Ticketon Ki Farokht, Ishtehar Bazi Aur Ghair Mulki Doray
ٹکٹوں کی فروخت، اشتہار بازی اور غیرملکی دورے
تحریک انصاف کی پنجاب اسمبلی کے لئے ٹکٹوں کی فروخت کا سکینڈل اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی آڈیو لیکس سے ہفتہ بھر قبل پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چودھری کی ایک آڈیو بھی لیک ہوئی تھی جس میں وہ ٹکٹ کے خواہش مند ایک شخص سے کہہ رہے ہیں کہ ایک کروڑ روپیہ ملاقات کے لئے ہے باقی پارٹی فنڈ آپ جتنا دے سکیں۔
یہ اعجاز چودھری وہی ہیں جن پر 2013ء کے انتخابات میں شیخوپورہ اور گوجرانوالہ کے بعض افراد نے الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ٹکٹوں کے اجراء کے لئے پیسے لئے ہیں یہ بھی کہا گیا کہ اعجاز چودھری نے پیسے پی ٹی آئی کے اس وقت کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی کے نام پر پکڑے ہیں تب معاملہ سات سے گیارہ کروڑ روپے کا تھا اس پر بہت شور مچا۔
عمران خان سے مطالبہ ہوا کہ ٹکٹوں کی فرخت کے اس سکینڈل کی تحقیقات کے لئے کیمٹی بنائی جائے مگر انہوں نے سنی ان سنی کردی۔
عمران خان لگ بھگ 2008ء سے اپنی مخالف سیاسی جماعتوں پر ٹکٹوں کی فروخت کے الزام لگاتے آرہے ہیں۔ ایک ٹی وی پروگرام میں (یہ غالباً 2010ء کا سال ہے) انہوں نے یہ الزام لگایا تو پی پی پی اور (ن) لیگ نے انہیں کہا کہ پارٹی ٹکٹ کی درخواستوں کے ساتھ مقررہ فیس کے علاوہ اگر کسی شخص نے ٹکٹ دلوانے کے لئے پیسے لئے ہیں تو ان کے نام سامنے لائیں ہم کارروائی کے لئے تیار ہیں۔
عمران نے دونوں جماعتوں کی اس پیشکش کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا "لو جی چور بھی حاجی ہونے کے دعویدار ہیں"۔
2013ء میں جب ان کی اپنی جماعت کی ٹکٹوں کی فروخت کا معاملہ سامنے آیا تو انہوں نے اسے اپنی مقبولیت سے حسد قرار دیا۔ حالانکہ الزام مخالفین نہیں ان کی جماعت کے لوگ جماعت کے لوگوں پر ہی لگارہے تھے۔
2018ء کے انتخابی عمل میں بھی کی خریدوفروخت کے الزامات اچھلے خود ایک سے زائد مواقع پر انہوں نے بھی اعتراف کیا کہ ٹکٹوں کے حصول کے لئے پیسہ چلا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار اعجاز چودھری کے ساتھ مرحوم نعیم الحق کا نام بھی سامنے آیا۔
پنجاب اسمبلی کی ٹکٹوں کی تقسیم کے حالیہ عمل سے قبل اور بعد میں اس حوالے سے ایک ایک آڈیو سامنے آئی۔ ان آڈیو لیکس کے بعد سوشل میڈیا پر "چیزے باز " پوسٹوں کی بھرمار ہوگئی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے الزامات ماضی میں مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والی بہت ساری شخصیات پر بھی لگے۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی معاون خاص ناہید خان، مرحوم جہانگیر بدر اور دوسرے کچھ لوگ الزامات کی زد میں آئے۔ 2013ء میں ٹکٹوں کے لئے پیسے لینے کے معاملے میں حمزہ شہباز شریف کی طرف انگلیاں اٹھی تھیں۔ کچھ اور لوگوں کے نام بھی لئے جاتے رہے لیکن کہنے یا یوں کہہ لیجئے الزام لگانے والے نجی محفلوں میں تو باتیں کرتے تھے لیکن سامنے آکر الزام لگانے یا تحریری درخواست کے لئے تیار نہیں ہوئے۔
