Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Haider Javed Syed/
  4. Ruet e Hilal Committee Ke Faisle Se Paida Hua Tanaza

Ruet e Hilal Committee Ke Faisle Se Paida Hua Tanaza

رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے سے پیدا ہوا تنازع

مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے پشاور میں رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لئے منعقدہ اجلاس کا فیصلہ بظاہر متفقہ تھا لیکن حقیقت میں یہ فیصلہ تنازعات کا شکار ہوگیا۔ سب سے پہلے آزاد کشمیر کے جید علمائے کرام نے فتویٰ دیا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا رمضان المبارک کے چاند کے حوالے سے فیصلہ درست نہیں۔

چاند کے حوالے سے شرعی گواہی و تصدیق نہیں ہوسکی لہٰذا پہلا روزہ جمعرات 23مارچ کی بجائے جمعتہ المبارک 24مارچ کو ہوگا۔ اس اعلان کی بازگشت ابھی تھمی نہیں تھی کہ اہل تشیع کے قائد ملت علامہ سید سجاد علی نقوی کے دفتر سے جاری ہونے والے اعلامیہ میں کہا گیا کہ "ماہ صیام کا چاند دیکھے جانے کی شرعی گواہیاں نہیں ملیں اس لئے جمعرات کو 30شعبان ہوگی البتہ جو لوگ رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے پر اعتماد کرتے ہوں وہ بے شک پہلا روزہ رکھ لیں بصورت دیگر 30شعبان کا روزہ رکھا جائے"۔

اسی اثناء میں بعض علماء نے یہ اعلان کیا کہ جمعرات 23مارچ کا روزہ "یوم الشک" کی نیت سے رکھا جائے تاکہ اگر کسی وقت یہ ثابت ہو کہ رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ درست اور شرعی تھا تو "یوم الشک" کی نیت سے رکھا گیا روزہ واجب روزہ ہو۔

رویت ہلال کمیٹی والے پشاور میں دور بینیں سنبھالے لگ بھگ پونے چھ بجے میدان میں اترے مگر چاند کا اعلان شب 10بج کر 7منٹ پر کیا گیا۔ تقریباً سوار چار گھنٹے وہ چاند گھڑتے اور پکاتے رہے کیا؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار افغان حکومت نے رمضان کا چاند رات 11 بجے تلاش کرلیا حالانکہ خطے میں سب سے پہلے چاند دیکھنے کے دعویداری ہمیشہ ان کی رہی۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کا فیصلہ ہوا نہیں بلکہ تھونپا گیا اس کی تمام تر ذمہ داری وفاقی وزیر مذہبی امور پر ہے۔ یہ موصوف جب سے مذہبی امور کے وزیر بنے ہیں ان کے بہت سارے فیصلے اقدامات اور تقاریر نے تنازعات کے دروازے کھولے۔ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے پاس پورے صوبہ خیبر پختونخوا سے صرف مردان سے چاند دیکھ لئے جانے کی شہادت پہنچی وہ بھی 9بج کر 37منٹ پر۔ چاند دیکھنے کے اعلان میں کہا گیا کہ مردان، بہاولپور اور رحیم یارخان سے ہمیں شہادتیں موصول ہوئی ہیں۔

یہ کس وقت موصول ہوئیں اگر چاند دیکھنے کے بعد تو پھر سوال یہ ہے کہ بہاولپور اور رحیم یار خان میں چاند دیکھ لئے جانے کی شہادتوں سے پنجاب کی زونل کمیٹی بے خبر کیوں رہی؟ اس بار دو دلچسپ اتفاقات ہوئے۔ افغانستان کی حکومت نے شب گیارہ بجے چاند دیکھ لئے جانے کا اعلان کیا۔ پشاور کی مسجد قاسم خان والے مفتی پوپلزئی نے 10بج کر 40منٹ پر رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کا اعلان کیا۔

کہا جارہا ہے کہ عبدالخبیر آزاد (سربراہ رویت ہلال کمیٹی) کے فیصلے کے حق میں مولانا ڈاکٹر محمد حسین اکبر کا تحریری بیان محض حق دوستی کی ادائیگی ہے۔ چلیں اس "کہا جارہا ہے" سے صرف نظر کرلیتے ہیں۔ آزاد کشمیر کے جید علماء نے اس فیصلے سے اختلاف کیوں کیا؟ علامہ ساجد نقوی نے گو درمیانی راستہ نکال کر بدمزگی سے بچانے کی کوشش کی لیکن یہ حقیقت ہے کہ چاند کا اعلان متنازعہ ہوگیا۔

ایک ہی علاقائی افق کے نیچے موجود بھارت اور بنگلہ دیش میں رمضان المبارک کا چاند نظر نہیں آیا۔ ان دونوں ملکوں میں آج جمعتہ المبارک کو پہلا روزہ ہوگا۔ پشاور اور گردونواح میں موسلادھار بارش نے سماں باندھ رکھا تھا۔ ستم یہ ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کے بدھ کی شام کے طعام کے لئے اعلان کردہ پرتعیش کھانوں والا ٹینڈر منسوخ کرنا پڑا۔ منسوخی کی وجہ عوام الناس کا سوشل میڈیا پر شور و غل تھا۔

فقیر راحموں کے بقول "سنپل سادہ طعام میں اگر رات دس بج کر سات منٹ پر چاند چڑھالیا گیا ہے تو شکر گزار ہونا چاہیے چیں بچیں ہونے کی بجائے"۔

