Raat Ke Hisar Mein
رات کے حصار میں
سچ پوچھئے تو ہم (25 کروڑ لوگ) کسی رات کے حصار میں ہی ہیں ہر لمحہ یہی لگتا ہے کہ یہ سیاہ گھپ گھور رات ابھی شروع ہوئی ہے۔ تاریخ کے "پنے" الٹیں تو یہ ہزار سال سے خاصے اوپر کے وقت سے مسلط ہے۔ بٹوارے کے بعد کی صورتحال کے تناظر میں دیکھیں تو یہ 14 اگست 1947ء سے مسلط ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اسے (رات کو) مسلط کب تک رہنا ہے؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہمارے سماج میں اس سیاہ رات سے نجات کا عزم کب کروٹ لیتا ہے آپ کہہ سکتے ہیں"اِکا دُکا لوگ اور گاہے چند گروہ تو ہمیشہ شبِ سیاہ سے نجات کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ کچھ اب بھی بولتے ہیں"۔
آپ کی بات درست ہے لیکن "بولتے جو چند ہیں وہ ہمیشہ کے شرپسند ہیں" والا معاملہ ہے یہاں عقیدوں کے چولہوں پر سامان دہن کرتے ہوئے کٹھ ملا سے سوال کریں تو فتویٰ۔ کسی سیاسی جماعت پراس کی قلابازیوں کے حوالے سے سوال اٹھائیں تو جمہوریت دشمن۔ اسٹیبلشمنٹ کی نالائقی پر بات کریں تو ملک دشمن ٹھہرائے جاتے ہیں۔
اچھا بس سیاہ رات کے دھندے ہی ہیں۔ طلوع صبح جمہور کے بعد ان دھندے بازوں کی صرف دکانیں بند نہیں ہوں گی بلکہ زبانیں بند ہونے کے امکانات روشن ہیں اس لئے یہ سارے مل کر سیاہ رات کو مسلط رکھنے کے لئے ہر دائو پیچ آزماتے ہیں۔
کبھی فوجی آمریت کبھی ساجھے داری تو کبھی جمہوریت کے نام پر طبقاتی نظام پچھتر برسوں سے یہی تو ہورہا ہے اس ملک میں اور اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک رعایا عوام بننے کی شعوری کوشش اور جدوجہد نہیں کرتی۔
رعایا عوام بننے کی شعوری کوشش اور جدوجہد کب کرے گی؟ میں اکثر یہ سوال خود سے بھی پوچھتا رہتا ہوں باوجود اس کے کہ جواب مجھے معلوم ہے پھر بھی جی بہلانے کو سوال پوچھتے رہنا اچھا ہے۔
معاف کیجئے گا کچھ زیادہ بھاری بھرکم باتوں کی تمہید نہیں باندھ لی آج؟
اصل میں تو میں ایک کتاب پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ "رات کے حصار میں" عابد حسین عابد کا مجموعہ کلام ہے۔ یہ کتاب مجھ تک شاعر کی جانب سے عزیزم سید زوہیب حسن بخاری کے توسط سے پہنچی۔ عابد حسین عابد اور زوہیب بخاری دونوں کا شکریہ۔
عابد حسین عابد ترقی پسند دانشور اور شاعر ہیں۔ میاں چنوں سے تعلق ہے عشروں سے لاہور میں مقیم ہیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی لاہور میں نشاط ثانیہ کا سہرا ان کے سر ہے۔ میرا ان سے ایک تعارف سوشل میڈیا کے ذریعے ہوا۔ دوسرا عزیزم محمد عامر حسینی کے ذریعے۔ ویسے وہ خود اپنا تعارف آپ ہیں۔
اپنی فکری استقامت، دوٹوک انداز میں بات کرنے۔ عصری شعور کے ساتھ مدلل انداز میں مکالمہ اٹھاتے وقت انہیں یہ نہیں بھولتا کہ اس سماج کا انفرادی اور اجتماعی ہاضمہ کتنا ہے۔
ہم اور آپ جس سماج میں جینے پر مجبور محض ہیں یہاں سب سے بڑا مسئلہ روٹی نہیں بلکہ "ہاضمہ" ہے۔ بھوک کے قریب بسنے والے طبقات میں چونکہ اندھی تقلید سرطان کی طرح پھیلتی ہے اس لئے بہت سوچ سمجھ کر بات کرنا پڑتی ہے خصوصاً ان لوگوں کو جو بوسیدہ روایات کو توڑ کر نئی روایات سے متعارف کرانے کو زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔
عابد حسین عابد بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں جو چاہتے ہیں لکیر کے فقیر کی طرح اندھیرے میں زندگی بسر کرنے کی بجائے ہر کس و ناکس اپنے جینے کے "حق" سے آگاہ ہو۔ جینے کا حق کیا ہے ماسوائے اس کے کہ علم و آگہی کے نور سے اندھیروں کو کاٹا جائے۔ ان اندھیروں کو جو صدیوں سے ہم پر مسلط ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری اکثریت اندھیروں کے دیوتائوں کو روشنی کی امید میں پوجتی آرہی ہے۔ کئی نسلوں اور صدیوں سے یہ سلسلہ جاری ہے درمیان میں اگر کسی نے ان اندھیروں، استحصال، جبر اور شقاوت بھرے طبقاتی امتیازات کے خلاف بات کرنے کی کوشش کی بھی تو ہم میں سے اکثر نے ان کا ٹھٹھہ ہی اڑایا۔
