Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Tank Ke Saraikiyon Ki Nayi Mushkilat

Tank Ke Saraikiyon Ki Nayi Mushkilat

ٹانک کے سرائیکیوں کی نئی مشکلات

سرائیکی وسیب اور بیرون ملک مقیم سرائیکی دوست مسلسل تقاضا کررہے ہیں کہ مسلح جتھوں (کالعدم ٹی ٹی پی اور دوسروں) کی وجہ سے سرائیکی وسیب کے جنوبی وزیرستان سے ملحقہ ضلع ٹانک کے علاقے "کوٹ کٹ" سے مقامی سرائیکی آبادی کی المناک نقل مکانی پر کسی تاخیر کے بغیر لکھا جائے۔

پچھلے چند دنوں سے اس حوالے سے ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور ملحقہ علاقوں کے دوستوں جن میں سیاسی و سماجی کارکن اور صحافی شامل ہیں جو معلومات حاصل ہوئیں ان کی بنیاد پر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ صوبائی حکومت اور سکیورٹی اداروں نے کوٹ کٹ کے حالیہ مسئلہ بالخصوص گائوں کی آبادی کے بڑے حصے کی نقل مکانی پر مجرمانہ خاموشی کا مظاہرہ کیا۔

حکومت اور محکمے اس لئے ہوتے ہیں کہ شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائیں لیکن بدقسمتی سے "کوٹ کٹ" کے معاملے پر بے حسی اور غیرذمہ داری کا مظاہرہ ہوا۔

یہ ویسی ہی بے حسی اور غیرذمہ داری ہے جیسی رواں صدی کی پہلی دہائی میں اس وقت دیکھنے میں آئی تھی جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اس وقت کے قبائلی علاقوں خصوصاً شمالی و جنوبی وزیرستان میں 1990ء کی دہائی میں لاکر بسائے گئے افغان جہاد کے عرب و غیرعرب "مجاہدین" کی قائم کردہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے خاتمے کے لئے آپریشن شروع کیا تھا تب جوابی طور پر مختلف الخیال مسلح جتھوں نے ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں سرائیکی بولنے والی آبادی پر مظالم کے پہاڑ ڈھادیئے۔

اتفاق کہہ لیجئے کہ ابتداً جو سرائیکی خاندان مسلح جتھوں اور پھر پاکستان تحریک طالبان کی پرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بنے ان کا مسلکی طور پر فقہ جعفریہ سے تعلق تھا جسکی وجہ سے دونوں اضلاع کی سرائیکی آبادی کے خلاف ہوئی طالبانائزیشن کو شیعہ دیوبندی تنازع کے طور پر پیش کیا گیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں سرائیکیوں کی نسل کشی اور بڑے پیمانے پر ان کی نقل مکانی کے معاملات فرقہ واریت کی دھول میں چھپ گئے

ثانیاً یہ کہ سرائیکی وسیب کے بڑے حصے میں جوکہ صوبہ پنجاب میں شامل ہے، زمینی حقائق کے برعکس یہ سوچ پختہ ہوئی کہ ڈی آئی خان اور ٹانک میں سرائیکی مسئلہ نہیں بلک یہ شیعہ طالبان تنازع ہے۔

ایک مرحلہ پر معروف دانشور اور سرائیکی قوم پرست رہنما ظہور احمد دھریجہ نے پہل کی اور اس معاملے پر ریاستی محکموں کے ذمہ داران کو خطوط لکھ کر صورتحال پر اپنی اور سرائیکی وسیب کی تشویش سے آگاہ کیا۔

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ظہور احمد دھریجہ نے ریاستی محکموں کے بعض ذمہ داران سے ملاقات کا وقت بھی لیا تھا اس ملاقات کی تفصیل اور نتائج دونوں سے چونکہ لاعلم ہوں اس لئے مزید کچھ عرض کرنے سے قاصر ہوں۔

البتہ 2019ء میں فاضل پور میں منعقد ہونے والی "سوجھل دھرتی واس" کی سالانہ کانفرنس میں تحریر نویس نے ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں جاری سرائیکی نسل کشی اس کے پس منظر اور پیدا شدہ حالات پر گفتگو کرتے ہوئے تفصیل کے ساتھ نہ صرف معروضات پیش کیں بلکہ سوجھل دھرتی واس کی کانفرنس میں موجود سرائیکی قوم پرست جماعتوں کے قائدین سے دردمندانہ درخواست بھی کی کہ ڈیرہ اسماعیل خان اورٹانک کے سرائیکی عوام سے یوم یکجہتی منایا جائے۔

سرائیکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ رانا فراز نون نے نہ صرف کانفرنس میں اس تجویز کی حمایت کی بلکہ ان کی جماعت نے اپریل 2019ء میں پورے سرائیکی وسیب میں یوم یکجہتی ڈیرہ اسماعیل خان و ٹانک بھی منایا۔

ایس ڈی پی کے زیراہتمام مرکزی جلوس ملتان میں نکالا گیا۔ ملتان پریس کلب میں ہی یکجہتی کانفرنس بھی منعقد ہوئی۔ تمہیدی سطور میں تفصیل کے ساتھ چند نکات عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کے پنجاب کے زیرانتظام علاقوں کے وسیب زادے خیبر پختونخوا میں شامل سرائیکی وسیب کے علاقوں کے مسائل و مشکلات، سرائیکی نسل کشی کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر لوگوں کواس سے دور رکھنے کی سازش سے کاملاً آگاہ ہیں۔

