Punjab Base Urdu Media (2)
پنجاب بیس اردو میڈیا (2)
گزشتہ روز کے کالم "پنجاب بیس اردو میڈیا" پر ایک قابل احترام اور سینئر صاحفی دوست نے ٹیلیفون پر کہا "پیر جی کچھ جذباتی ہوگئے آپ بالخصوص "پنجاب بیس اردو میڈیا" والی اصطلاح ایک خاص تعصب کی نشاندہی کرتی ہے"۔
عرض کیا کیا کالم کے مندرجات میں کوئی غلطی ہے؟ بولے اس پر ملاقات میں بات کریں گے فی الوقت پنجاب بیس اردو میڈیا کی اصطلاح پر میرا احتجاج لکھ لیجئے۔
ہم آگے بڑھتے ہیں پنجاب بیس اردو میڈیا کی اصطلاح نصف صدی کے تجربات، مشاہدات اور ہڈ بیتیوں کی روشنی میں لکھی تھی۔ ہم روزانہ کی بنیاد پر پنجاب بیس اردو میڈیا کے تعصب، حقائق کو مسخ کرنے، دوسروں کی آنکھ میں تنکا تلاش کرلینے اور اپنی آنکھ اور نیت کے شہتیر کو نہ دیکھ سکنے پر بات کرسکتے ہیں۔
ایک وقت تھا پنجاب بیس اردو میڈیا روزانہ کی بنیاد پر خان عبدالغفار خان اور ان کے خاندان کی سیاسی فہم وغیرہ پر ثواب کی "نیت" سے چاند ماری کرتا تھا۔ نصف صدی سے اوپر تک یہ ثابت کیا گیا کہ باچا خان اور ان کا خاندان پاکستان دشمن ہے۔ بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ ان کی سیاست سے قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں یہ سلسلہ قیام پاکستان کےبعد سے شروع ہوا اور اس وقت تک جاری رہا جب صوبہ سرحد (اب خیبرپختونخوا) میں اے این پی اور مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت بنی اسی دور میں محترمہ بیگم نسیم ولی خان کے برادر عزیز اعظم خان ہوتی وفاقی وزیر بنے تھے۔
پنجاب بیس اردو میڈیا کا کمال یہ رہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں اس نے جو چاہا جس کے خلاف چاہا دھڑلے سے لکھا۔
مثلاً ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران اسی میڈیا نے پنجاب پولیس کی خواتین اہلکاروں کو "نتھ فورس" کہا لکھا اور اس تاثر کو اجاگر کیا کہ پولیس میں بازار حسن سے تعلق رکھنے والی خواتین کو بھرتی کرکے لایا گیا کہ تاکہ یہ "نتھ فورس" قومی اتحاد کی پاکیزہ خواتین پر تشدد کرے۔
نتھ فورس کی گھٹیا اصطلاح لاہور سمیت پنجاب میں اتنی مقبول ہوئی کہ پنجاب پولیس کی خواتین اہلکاروں نے وردی میں گھروں سے نکلنا چھوڑدیا۔
اسی پنجاب بیس اردو میڈیا کا ایک اور کمال دیکھئے۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی پی ڈی پی کے ایک لاہوری رہنما خواجہ محمد رفیق تھے۔ خواجہ صاحب ایک چھوٹا سا پرنٹنگ پریس چلانے کے ساتھ پی پی پی کے ایک رہنما جو صوبائی وزیر بھی رہے۔ افتخار تاری اور مزمل بٹ کے ساتھ مشترکہ طور پر جھگڑے والی جائیدادوں کی خریدوفروخت کا کاروبار بھی کرتے تھے۔
کہا جاتا ہے کہ جھگڑے والی جائیداد کے لین دین میں وہ اسی طرح کا کاروبار کرنے والے دوسرے گروپ غفار مجھو کے بندوں سے جھگڑے میں پنجاب اسمبلی کے عقب میں ہونے والی لڑائی میں گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئے۔
اس قتل کا الزام براہ راست افتخار تاری اورپیپلز پارٹی پر نوائے وقت کی قیادت میں پنجاب بیس اردو میڈیا نے کسی ثبوت اور تفتیش کے بغیر تھوپ دیا۔
خواجہ صاحب شہید جمہوریت قرار دے دیئے گئے۔ مجید نظامی صاحب کی تجویز پر چودھری ظہورالٰہی نے مرحوم کے خاندان کو اپنی کفالت میں لے لیا۔
یہ درست ہے کہ خواجہ صاحب جھگڑے میں قتل ہوئے لیکن ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر جس طرح یہ قتل پیپلزپارٹی پر ڈالا گیا اس پر کچھ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ ایسا لگتا ہے کہ "منصوبہ سازوں کا منصوبہ یہی تھا".
