Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Tama Qurbani Aur Bakheeli Taharat Ki Dushman Hai

Tama Qurbani Aur Bakheeli Taharat Ki Dushman Hai

طمع قربانی اور بخیلی طہارت کی دشمن ہے

مجھے احساس ہوا کہ مرشد کریم (حضرت سید عبداللہ شاہ بخاری بابا بلھے شاہؒ) کی خانقاہ میں ان کے قدموں کی طرف بیٹھے کافی دیر ہوگئی یہ احساس تب ہوا جب فقیر راحموں نے دریافت کیا، شاہ تونے کرلیں باتیں اپنے محبوب و مرشد سے؟ ابھی کہاں، سلسلۂ کلام شروع ہو تو کچھ عرض گزاری جائے۔ اک نگاہ اس نے مجھ پر اور دوسری شاہ کی لحد پر ڈالی اور گویا ہوا، بھید کھولنے اور ذات کو کھوجنے کی جگہ ہے یہ۔

شاہ تم اپنے مرشد سے کہو "زندگی نفس کے سرکش گھوڑے پر کاٹھی ڈالے بنا بسر کرنے کا نسخہ دے دے۔ رج مستوں سے بھرے حال میں ان دیکھے دنوں کی فکر میں ہلکان کیوں ہوا جائے"۔

دو ساعتوں کے وقفے پر اس نے ایک بار پھر کہا، "عجیب بات ہے ناں تمہیں ہر وہ شخص پسند ہے جو اپنے عہد کے تقاضوں سے کٹ کر جیا اور آخری سانس تک مولویوں کے فتوئوں کا ہدف ہوا۔ مرشد کے قدموں میں حد ادب نے خاموش رکھا ورنہ دریافت کیا جاسکتا تھا جنہوں نے اپنے اپنے عہد کے تقاضوں پر زندگی بسر کی ان کو جانتا کون ہے۔

سامت سے منصور سرمد سے موسیٰ پاک اور شیرازیؒ سے شاہؒ تک کے صاحبان فکر ہی زندہ ہیں۔ ناگزیروں سے تو قبرستان بھرے پڑے ہیں انہیں کون جاتا ہے مگر یہاں مرشد کے مرقد پر پو پھٹے دیکھو کیسا ہجوم ہے۔

مجھے حافظ شیرازی یاد آئے۔ کم ظرفوں کو مے خانہ کی دہلیز پر نصیب نہ ہونے کی بات کہنے والے۔ کیسا ہمیشہ قائم رہنے والا سچ ہے، مرشد کی خانقاہ بھی تو مے خانہ ہی ہے، کم ظرفوں اور بے نسبوں کا یہاں کیا کام۔ یہاں دو طرح کے لوگ آتے ہیں اولاً جو بلھے شاہ کے مرقد پر مسائل اور دکھڑے سناتے ہیں ثانیاً وہ جو شاہ کی خانقاہ کی دیوار سے لگ بیٹھ کر دل کی باتیں کرنا چاہتے ہیں۔

کیسی عجیب بات ہے مولوی دونوں طرح کے لوگوں کو بدعتی کہتا ہے۔ فرق کیا پڑتا ہے وظیفہ خوروں کے فتوئوں اور نالوں سے۔ جی کی باتیں واقف ہائے راز بندگی سے ہی کی جاسکتی ہیں۔ حق کس طور ادا ہوپاتا ہےبھلا یہ سرمد و شاہ سے بہتر کون جانتا اور بتاسکتا ہے۔۔

ہجوم بڑھنے لگا تو قدموں سے اٹھ کر بالکل سامنے دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ لئے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب شاہ سے دریافت کیا لوگ نفرتوں، تعصب اور حبس میں کیسے جی لیتے ہیں؟

جواب ملا وہ لوگ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ فقیر راحموں نے مداخلت کرتے ہوئے کہا یار شاہ جی لوگ جستجو کرتے ہیں اور جانور زندگی بسر۔ اتنی سی بات سمجھ نہیں سکتے تو مرشد کے حضور کیا لینے آئے ہو؟

صاف سامنے کی بات صرف اتنی ہے کہ "خواہشوں کو حسد میں گوندھ کر پیٹ بھرنے والے کبھی سیراب نہیں ہوپاتے"۔

