری کرکے موجودہ صورت سے بہتر contribute کر سکتی ہے۔

اگر ان دلائل کو مان لیا جائے تو حکومتی اخراجات کا ایک بڑے حصے سے ہماری جان چھوٹ سکتی ہے۔ گو یہ پولیٹیکل اکانومی کے تحت ناممکن دکھتا ہے مگر صحیح پبلک گڈ کے زمرے کے اخراجات شاید اس بہانے سے کئے جانے والے اخراجات کے پچاس فیصد سے زائد نہیں۔ اس مد میں درستگی کرکے حکومتوں کا خرچ کچھ 6 ارب کم کیا جا سکتا ہے جو ہماری زوال پذیر معیشت کو دوبارہ ٹھیک رستے پر ڈال سکتا ہے مگر بہرحال موجودہ نظام میں یہ ایک نہایت سخت اور مشکل فیصلہ ہے۔

(جاری)

Check Also

Aik He Baar

By Javed Chaudhry