Yahan Sab Ka Apna Apna Haq Hai
یہاں سب کا اپنا اپنا "حق"ہے
گرما گرم سیاسی موضوعات ہیں، ایک معاملے میں ہمارے محب مکرم کا طنز بھی۔ کیا کیا جائے۔ بظاہر اب صورت یہ بن گئی ہے کہ آپ عمران خان کے حامی نہیں ہیں تو صحافی کیا آزاد شہری بھی نہیں بلکہ غلام ہیں۔ انسانی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے، ہر نئے مذہب، عقیدے اور کسی بھی خیال پر جمع ہوئے گروہ سبھی نے دوسروں کے لئے یہی رویہ رکھا۔
ہم سارے ہی بس اپنے اپنے "حق" کو حق سمجھتے ہیں۔ اسی لئے یہ بھی حق ہے کہ جس کو چاہو گستاخ قرار دے کر اس کے خاندان کی زندگیاں خطرے میں ڈال دو، سلیقے کی تنقید کی بجائے گالیاں دو اور سر پر آن پڑے تو رونا دھونا شروع کردو۔ پچھلے دور میں جب مطیع اللہ جان، حامد میر، ابصار عالم، اسد طور وغیرہ زیرعتاب رہے کس نے کیا کہا۔
سیدہ عاصمہ شیرازی کے خلاف غلیظ ترین سوشل میڈیا مہم چلائی گئی۔ چند دن قبل گرفتار ہونے والے ایک یوٹیوبر تو ایک مظاہرہ میں سیدہ عاصمہ شیرازی کے خلاف غلیظ نعرے لگواتے رہے۔ سچ یہ ہے کہ جدید کیمروں اور سوشل میڈیا نے پیاروں کے سچ جھوٹ کا پول کھول دیا ہے۔ طنز ہوا تم بھی تو ضیاء دور کے تشدد اور قلعہ میں گزرے دن مہینوں کی داستانیں سناتے رہتے ہو، کاش اس وقت ویڈیو بن جاتی سچ سامنے آجاتا۔
بات درست ہے، اس سے درست بات یہ ہے کہ ضیائی جبروستم سے نجات ملنے کے بعد سے لمحہ موجود تک کیا ہم نے اپنا راستہ اور نظریہ بدلا؟ جی نہیں اب بھی وہی کہتے لکھتے ہیں جو چالیس برس قبل لکھتے کہتے تھے۔
عمران خان کیا ہم کسی کو بھی غدار نہیں کہتے لکھتے۔ سیاسی رویوں اور طوفان بدتمیزی پر ہر کس و ناکس کو رائے رکھنے کا حق ہے۔ کم از کم ہم خدا کےبعد عمران کو آخری سہارا اور روشنی نہیں سمجھتے۔ ایک سے زائد وجوہات ہیں اس ضمن میں۔ عجیب بات یہ ہے کہ دوسروں کو شخصی غلامی کا طعنہ مارنے والے خود تیسرے درجہ کی غلامانہ ذہنیت کے مرض میں مبتلا ہیں۔
ہم میں اب بھی یہ لکھنے کا حوصلہ ہے کہ جنہوں نے دوسروں کو منہ بھر کے گالیاں دلوائیں اب سوغاتیں سمیٹ رہے ہیں۔ ہمیں دونوں سے دلچسپی نہیں۔
مکرر عرض ہے فقط عمران خان ہی کیا یہاں کوئی بھی خدا کے بعد آخری سہارا اور روشنی نہیں۔ وہ تو کبھی بھی نہیں تھے جن کے تیار کردہ راج دلارے کہا کرتے تھے وہ دیکھو شام، عراق، مصر، لبنان اور لیبیا کا کیا حال ہوا؟ ہمارا کیا حال ہوا یہ یہاں کوئی نہیں دیکھتا۔
سات آٹھ کروڑ کی آبادی کے لئے وسائل ہیں 24کروڑ کا بوجھ ہے سمگلنگ کا دھندہ الگ سے ہے۔ ماضی اور آج کی کسی بھی حکومت نے اس آبادی بم بارے سنجیدگی سے نہیں سوچا۔ تعلیم اور صحت کو دھندہ بنادیا گیا اس ملک میں۔ سرمایہ داروں اور سرمایہ کاروں"وچولوں" کے ہمیشہ مزے رہے۔ اب بھی ہیں۔
آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ یہاں غلطیوں سے کوئی بھی سبق نہیں سیکھتا کوئی بھی نہیں۔ معروف چلن یہی ہے کہ بس ہر وقت دوسروں پر انگلیاں اٹھائے رکھو۔ یہاں سبھی کو اپنے پیارے اچھے لگتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کل تک جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کی دفاعی لائن بنے ناقدین پر کیچڑ اچھالتے گالیاں دیتے اور غلیط ترین ٹرینڈ چلاتے تھے اب وہ "مالکوں" کے لئے کیا الفاظ استعمال کرتے ہیں لیکن یہ پہلا موقع نہیں مالکوں کو تجربہ مہنگا پڑا ہو۔ خود کو عقل کل سمجھنے والوں کے ساتھ یہی ہونا چاہیے تھا جو ہوا اور ہورہا ہے۔
ہم تو روز اول سے ان سطور میں عرض کررہے تھے کہ تحریک عدم اعتماد نہیں لائی جانی چاہیے تھی بلکہ جو ہورہا تھا ہونے دیتے۔ مگر کیا کیجے کہ ان کی حب الوطنی کی باسی کڑی میں ابال زیادہ ہی آگیا تھا اب بھگتیں"سانوں کی"۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس سیاسی عدم برداشت، سفارتی تنہائی، مالیاتی ابتری نے "انہیں" رونے دھونے پر مجبور کردیا تھا اس پر سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں تھی انہیں اپنی بوئی ہوئی فصل کاٹنے دیتے۔
