Mard Bhi To Insan Hai Na
مرد بھی تو انسان ہے نا
چچا جان آج بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ جیسے ان کے گھر چاند اتر آیا ہو۔ مسلسل تین بیٹیوں کی پیدائیش کے بعد آج اللہ نے ان کو ایک خوبصورت بیٹے سے نوازا تھا۔ ویسے تو بیٹی گھر کی رحمت ہوتی ہے میرا اس بات سے کوئی اختلاف نہیں لیکن بیٹا بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ باپ کی زندگی اور خاص طور پر بڑھاپے کا سہارا، بھائی کا حوصلہ و بازو اور بہن کی عزت کا محافظ ہونے کے ساتھ ساتھ ماں کی آنکھوں کا تارا ہوتا ہے۔ چچا جان خوش تھے کہ ان کے بڑھاپے کا سہارا اس دنیا میں آ چکا تھا، بہنیں بھی اپنے وِیر کی آمد کو لے کر اپنی چھوٹی بڑی خواہشات کا تذکرہ کرتے ہوۓ نظر آ رہی تھیں۔ ایک ماں ہی تھی جو بنا کسی مقصد اور خواہش کے اپنے بیٹے کو جان نچھاور کرنے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
میری نظر اس بچے پر ٹکی ہوئی تھی جس نے مکمل طور پر اپنی آنکھیں تو نہیں کھولی تھیں مگر اس کی تمام ذمہ داریاں اس کے بڑے ہونے کے انتظار میں قطار بناۓ اس کے سرہانے کھڑی ہوئی تھیں۔ میں اس سوچ میں گم تھا کہ سارا خاندان اس بچے کی پیدائیش کی خوشیاں منا رہا ہے "سواۓ اس بچے کے"۔
کچھ ہی برس گزریں گے جب یہ (بیٹا) چلنے پھرنے کے قابل ہو جاۓ گا تب اس کا باپ بہت ہی فخر سے اسے باہر گھومنے لے کر جایا کرے گا۔ مزید یہ کہ اس کی بہنیں گھر سے باہر جاتے وقت اک محافظ کی حیثیت سے اسے ساتھ لے کر چلنے میں فخر محسوس کریں گی۔ وقت گزرے گا لڑکپن سے ہوتا ہوا جب یہ جوانی کے دور میں قدم رکھ رہا ہوگا تبھی اس کا باپ اسے روزگار میں ہاتھ بٹانے کو بولے گا۔ یہاں سے آغاز ہوگا اس کی اصل ذمہ داریوں کا۔ کچھ ہی سالوں میں بہنوں کی شادیوں میں اپنے فرائظ ادا کرنا بھی اسی بیٹے کی اولین ترجیح ہو گی۔
زندگی کے تقریبا بیس سے پچیس سال تک بیچارا اپنے گھر کی ہی ذمہ داریوں کو سمیٹ رہا ہوگا کہ اس کی ذاتی ذمہ داری بھی اس کے سر پر ہوگی "جی ہاں! میں اس کی شادی کی ہی بات کر رہا ہوں" اس کی گزشتہ زندگی میں شاید اس کی اپنی شادی اس کے کسی بھی منصوبے کا حصہ نہیں رہی ہوگی۔ ظاہر بات ہے اپنی شادی کے اخراجات کا سہرا بھی جناب کے سر پر ہر سجے گا "اور بڑی شان کے ساتھ"۔
اپنی شادی کے بعد کہ جو حالات ہوں گے وہ کچھ اس طرح سے کہ ماں باپ اور بیوی کے درمیان مساویانہ تقسیم "جو شاید آج تک ممکن نہیں ہو سکی"۔ شادی کے کچھ عرصے بعد جب اللہ اس (بیٹے) کو اولاد سے نوازے گا تو اس کی اگلی نسل کی ذمہ داری بھی اسی دن سے شروع ہو جاۓ گی۔ غرض یہ کہ زندگی میں کوئی بھی لمحہ مرد کی زندگی میں ایسا نہیں آتا کہ اُس کو سکون میسر آ سکے۔
شور و غل تیز ہوا اور میں اپنے خیالات سے باہر آیا تو بیٹا مسکرا رہا تھا اور میری آنکھوں میں شاید نمی تھی۔ شاید اس نے تمام ذمہ داریاں ہنسی خوشی قبول کرلی ہوئی تھیں اور اس وقت سے ہی وہ بالکل تیار تھا۔ میں نے دبے ہونٹوں نا چاہتے ہوۓ بھی سارے خاندان کو مبارکباد دی اور وہاں سے چلا آیا۔