لیجئے جو جماعت ماضی میں سرکاری (کمرشل سرکاری) اشتہارات کو سیاسی پروپیگنڈے کا ہتھیار قرار دے کر اس کی مذمت کرتی رہی بلکہ عمران خان آئے دن یہ پوچھا کرتے تھے کہ اوئے نوازشریف اوئے آصف زرداری یہ تمہارے باپوں کا پیسہ ہے کہ سرکاری خزانے سے جاری اشتہارات میں اپنی تصاویر لگواکر تشہیر کرواتے ہو اب اسی جماعت (پی ٹی آئی) کو پنجاب میں پرویزالٰہی کی چند ماہ والی حکومت کے حوالے سے اس الزام کا سامنا ہے کہ سابق جوڈیشل وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی نے ذاتی تشہیر کے لئے پنجاب کے خزانے سے 2ارب 33کروڑ 14لاکھ روپے کے اشتہارات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو جاری کرائے۔
اخباری دنیا میں ایسے اشتہاروں کو گورنمنٹ کمرشل کہا جاتا ہے۔ یہ اشتہاروں کی وہی قسم ہے جس پر عمران خان نے وزیراعظم بنتے ہی پابندی لگوادی تھی جس کی وجہ سے میڈیا ہائوسز مالی بحران سے دوچار ہوئے تھے۔
اس بحران کے وقت ہم نے ان سطور میں عرض کیا تھا کہ "بحران آج ہے لیکن مالکان نے ماضی میں دونوں ہاتھوں سے جو مال کمایا اس میں کچھ تجوری سے نکال کر ملازمین کی تنخواہوں کے لئے دیں"۔
یہ بات اس لئے کہنا لکھنا پڑی کہ اس بحران کی آڑ لے کر صف اول و دوئم کے میڈیا ہائوسز نے صحافیوں اور دیگر عملے کی تنخواہوں پر 20سے 50فیصد کٹ لگایا تھا۔
خیر اب بتایا جارہا ہے کہ پنجاب کے سابق جوڈیشل وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی کی تشہیری مہم کے دوران اشتہار بازی کے عمل میں دستاویزاتی ثبوتوں کے مطابق پنجاب کے محکمہ سوشل ویلفیئر نے 300، محکمہ ایکسائز نے 200 ملین کے اشتہارات دیئے۔
ریسکیو 1122نے 200، بورڈ آف ریونیو نے بھی 200، محکمہ ٹرانسپورٹ نے 32.7ملین، محکمہ قدرتی آفات اور سپیشل ہیلتھ کیئر نے 150ملین، پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ نے 150ملین، ماحولیات نے 200 ملین، انفارمیشن اینڈ کلچر نے 100ملین، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور لائیو سٹاک ڈیری نے 100ملین اور ہائر ایجوکیشن نے 100ملین روپے کے گورنمنٹ کمرشل یعنی رنگین اشتہارات شائع اور نشر کروائے۔
اس طرح چوہدری پرویزالٰہی کے مختصر جوڈیشل دور اقتدار میں 2 ارب 33کروڑ 14لاکھ روپے کی اشتہار بازی ہوئی۔
افسوس کہ کسی نے آواز نہیں لگائی "اوئے یہ تمہارے باپ کا پیسہ ہے"۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجاب کے محکمہ خزانہ نے کسی چوں چراں کے بغیر خاموشی اختیار کئے رکھی کہ اس کی جانب سے جاری کردہ مختلف محکموں کے فنڈز اشتہار بازی پر لگائے گئے اسی عرصے میں پنجاب کے بعض محکموں کے پنشنروں کو تین ماہ تک پنشن نہ مل سکی۔
ماضی میں گورنمنٹ کمرشل اشتہارات پر عمران خان کا جو موقف ہوا کرتا تھا وہ بالائی سطور میں عرض کردیا لیکن اپنے جوڈیشل وزیراعلیٰ کے اشتہار بازی پروگرام پر وہ خاموش رہے۔ اس معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے وہ یہ کہ بتایا جارہا ہے کہ 2ارب 33کروڑ 14لاکھ روپے کے ان کمرشل اشتہارات کے اجراء میں جوڈیشل وزیراعلیٰ کے صاحبزادے مونس الٰہی نے 30کروڑ روپے کا کمیشن وصول کیا۔