ہمارے محبوب و مشہود شاہ ہر لحظہ ایک نئے امتحان سے دوچار ہوئے۔ یوں بھی زندگی بذات خود ایک امتحان ہی ہے۔ خودآگہی کے پہلے دن سے سانسوں کی ڈور ٹوٹنے تک قطار اندر قطار اترتے سوالوں کا جواب دیتے چلے جایئے۔ بہت مشکل ہے طمع و لالچ اور جمع کرنے کی خواہش پر قابو پاکر جینا، جو جی لیتے ہیں زندہ وہی رہتے ہیں، باقی مٹی کا رزق ہوتے ہیں یا تاریخ کے کوڑے دان کا۔ چند برس ہوتے ہیں ایک مرحوم دوست کے فرزند نے لکھا "ہم تو حجت خدا کے اطاعت گزار اور مقلد ہیں، علامتی و ملامتی صوفیوں یا مولویوں کے نہیں"۔

عرض کیا "یہ ایک الگ بحث ہے۔ زندگی کا اصل حسن یہ ہے کہ اپنی صائب فکر پر جیا جائے اس طور کہ دوسرے کو ٹھیس نہ پہنچے"۔ بحث مقصود ہوتی تو عرض کرتا دستیاب ہو تو "باقال اور تالموت" نامی کتب پڑھ لیجئے صاف سمجھ میں آجائے گا کس کے پاس موجود فکر صائب ہے اور کون اُگلے ہوئے لقمے چباتا پھر رہا ہے۔ کبھی کبھی حیرانی ہوتی ہے اسرائیلیات نے کیسے حقیقتوں کو مسخ کیا اور اندھی تقلید کا شکار لوگوں نے اسرائیلیات کو ایمان کا درجہ دے دیا۔

اس جملۂ معترضہ کی معذرت۔

ہم ایسے ہی ماحول میں جی رہے ہیں جس میں دوسروں کی فکر کا تمسخر اڑانا عبادت کا درجہ پاچکا۔ مرشد کے حضور آبیٹھنے میں فقط یہی خواہش تھی کہ کدورتیں اور پراگندگی چھٹ جائے۔ مرشد نے ہی تو کہا تھا "مورکھ وہی ہے جو تن لاگے کو سمجھ لے"۔

معاف کیجئے گا ایک تو میں اس فقیر راحموں سے بڑا تنگ ہوں۔ حضرت اب یہ سمجھانے کی سعی فرمارہے ہیں کہ "بھوک ناقابل برداشت ہو تو لوگ ایمان تک کھاجاتے ہیں"۔

ویسے بات تو درست ہے لیکن مرشدوں کے مرشد اعلیٰ حضرت سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم نے کہا تھا "آدمی حسد اور غیبت سے بچ رہے تو سلامتی کے ساتھ اس پار اتر جاتا ہے"۔

شہر ماہ کے زانواس کی یادوں نے دستک دی، کہا "طمع قربانی کے اور بخیلی طہارت کے آڑے آتی ہے"۔

عین ان لمحوں ایک دانا کی کہی بات یاد آئی "امن کے لئے ہونے والے معاہدے اصل میں اگلی جنگ کی تیاریوں کے لئے وقت حاصل کرنے کا سوانگ ہوتا ہے"۔

تاریخ کے اس طالب علم کے لئے یہ امر حیرانی کا باعث ہرگز نہیں کہ دستیاب انسانی تاریخ کے سارے ادوار میں ریاست اور مذہبی پنڈتوں کے درمیان ایکا رہا۔

ریاست اور مذہبی پنڈتوں کے ایکے کا نتیجہ ہی تو تھا ہمارے محبوب مرشد بلھے شاہؒ کا جنازہ تین دن تک پڑا رہا۔ مذہب کے ٹھیکیدار آستینیں الٹے تماشہ لگاتے رہے۔ مگر شاہ پہلے فرد نہیں تھے سید زیدؒ، حسین بن منصور حلاجؒ، بلھے شاہؒ اور سرمدؒ کی باتیں ان کے ادوار کے کج بحثوں کو کیسے سمجھ میں آسکتی تھیں۔ چندوں اور حلوے مانڈوں پر جینے والے اپنی ذات سے آگے دیکھنے کی استطاعت سے محروم ہوتے ہیں۔