"کوٹ کٹ" کی سرائیکی آبادی کے تقریباً 90فیصد خاندانوں کی دہشت گردی کے حالیہ واقعات اور کالعدم ٹی ٹی پی و کالعدم لشکر جھنگوئی کی جانب سے دی گئی دھمکیوں کے بعد ہوئی نقل مکانی افسوسناک ہے۔

گو کہ یہ بدقسمتی اپنی جگہ تلخ حقیقت کے طور پر موجود رہے گی کہ جب ماضی میں سرائیکی نسل کشی کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جارہا تھا تب "کوٹ کٹ" کی سرائیکی آبادی کا بڑا حصہ اپنے وسیب زادوں کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے مسلح جتھوں کا ہم خیال و ہم نوا رہا۔

لیکن یہ بھی صریحاً ظلم ہوگا کہ "کوٹ کٹ" کی سرائیکی آبادی کو آج جس درندگی اور بے وطنی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس پر خاموش رہا جائے۔

کوئی طبقہ اگر کسی مرحلہ پر ماضی سے جان چھڑاکر وقت کے ساتھ آگے بڑھنے کا خواہش مند ہے تو اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے یہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہونے والے مظالم پر دوٹوک انداز میں بات کی جانی چاہیے۔

ہمارے پیش نظر یہی دو نکات ہیں۔ "کوٹ کٹ" میں حالیہ دنوں میں چند افسوسناک واقعات رونما ہوئے اب تک کی اطلاع کے مطابق "کوٹ کٹ" کے 4سے 5 افراد کو کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوئوں نے اغوا کرکے قتل کیا پھر ان کی نعشوں پر چٹ لگاکر ویرانے میں پھینک دیں ان چٹوں پر لکھا گیا "جاسوسوں کا یہی انجام ہوگا"

سفاکانہ قتلوں کی ان وارداتوں کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی نے مقامی آبادی کو گائوں خالی کرنے کا نوٹس دیا اور عدم تعمیل کی صورت میں سب کچھ ملیامیٹ کردینے کی دھمکی دی۔ جس کے بعد کوٹ کٹ کے 180خاندانوں میں سے 160خاندان اپنے گائوں سے ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان شہر منتقل ہوگئے۔

یہ بجا ہے کہ ٹانک سے ملحقہ وزیرستان کے علاقے میں سکیورٹی فورس کا آپریشن جاری ہے۔ پچھلے دو ماہ کے دوران سکیورٹی فورسز نے انتہائی مطلوب دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا بعض کو گرفتار بھی کیا اس آپریشن کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن دوردراز کی آبادیوں کے تحفظ کا نہ تو پہلے کوئی خاص انتظام تھا اور نہ ہی اب ہے جس کی وجہ سے شہر کے مرکز سے دور کی آبادیوں میں خوف و ہراس کا پایا جانا فطری بات ہے۔

ضلع ٹانک کی حدود میں کسی آبادی کو علاقہ خالی کرنے کے لئے طالبان نے پہلی بار دھمکی نہیں دی نہ ہی پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی ایک گائوں سے 160خاندان ہجرت کرگئے ہوں۔ یہ صاف سیدھی سرائیکی دشمنی ہے اور ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے دیرینہ منصوبہ پر عمل بھی

سوال یہ ہے کہ ڈی آئی جی اور ٹانک کے سرائیکی قوم پرست معروف سیاسی جماعتیں اور سماج سدھار کارکن اس حساس مسئلہ پر خاموش کیوں ہیں؟

کیا وہ یہ نہیں سمجھ پارہے کہ جس عذاب اور بے وطنی و بے سروسامانی کا آج "کوٹ کٹ" کے خاندانوں کو سامنا ہے ماضی میں دونوں اضلاع کے ہزاروں سرائیکی خاندان اس عذاب سے دوچار ہوئے ان میں سے 90فیصد آج بھی دربدر ہیں۔

صوبائی حکومت نے ماضی میں (اس وقت جو حکومت تھی) بھی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا آج بھی اسی روش پر گامزن ہے حالانکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ ٹانک کے ضلعی مرکز (ٹانک شہر سے فاصلے پر) فاصلے پر سینکڑوں برسوں سے قائم آبادیوں کے لئے خصوصی سکیورٹی پلان وضع کیا جاتا۔ امن و امان برقرار رکھنے کے لئے پولیس اور دیگر فورسز کی نفری بڑھائی جاتی۔ "کوٹ کٹ" کے متاثرہ خاندانوں کی اگر حکومت دادرسی نہیں کررہی تو دونوں اضلاع ڈی آئی خان اور ٹانک کے دردمند شہریوں کو آگے بڑھ کر نہ صرف ان خاندانوں کی مدد کرنی چاہئے بلکہ حکومت کو بھی مجبور کرنا چاہیے کہ وہ اپنے فرائض بطریق احسن ادا کرے۔

"کوٹ کٹ" کے 180 خاندانوں میں سے 160کا اپنی جنم بھومی سے نقل مکانی کرجانا معمولی واقعہ نہیں نہ ہی اس پر خاموش رہنا چاہیے۔ ڈی آئی خان اور ٹانک کے علاوہ سرائیکی وسیب کے اہل دانش صحافیوں، سیاسی و سماجی کارکنوں اور قوم پرستوں کو اپنی بساط کے مطابق آواز ضرور بلند کرنی چاہیے، یہی ان کا فرض ہے۔

Check Also

Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat

By Munir Ahmed Khokhar