اس پنجاب بیس اردو میڈیا کے روزناموں اور ہفت روزوں کا 1972ء سے 1977ء تک کا ریکارڈ تلاش کرکے اس کا مطالعہ کیجئے تاکہ آپ جان سکیں کہ اس عرصہ میں پنجاب بیس اردو میڈیا نے کیسے پیپلزپارٹی کے کفرانہ نظریات کے خلاف اسلام اور نظریہ پاکستان کا پرچم تھامے رکھا۔
5 جولائی 1977ء کو آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے ملک میں تیسرا مارشل لاء نافذ کردیا۔ میڈیا کے اسی پنجاب والے حصے کی اس وقت کی اشاعتوں کو اٹھاکر دیکھئے، جنرل ضیاء الحق محسن پاکستان محمود غزنوی ثانی مرد حق اور نجانے کیا کیا قراردیئے گئے۔
چلیں یہ بہت پرانی باتیں ہیں آپ ایسا کریں کہ تھوڑی سی زحمت کریں پچھلے دس برسوں کے دوران پنجاب اور سندھ میں نومولود بچوں کی وفات پاجانے کے اعدادوشمار حاصل کریں اور پھر سوال اٹھائیں تھر میں غذا کی کمی سے وفات پانے والے بچے کے لئے نوحہ گری کرتے میڈیا کو الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں آکسیجن کی کمی سے وفات پانے والے بچوں کے سانحہ ارتحال پر دکھ کیوں محسوس نہ ہوا۔
سندھ میں ہائیکورٹ کا جج حکم دیتا ہے جس حلقہ میں کتے نے انسان کو کاٹا اس حلقہ کا ایم پی اے معطل کردیا جائے گا۔ سارا پنجابی میڈیا سندھ ہائیکورٹ کے سکھر بنچ کے جج کو "کعبہ کی کڑی" قرار دینے پر تل گیا اسی عرصہ میں میڈیا کے پنجابی اردو حصے نے غیرذمہ دارانہ طرزعمل کا مظاہرہ کیا۔
قلابازی میں مہارت کے حامل پنجاب بیس اردو میڈیا نے جنرل پرویز مشرف کی فوجی آمریت کو اعلیٰ ترین جمہوریت سے بلند مرتبہ ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
اکتوبر 2011ء سے 2018ء تک اور پھر 2018ء کے انتخابی نتائج اس سارے عرصہ میں پنجاب بیس اردو میڈیا آئی ایس پی آر کے "بھونپو" کا کردار ادا کرتا رہا۔
99 فیصد پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا نے اسٹیبلشمنٹ کے حکم پر عمران خان کو مسیحا نجات دہندہ ایماندار و باکردار بناکر پیش کیا اور اسٹیبلشمنٹ کے ناپسندیدہ سیاستدانوں و جماعتوں کو کفن چور ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ پنجاب کے اردو اسلامی صحافیوں نے اپنے کالموں اور جرائد و اخبارات میں ذوالفقار علی بھٹو کی مرحوم والدہ بارے ایسے ایسے سوقیانہ جملے لکھے جو بازار حسن کے قدیم خاندان روزمرہ کی بول چال میں بھی نہیں استعمال کرتے۔
بیگم نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کی کردار کشی میں یہ اسلام پسند ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے دیکھائی دیئے۔ یہ بدقسمتی ہی ہے کہ پون صدی میں قومی رابطے والا میڈیا معرض وجود میں نہیں آسکا۔
پنجاب بیس اردو میڈیا نے جمہوریت پسند بنگالیوں کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے بُعد کو آگے بڑھانے میں حصہ ڈالا۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ یہ پنجاب بیس اردو میڈیا خود ہی، اسلام، پاکستان، نظام، تاریخ، دو قومی نظریہ سمیت ہر چیز کا وارث و محافظ ہے۔
اسے یہ احساس نہیں کہ اس تعصب کے مظاہرے، غلط بیانی اور اسٹیبلشمنٹ کی چاپلوسی نے اس کی ساکھ ختم کردی ہے۔
ویسے تو ساکھ علاقائی زبانوں کے میڈیا ہاوسز کی بھی نہیں لیکن اس پہ پھر بات کریں گے۔ پنجاب بیس اردو میڈیا کی ان خدمات کا صلہ اسے ہمیشہ ملا بلکہ خدمات سے بڑھ کر ملا۔
آپ دیکھ لیجئے کتنے اخبارات اور چینلز میں ویج بورڈ ایوارڈ نافذ ہے۔ کتنے اخبارات و چینلز میں لنگر کی کھائو لائن میں قیام کرو خود کمائو "ہمارے" لئے بھی لائو کی پالیسی پر عمل ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ دنیا بھر میں ذرائع ابلاغ ریاستی اسٹیبلشمنٹ کی ہمنوائی کرتے ہیں اس کے باوجود وہ عوامی مفاد پر سمجھوتہ نہیں کرتے۔
ہمارے ذرائع ابلاغ نے چار اعلانیہ مارشل لائوں کو آسمانی فیصلوں کے طور پر پیش کیا۔ بھارت دشمنی کو اپنی پالیسی کا رزق بنائے رکھا نتیجہ کیا نکلا؟ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں مالکان ارب پتی ہوگئے، کارکنوں کی اکثریت دو وقت کی روٹی پوری کرتے قبروں میں اتر جاتی ہے۔ عوام کے بڑے حصے کو عدم برداشت کا مرض لاحق ہے اس ساری صورتحال کا ذمہ دار پنجاب بیس اردو میڈیا ہے۔