ان باتوں کے جواب میں پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی والے کہتے ہیں ہم نے سیاست پر ریاست کو ترجیح دی، سبحان اللہ۔ اب ترجیح کے میوے کھائیں شوق سے گالیاں اور بددعائیں منافع سمجھ کر قبول کریں۔
کسی کو ناگوار گزرے تو گزرے۔ اب بھی یہی رائے ہے کہ محفوظ راستہ نہیں دینا چاہیے تھا۔ کیا کبھی انہوں نے محفوظ راستہ دیا؟ جی نہیں انہوں نے ہمیشہ گالی دلوائی۔
اس لئے اب عمران خان ہوں یا پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی والے سبھی کو اپنی اپنی غلطیوں بارے سوچ بچار کرنی چاہیے۔ خان صاحب اب تو یہ اعتراف بھی کرچکے کہ جن مخالفین کو وہ چور، کرپٹ اور نجانے کیا کیا کہتے رہے ان کے بارے یعنی ان کی چوریوں ڈکیتیوں اور دوسرے معاملات کی خبریں (معلومات) خفیہ ایجنسیوں نے انہیں دیں۔
کاش کسی دن وہ یہ اعتراف بھی کرلیں کہ ان کی پارٹی کی نشاط ثانیہ بھی "انہی" کی مرہون منت تھی جو فون کرتے تھے فلاں پارٹی میں چلے جائو۔ فلاں کا ٹکٹ واپس کردو یہ ٹکٹ لے لو یا پھر آزاد الیکشن لڑلو۔ لمبی چوڑی تفتیش اور تحقیق کی ضرورت ہی نہیں بس دو شخصیات محترمہ فردوس عاشق اعوان اور مظفر گڑھ والے باسط بخاری سے حلف لے لیا جائے کہ ان کی سیاسی ہجرت کے پیچھے کون تھا؟
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ کا ایک پرانا انٹرویو ریکارڈ پر ہے کہ پاشا صاحب ہماری پارٹی کے بندے توڑ کر تحریک انصاف میں بھیجتے رہے۔
ان معروضات کا مقصد صرف یہ ہے کہ لولی لنگڑی جمہوری حکومتوں اور دلبروں کے اقتدار کے عرصہ میں طاقت کے مراکز منتخب ادارے کبھی نہیں رہے۔ اب بھی خان صاحب اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے محفوظ نظام کے علمبردار ہرگز نہیں بلکہ وہ اس امر کے خواہش مند ہیں"انہیں نکالو پھر سے مجھے لائو"۔ ایسا ہوجائے تو سارے مہم جُو ایک بار پھر حب البرتنی کے بھانڈے قلعی کرالئو کی صدائیں دیتے دیکھائی دیں گے۔
اچھا یہاں سبھی اس بات کے دعویدار رہتے ہیں کہ ہم بائیس کروڑ عوام کے نمائندے ہیں۔ ذرا 2018ء کے انتخابی نتائج دیکھ لیجئے، کل ووٹوں میں سے کتنے ووٹ پڑے ان ڈالے گئے ووٹوں کی بنیاد اور خاموش مینجمنٹ دونوں کے باوجود خان صاحب سنگل لارجسٹ پارٹی کے سربراہ ہی تھے۔
خیبر پختونخوا کے علاوہ پنجاب، بلوچستان اور وفاق میں اتحادیوں کے بغیر حکومت نہیں بناسکتے تھے اتحادیوں کا تحفہ انہیں کس نے دیا سب جانتے ہیں ان اتحادیوں میں سے جو الگ ہوئے کیا وہ مرضی سے الگ ہوگئے؟
اس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ 2018ء میں اتحادیوں کا تحفہ دینا اگر درست تھا تو عدم اعتماد کے وقت بعض اتحادیوں کا صفیں بدل لینا بھی درست شمار ہوگا۔ ہاں صفیں بدل لینا اگر غلط ہے تو 2018ء میں کیسے درست ہوگا۔
یہ سطور لکھتے وقت ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے اتحاد کے حوالے سے سابق وفاقی وزیر سید علی حیدر زیدی کا اسلامی ٹچ یاد آگیا۔ انہوں نے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے سیاسی اتحاد کا دفاع کرتے ہوئے فتح مکہ کے واقعات کا حوالہ دیا تھا۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے میں یہ عرض کردوں کہ کچھ دوست ناراض ہوتے ہیں لیکن میری رائے یہی ہے کہ سیاست معروضی حالات، مسائل اور مستقبل کے پارٹی پروگراموں پر ہونی چاہیے اسے اسلامی ٹچ نہیں دیئے جانے چاہئیں۔
مذہب و عقیدہ فرد کا نجی معاملہ ہے۔ مذہبی جذبات مولانا فضل الرحمن بھڑکائیں، عمران خان یا کوئی اور یہ صریحاً غلط ہی ہوگا۔ غلط کو درست تسلیم کرنا مشکل ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی والوں سے پوچھنے کو دل کرتا ہے کہ سنائیں کیسا لگا
"سیاست پر ریاست کو ترجیح دینا؟"