جدید سائنس کتنی ترقی کرچکی ہے لیکن ہمارے ہاں ہر سال رمضان المبارک اور پھر عیدالفطر کے مہینے شوال کا چاند دیکھنے کے تماشے لگتے ہیں۔ کیا محض اس بات سے خوش ہولیا جائے کہ اس بار مفتی پوپلزئی اور افغانستان نے ہمارے چاند کی "پیروی اور زیارت" کو لازمی سمجھ لیا ہے۔

اصل سوال وہی ہے کہ آج کے جدید دور میں مردان، بہاولپور اور رحیم یار خان سے موصولہ شہادتوں کو "پکانے" میں چار گھنٹے کیوں لگ گئے۔ یہ تو مشکل سے پندرہ بیس منٹ کا کام تھا کمیٹی نے ملک کی 93فیصد آبادی کو رات دس بجے تک سولی پر لٹکائے رکھا۔

کیا چاند دیکھنے میں جدید سائنس کوئی مدد نہیں کرسکتی؟ آخر چاند دیکھا بھی تو سائنسی آلات کی مدد سے ہی جاتا ہے۔ کیوں ہم رویت ہلال کمیٹی کے محتاج ہیں۔ یہ تو خالصتاً وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں اور ماہرین فلکیات کا معاملہ ہے۔

تحریک انصاف کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد حسین چودھری نے عملی طور پر رویت ہلال کمیٹی کے "پرکھوں" کو غلط ثابت کردیا تھا۔ تب مولوی صاحبان نے بہت شور مچایا کہ شرعی امور میں مداخلت ہوگئی۔

ہماری نسل نے تو بچپن میں سنا تھا روزہ اور عید چاند دیکھ کر ہوتے ہیں چلیں یہ ایک متھ ہوگی متروک متھ لیکن سماج اور ریاستوں کی ضرورت تو اس سے مختلف ہے۔ کتنی مختلف کہ بہاولپور اور رحیم یار خان میں چاند نظر آیا مگر پنجاب کی زونل کمیٹی اس بارے لاعلم ہے۔ مردان میں مطلع صاف نہیں تھا پھر بھی چاند دیکھائی دے گیا تو پختونخوا کے جن شہروں میں مطلع صاف تھا وہاں کے لوگوں سے چاند کی کیا ناراضگی تھی۔

مثلاً صوابی، نوشہرہ، بنوں اور کرک میں مطلع مکمل صاف تھا۔ کوہاٹ میں ففٹی ففٹی۔ ان شہروں میں چاند دیکھائی کیوں نہیں دیا مردان میں کیوں؟

بہت احترام کے ساتھ عرض ہے قصہ اور ہے۔ مولانا عبدالخبیر آزاد تسلیم کریں یا خاموش رہیں اصل بات یہی ہے کہ ان کا اعلان چاند رمضان المبارک، کمیٹی کے اعلان سے زیادہ وفاقی وزیر مذہبی اور مفتی پوپلزئی کے درمیان اندر کھاتے طے پانے والے سمجھوتے کے مطابق تھا۔

ایسا نہیں ہے تو کیوں کمیٹی کے ارکان تقسیم رہے۔ بریلوی اور شیعہ ارکان ابتداً اس فیصلے کی تائید نہیں کررہے تھے پھر اچانک راضی ہوگئے کیوں؟

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی اپنے سربراہ سمیت استعمال ہوئی اور یہی کڑوا سچ ہے۔ بار دیگر عرض ہے اس رویت ہلال کمیٹی کے جھنجٹ سے مستقل نجات پانے کی ضرورت ہے جس کا کام اسی کو ساجھے۔ فلکیات کے ماہرین، ماہرین موسمیات اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کو یہ کام کرنا چاہیے۔

آپ اگر مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو شرعی جواز فراہم کرتے ہیں تو اس کے بدھ کے فیصلے کے خلاف تین آراء سامنے آئیں ان تین آراء کے حامل علمائے کرام کے ہم خیالوں کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے۔ چاند کا اعلان متنازعہ تو ہوہی گیا۔ ایک افق کی شرعی حیثیت ہے تو یہ دائمی ہونی چاہیے۔

ایک ملک ایک افق شمار ہوگا تو پھر خیبر پختونخوا میں صرف مردان میں۔ پنجاب کے دو شہروں میں چاند دیکھائی دیا۔ پورا سندھ اور بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگ کہاں جائیں؟

معاف کیجئے گا معاملہ اتنا سادہ ہرگز نہیں جتنا عبدالخبیر آزاد سمجھ رہے ہیں۔ ان کے متنازعہ فیصلے سے بہرطور ان لوگوں کی رائے کو تقویت ملی کہ اگر رویت ہلال کمیٹی ضروری بھی ہے تو یہ ماہرین فلکیات و موسمیات کے ساتھ سائنسدانوں پر مشتمل ہونی چاہیے نہ کہ مولوی صاحبان پر۔

افسوس کہ ہر سال رمضان المبارک اور پھر شوال کے چاند پر پیدا ہونے والے تنازعوں اور ان پر اٹھی بحثوں سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ سائنس چاند پر انسان کو لے جاچکی نئی دنیائوں کی تلاش جاری ہے۔

معاملات کلوننگ سے آگے بڑھ چکے، سائنس زندگی پر دسترس پانے کے مرحلے میں ہے اور یہاں ایٹمی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مولویوں کی رویت ہلال کمیٹی چاند دیکھنے پر مامور ہے۔

حرفِ آخر یہ ہے کہ اس معاملے کا مستقل حل نکالا جانا چاہیے یہ ہر سال لگنے والا تماشا اب ختم ہونا چاہیے۔

Check Also

Governor Hai Aik Bhala Sa

By Najam Wali Khan