Punjab Base Urdu Media
پنجاب بیس اردو میڈیا
سوشل میڈیا مجاہدین کی اکثریت پنجاب بیس اردو میڈیا کی روش سے متاثر ہے اور پنجاب بیس اردو میڈیا؟ اس نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کو مدنظر رکھا کیونکہ دونوں کے مفادات مشترکہ ہیں۔
آپ سوال کریں گے کہ پھر کراچی بیس اردو میڈیا کہاں کھڑا ہے؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ اس میں اکثریت پنجابی مالکان کی ہے۔ چند جو غیرپنجابی ہیں انہیں بہت پہلے سمجھ میں آگیا یا یوں کہہ لیجئے کہ سمجھا دیا گیا تھا کہ میڈیا ہائوس کی زندگی کے لئے کس دہلیز کو بوسے دینا ضروری ہے۔
آپ اس ملک میں شائع ہونے والے اخبارات (ان میں تین سو سے ایک لاکھ تک شائع ہونے والے سبھی اخبارات شامل ہیں) اٹھاکر دیکھ لیجئے اور فیصلہ کیجئے کہ یہ اخبارات اپنے قارئین کو کیا دے رہے ہیں یہی حال 100کے قریب ٹی وی چینلز کا ہے ان میں نیٹ چینلز شامل کرلیں تو تعداد بڑھ جائے گی۔ سب کی مجموعی نشریات کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کیجئے تو چند لمحوں میں جان لیں گے کہ چاپلوسی، پگڑیاں اچھالنے، چیخ چیخ کر تجزیہ کے نام پر "بَھد" اڑانے کے سوا انہیں کچھ نہیں آتا۔
ایک طالب علم کے طور پر نصف صدی کی قلم مزدوری کے عرصے میں میں یہی سجھ پایا ہوں کہ ہمارے میڈیا ہائوس کا مقصد سماجی و سیاسی شعور میں اضافے اور بدلتے ہوئے حالات میں سماج کے مختلف طبقات کی رہنمائی ہرگز نہیں بلکہ دو مقصد ہوتے ہیں میڈیا مالک کی سماجی چودھراہٹ اور سرکاری اشتہارات۔
یہ اس کے لئے مجبوری ہیں کہ ان کے بغیر دال روٹی نہیں چلتی۔ نجی شعبہ کے اشتہارات پر بڑے شہروں سے شائع ہونے والے "بڑے" اخبارات کا قبضہ ہے۔
کاروباری افراد یا اداروں کے لئے ممکن نہیں کہ وہ ہزاروں کی تعداد میں شائع ہونے والے اخبارات کو چھوڑ کر ہزار پندرہ سو کی تعداد میں شائع ہونے والے علاقائی اخبارات کو اشتہار دیں حالانکہ انہیں علاقائی اخبارات کے لئے بھی اشتہاری مہم کے بجٹ کا ایک حصہ مختص کرنا چاہیے۔
چند برس ہوتے ہیں میں نے سرکاری و نجی اشتہارات کے ذریعے ذرائع ابلاغ پر پالیسی کنٹرول حاصل کرنے کے معاملے پرایک کالم لکھا تھا۔ آج کی طرح ان دنوں بھی میں اتفاق سے ملتان اور پشاور کے معروف اخبارات کے لئے کالم لکھتا تھا ان اخبارات کے ادارتی صفحات کے ذمہ داران نے وہ کالم شائع کرنے سے معذرت کرلی۔
مجھے حیرانی ہوئی نہ افسوس وجہ یہی تھا کہ وہ پندرہ سو روپے میں کالم لکھنے والے کی خاطر ہر سال کروڑوں روپے کا بزنس دینے والوں کو کیوں ناراض کریں۔ وہ پہلا موقع نہیں جب میں نے اگلے کسی کالم میں دبے دبے الفاظ میں عرض کیا "پاکستان میں آزادی صحافت میڈیا ہائوس مالکان کے مفادات کا نام ہے"۔
معذرت خوا ہوں ہم اصل موضوع سے کچھ دور ہوگئے۔ ایک عامل صحافی کی حیثیت سے مجھے پنجاب بیس اردو میڈیا ہائوس سے ہمیشہ یہ شکوہ رہا (اور آج بھی ہے) کہ وہ قارئین کی ذہن سازی میں عصری شعور کو اہمیت دینے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔
آپ دیکھ لیجئے دو قومی نظریہ، پاکستان خطرات سے دوچار ہے۔ یہووہنود ہمارے دشمن ہیں، بھارت ہمیں مٹادینے کے درپے ہے، پاکستان اسلام کا قلعہ ہے، سیاستدان چور ہیں فوج نہ ہوتی تو یہ ملک کو بیچ کر کھاگئے ہوتے یہ اور اس طرح کی سینکڑوں بودی باتیں اور کہانیاں اسی پنجاب بیس اردو میڈیا نے شائع کیں، گو کہ اب طریقہ واردات بدل گیا ہے مگر مشن نہیں بدلا۔
یہاں ایک ساعت کے لئے رکئے میں آپ کو ایک دلچسپ واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی آصف علی زرداری سے شادی ہوئی تو اگلے دن خود کو سواد اعظم اہلسنت کہلانے والے دیوبندی مسلک کے مولوی سلیم اللہ خان و دیگر کی طرف سے روزنامہ جنگ کی مکل بھر کی اشاعتوں کے صفحہ اول پر چوتھائی صفحہ کا ایک اشتہار شائع کروایا گیا جس میں اخبار کے قارئین کو بتایا گیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کا آصف علی زرداری سے نکاح فقہ جعفریہ کے مطابق ہوا ہے سنی مسلمان خبردار رہیں۔