حضرت ابو سعیدؒ فرماتے ہیں"اس تک پہنچنے کے لئے بس ایک قدم کی مسافت کا فاصلہ ہے، جو اپنی ذات سے باہر نکلنے کا حوصلہ کرلے وہ اسے پالیتیا ہے"۔ زاہد کے حرام کو بناشک کے حلال قرار دینے والے سرمدؒ کے بقول "نذرانوں سے پیٹ بھرنے والے حرام و حلال کا امتیاز کیسے کرسکتے ہیں"۔

شاہ (بلھے شاہؒ) تو ہمیشہ کہتے رہے "ہم ساری حقیقتوں کو سمجھتے ہیں ہر صورت اس کا پرتو ہے"۔ شاہ کے حضور میں رہنے سے عجیب سا سکون ملتا ہے۔ شاہ کی خانقاہ صدیوں کا سفر کرکے بھی سلامت اور بارونق ہے اور وہ حاکمان قصور ان میں سے اکثر کی قبریں پھیلتے ہوئے شہر میں تعمیر ہونے والے گھروں کی بنیادوں میں دب گئیں۔ کسی حاکم کی قبر مل پاتی تو سوال ضرور پوچھتا، "رب کو کون پسند ہوا؟ تو کہ شاہؒ"

فقیر راحموں نے کاندھا تھپکاتے ہوئے واپسی کا اشارہ کیا۔ مرشد کے حضور سے کون اٹھنا چاہتا ہے مگر زندگی کے اپنے اسرار ہیں انہیں سمجھنا اور حیاتی کے تپتے صحرا میں قدم قدم چلتے رہنا لازم ہے اس وقت تک کہ جب اجل آن لے۔

مرشد بلھے شاہؒ کی لحد پر قدموں کی طرف بوسہ دیتے ہوئے اذن چاہا۔ ایسا لگا شاہ کہہ رہے ہیں"ایمان کے ڈاکوئوں اور سچ کے دشمنوں سے بچ کر رہنا، خواہشوں کو حاوی نہ ہونے دینا اس کے رہنا کہ بس وہی ہے، باقی تو گورکھ دھندہ ہے"۔

اپنے چار اور موجود لوگوں سے ذات پات اور دھرم کی تمیز کے بنا محبت کرنا"۔ شاہؒ کے قدموں پر ایک بوسا اور پھر واپسی کا سفر شروع۔ ہم واپسی کے سارے سفر میں شاہؒ کی باتیں کرتے رہے۔ گاہے یہ احساس ہوا کہ دوسرے مسافر حیرانی سے دیکھ رہے ہیں۔ احساس کے اس سمے کندھے اچکائے اور حال میں مست ہولئے۔ میرا جی چاہا کہ فقیر راحموں سے پوچھا جائے سفر کی اتنی جلدی کیوں تھی، مگر پوچھا نہیں۔

شیخ سعدیؒ یاد آنے لگے۔ کہا "دوست کے کوچہ سے واپسی پر آدمی کی حالت عجیب ہوتی ہے"۔ فقیر راحموں گویا ہوئے "جیسے سزائے موت کا حکم سنائے جانے پر ہوتی ہے"۔ میرے لئے اس اعتراف میں کوئی امر مانع نہیں کہ شاہ لطیفؒ ہوں یا بلھے شاہؒ ان کا ذکر آتے ہی سرمدی نغمہ الاپنے کو جی مچلتا ہے۔ لیکن کیا کریں روزی روٹی اور غم شب و روز میں بندھے جی رہے ہیں البتہ یہ اطمینان ہے کہ ان بزرگوں کی وجہ سے ذات پات اور چھوت چھات و دھرموں کے دھندوں سے بچ رہے۔

شاہ لطیفؒ فرماتے ہیں"انسان سے محبت ہی مقصد تخلیق ہے" اور شاہ (بلھے شاہؒ) کے بقول "محبت ہی اس تک لے جانے کا وسیلہ بنتی ہے جو محبت کے دین سے محروم ہوئے وہ اس کے دیدار سے بھی محروم رہیں گے"۔

مطالعے اور یادوں کی دستک جاری تھی کہ فقیر راحموں نے کہا یار شاہ! "مرشد کے حضور سے واپسی مجبوری تھی لیکن ایسا لگتا ہے آبادی سے نکل کر قبرستان میں آگئے ہیں"۔

Check Also

Wada

By Mubashir Aziz