"رات کے حصار میں" عابد حسین عابد کا مجموعہ کلام ہے۔ کتاب میں شاعر اور اس کی شاعری پر ان کے مختلف الخیال دوستوں نے نپی تلی رائے دی ہے۔ جن اہل علم و فکر نے عابد حسین عابد کی فکر، ذات، جدوجہد اور شاعری پر بات کی وہ ظاہر ہے کہ ان کی زندگی کے ان چاروں گوشوں سے قریبی شناسائی رکھتے ہیں۔ ہمارے سامنے تو ان کا مجموعہ کلام ہے "رات کے حِصار میں" کا شاعر کہتا ہے
ہم نے ذہنوں میں سوالات ابھارے عابد
ہم نے ٹھہرے ہوئے پانی میں گرایا پتھر
سوال کرنا اور دوسروں کےقلوب و ذہن کو اس پر آمادہ کرنا کہ وہ سوچیں اور سوال کریں یہی سب سے مشکل کام ہے کیونکہ ہمارے ہاں صدیوں کی پکی پکائی متھ یہی ہے کہ اطاعت و پیروی بندگی کا حق ہے سوال کرنا وسوسوں کو رزق بنانا ہے۔
گو کہ ایسا ہے نہیں لیکن اکثریت کے ذہنوں میں یہی راسخ ہے۔ اس اکثریت کی ذہن سازی میں مسجد و مکتب کی صدیوں کی محنت شامل ہے اسی لئے تو سودے بازی پر مبنی عبادات اور کلرکی ٹائپ ملازمت کے حصول کے لئے حاصل کی گئی تعلیم پر لوگ اترائے نہیں تھکتے۔
اس کے باوجود کبھی کبھی اس فضا میں کوئی نئی توانا آواز اپنی فکر کی گونج اٹھاتی ہے۔ لہو کے دیپ جلاتی ہے۔
"رات کے حصار میں" کے ابتدائی مطالعہ کے بعد مجھ طالب علم کی دیانت دارانہ رائے یہی ہے کہ عابد حسین عابد کا مجموعہ کلام محض شاعرانہ تجلی سے عبارت نہیں بلکہ پڑھنے سمجھنے اور پرعزم انداز میں اگلی نسلوں کو طلوع صبح جمہور کی فرزانگی سے عبارت سماج ورثے میں دینے والوں کے لئے اس میں بہت کچھ ہے۔
صاحب کتاب بارے ان کے مہربانوں، دوستوں اور اہل علم کی آراء اپنی جگہ صائب ہیں۔ بلاشبہ ان کی شاعری بس زلف یار سے کھیلنے اور موسموں سے حظ اٹھانے کے روایتی شوق و جذبہ سے عبارت نہیں بلکہ سوچوں کے نئے در وا کرتی ہے۔
عابد حسین عابد اپنے چار اور ہوتے معاملات سے بے خبر نہیں اسی لئے تو اس نے کہا
پسپائی کو ہار سمجھ کر ہنسنے والو
میں زندہ ہوں اور پلٹ کر آسکتا ہوں
عابد حسین عابد ہی یہ کہتے ہیں
جڑت دھرتی سے رکھتا ہو بہادر ہو قبیلے میں
اسے اک دن غریبوں کی وکالت مار دیتی ہے
یہاں اس سے بڑی بدقسمتی عابد بھلا کیا ہے
جو گولی سے نہیں مرتا اسے عدالت مار دیتی ہے
مندرجہ بالا دو اشعار اس معاشرے کے عدالتی نظام کے چہرے پر پڑا نقاب نوچتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ہمارے نظام عدل کی حالت تو یہی ہے۔ چاہے تو 65 سال میں تیزرفتار سماعتوں کے ذریعے تین مرلہ کی جائیداد کا فیصلہ کرے چاہے تو محبوب ملزم کو عدالتی مہمان بنالے۔
اپنی ایک نثری نظم "گواہی" میں وہ کچھ یوں کہتے ہیں:
"مبلغ سچ نہیں کہتا، مؤرخ جھوٹ لکھتا ہے، انہی کی عقل ناقص ہے۔ خدا نے دست قدرت سے تمہیں پورا بنایا ہے۔ ہوس حد سے بڑھی جس دن، زمین کے زرپرستوں نے، تمہیں بھی جنس میں تبدیل کرڈالا۔ کبھی انسان نہیں جانا، فقط ایک جسم سمجھا ہے، جسے بس خاص لمحوں کی ضرورت کے علاوہ کچھ نہیں کرنا، سنو، آدھی نہیں ہو تم، زمیں پر مرد کا ہونا، تمہاری ہر جگہ پوری گواہی ہے"۔
چلتے چلتے ان کا ایک شعر بھی پڑھ لیجئے
سبز سے سفید تک سرخ سی لکیر ہے
رات کے حصار میں روشنی بدل گئی
دوست اور کتاب ہمیشہ سے میری کمزوری رہے اس کمزوری سے ہی میں نے ہمیشہ طاقت حاصل کی اسی طاقت نے ہمیشہ اپنی بات کہنے لکھنے کا حوصلہ دیا۔
عابد حسین عابد کا شکریہ کہ انہوں نے طالب علم کو اپنا مجموعہ کلام بھجوایا۔ پروگرام تو ملاقات کا تھا لیکن مجھے اس دن سرگودھا جانا پڑا تھا۔ سانسوں کا سفر جاری ہے ملاقات بھی ہوجائے گی ان کے مجموعہ کلام نے بھی شاندار ملاقات کرادی۔
آسمانوں سے اتارے ہوئے روشن چہرے
کھینچ لیتی ہے زمیں اور یقیں ٹوٹتا ہے
(عابد حسین عابد)