آگے بڑھتے ہیں۔ عمران خان وزیراعظم تھے تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان کے غیرملکی دوروں کے حوالے سے راگ الاپا جاتا تھا کہ وہ سادہ آدمی ہے ٹکٹ دوست دیتے ہیں شاہ خرچ بھی نہیں ان کے غیرملکی دورے نوازشریف، زرداری وغیرہ کی طرح ملکی خزانے پر بوجھ نہیں بنے اب گزشتہ روز ایک رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اسلام آباد کے سینئر صحافی ایس ایم زمان کی "اردو نیوز" پر شائع اس رپورٹ میں سرکاری دستاویزات کے ذریعے بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے ساڑھے تین سال کے دوران غیرملکی دوروں پر 11ارب 15کروڑ 43لاکھ 4ہزار روپے خرچ ہوئے۔
عمران خان اور ان کے وفود پر اقتدار کے پہلے مالی سال کے دوران 2ارب 88کروڑ 30لاکھ روپے خرچ ہوئے جبکہ 57کروڑ 78لاکھ کی سپلیمنٹری گرانٹ لی گئی۔ اسی مالی سال کے دوران ہوئے دوروں پر انٹرٹینمنٹ اور تحائف پر 4کروڑ 99لاکھ روپے جبکہ ہمراہی وفود مجموعی اخراجات کی مد میں 62کروڑ 14 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔
بہرطور ساڑھے تین برسوں کے دوران غیرملکی دوروں پر 11ارب 15کروڑ 43لاکھ 4ہزار روپے اس سادہ فقیر منش اور دوستوں کے فراہم کردہ ٹکٹ پر غیرملکی دورے کرنے والے وزیراعظم اور ان کے وفود پر خرچ ہوئے۔
ساڑھے تین برسوں کی وزارت عظمیٰ کے دوران عمران خان جب بھی غیر ملکی دورہ کرتے پرنٹ و الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ان کی مدح سرائی میں پیش پیش بھونپو بتایا کرتے تھے کہ "سابق حکمران کتنے کھٹور اور خزانہ دشمن تھے وہ ملکی خزانے کو باپ کا مال سمجھ کر غیر ملکی دوروں پر اڑاتے رہے لیکن اب ایک ایسا شخص وزیراعظم ہے جو پائی پائی سوچ سمجھ کر خرچ کرتا ہے"۔
خیر ہم تو تب بھی عرض کرتے رہے کہ پلے سے تو وہ دھیلہ خرچ کرنے کے عادی کبھی نہیں رہے ان کی جیب اور دوسرے امور دوسروں کے خرچے پر ہی ہمیشہ چلے خیر فی الوقت ان کی ذات زیربحث نہیں اصل معاملہ یہ ہے کہ ساڑھے تین سال سادگی، بچت اور درد کا رونا رونے والوں کے غیرملکی دوروں پر اٹھے اخراجات کا یہ حساب سرکاری دستاویزات کے مطابق ہے اب اگر ان کے دور میں وزراء پارلیمانی وفود اور دیگر کے غیرملکی دوروں کا حساب نکال لایا جائے تو سولہ سترہ طبق ضرور روشن ہوجائیں گے۔
ایسا نہیں ہے کہ یہ شاہ خرچی عمران تک محدود ہے، موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی وزارت عظمیٰ کے ابتدائی 9ماہ کے دوران اپنے غیرملکی دوروں پر ایک ارب 31کروڑ 13لاکھ 71ہزار روپے خرچ کئے ہیں۔
غیرملکی دورے اور ان پراخراجات دونوں ضرورت ہیں ان سے انکار نہیں، اصل بات یہ ہے کہ 11ارب روپے سے زائد میں پڑے غیرملکی دوروں سے ملک کو کیا ملا؟
پسِ نوشت: تحریک انصاف کا موقف ہے کہ عمران خان کے بطور وزیر اعظم بیرونی دوروں پر صرف 19 کروڑ روپے خرچ ہوئے 11 ارب کے اخراجات والی رپورٹ پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