کیا یہ اشتہار جنگ جیسے اخبار نے محض پیسوں کے لئے شائع کیا تھا؟ جی نہیں اس اشتہار کی اشاعت کے پیچھے دو نسلوں کی بھٹو خاندان سے نفرت شامل تھی۔
میر خلیل الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان ہوا ایک مکالمہ ارشاد رائو مرحوم کے ہفت روزہ "الفتح" میں شائع ہوا تھا کچھ کہانی اس میں موجود ہے۔ دوسرا تنازع کراچی کے میٹرو پول ہوٹل کے میٹرو کلب میں ہوا۔ آصف علی زرداری اور میر شکیل الرحمن کا ایک جھگڑا تھا "بھری جوانی کے منہ زور جذبات اور غصہ کی وجہ سے ہونے والے اس جھگڑے کو پہلے سندھی اردو خاندانوں کا جھگڑا بناکر پیش کیا گیا دال نہ گل پائی تو پھر یہ دوسری نسل کی بھٹوز سے نفرت میں اس وقت بدل گیا جب بینظیر بھٹو کی آصف زرداری سے شادی ہوئی۔
ایک سخت مکالمے اور ذاتی جھگڑے کا بدلہ چوتھائی صفحہ کے اشتہار میں نکاح فقہ جعفریہ کے تحت ہوا ہے کہہ کر لیا گیا۔
یہ ایک مثال ہے۔
ادھر پنجاب بیس اردو میڈیا نے 1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کو گھاسی رام لکھا ان کی مرحومہ والدہ پر رکیک حملے کئے گئے۔ مرحومہ والدہ کے خاندان بارے پنجاب کے اسلام پسند صحافیوں کے اخبارات و جرائد میں جو لکھا گیا اسے پنجاب کے مولا جٹ مزاج یا تھڑے بازی کی گالیوں بھری گفتگو کا حصہ کہہ کر نظرانداز کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا۔
پنجاب بیس اردو میڈیا نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی محبت و جمہوریت بیزاری کو عقیدے کے طور پر اپنایا۔
آپ تلاش کیجئے اسی روزنامہ جنگ راولپنڈی میں کام کرنے والے ایک صحافی (مجھے کیا اکثر کو نام معلوم ہے) نے اکتوبر 1999ء میں وزیراعظم ہائوس سے وزیراعظم کی گرفتاری کی خبروں کے بیچوں بیچ ایک خبر یہ بھی دی تھی کہ وزیراعظم کے کمرہ خاص سے "قوت بخش ادویات، رسالے اور فلمیں بھی برآمد ہوئیں"۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خبر اس صحافی کے نام سے شائع ہوئی جو ہمیشہ مسلم لیگ (ن) اور شریف خاندان کو محبوب رہا اور ہے۔
میاں نوازشریف نے وطن واپسی کے بعد ایک بار اس صحافی سے کہا "ظافر صاحب آپ سے توقع نہیں تھی کہ اس طرح کی گھٹیا خبر اپنے نام سے شائع کروائیں گے"۔ اس نے کھٹ سے جواب دیا، میاں صاحب وہ خبر آئی ایس پی آر نے براہ راست ہمارے مالک کو بھیجی مالک نے میرے نام سے شائع کرنے کا حکم دیا۔
یہ جواب سوفیصد جھوٹ تھا خبر ان حضرت نے ہی گھڑی تھی۔ میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ آپ پچھلے ہفتہ بھر کے پنجاب بیس اردو میڈیا کے اخبارات کے صفحات کو بغور دیکھئے اور چینلز کی نشریات کا تجزیہ کیجئے۔ صاف سمجھ جائیں گے وہی پرانا دھندہ اسٹیبلشمنٹ کی طبلہ نوازی (طبلچی پنے) کا شروع ہوگیا ہے۔
پہلے مرحلہ پر سندھ اور پیپلزپارٹی ٹارگٹ ہیں اگلے مرحلہ پر (ن) لیگ، اے این پی اور بلوچ قوم پرست ٹارگٹ ہوں گے۔ عمران خان اور ان کی جماعت تو خیر اپنی خدمات اور کاشت میں تعاون کا صلہ کاٹ رہے ہیں۔
یہ پنجاب بیس اردو میڈیا اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں کرے گا کہ سیاستدانوں کے علاوہ کسی کی کرپشن پر بات کرے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے انصاف کا قتل ہوتا ہے۔ تازہ مثال شوگر مافیا کے حوالے سے پنجاب کے ایک سیکرٹری زمان وٹو کی گفتگو ہے۔
چینی کے بحران کا پس منظر اس نے کیا بیان کیا قیامت برپا ہوگئی۔
ایک طرف اسے عہدہ سے ہٹادیا گیا دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ کے 11 جج صاحبان کے لئے بلاسود قرضوں کے اجرا کی منظوری دی گئی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پنجاب بیس اردو میڈیا تاریخ کو مسخ کرنے کے ساتھ لمحہ موجود کی غلط بیانیوں کو مقدس تعلیمات کے نام پر پیش کرنے میں خدمات بجا لانے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹا۔
اس کے خیال میں اللہ کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے اس ملک کو سنبھال رکھا ہے ورنہ پتہ نہیں کیا ہوجاتا۔