Parachinar, Haliya Waqiat, Kamzor Ehtejaj Aur Pas Manzar
پارا چنار ، حالیہ واقعات، کمزور احتجاج اور پس منظر
سوال بہت سادہ ہے پھر بھی جان کی امان رہے تو عرض کئے دیتے ہیں"پارا چنارہ کے گردونواح میں جو حالیہ خونریز واقعات ہوئے ان میں سب سے زیادہ حصہ سرحد پار افغانستان سے آنے والے مسلح جتھوں نے ڈالا۔ پارا چنار اور مختلف علاقوں پر افغان حدود سے راکٹ داغے گئے۔ سرحد پر لگی باڑ کاٹ کر مسلح جتھے پاکستان کی حدود میں داخل ہوئے یہی نہیں بلکہ ایک کالعدم تنظیم کے پرجوش رہنما نے کم از کم تین اجتماعات سے خطاب میں تکفیر کے فتوے جاری کئے اس ساری صورتحال میں سکیورٹی فورسز اور بالخصوص بارڈر مینجمنٹ کے ذمہ داران کہاں تھے؟
کیا باڑ کاٹنے اور دراندازی کا یہ پہلا واقعہ تھا کہ فوری طور پر علم نہیں ہوسکا۔
ایسا نہیں ہے بلکہ افغانستان میں افغان سٹوڈنٹس (طالبان) کی فتح کے بعد اب تک سرحدی باڑ کاٹنے کے 100سے زائد واقعات ہوئے۔ بعض میں سرحد پار کی افغان انتظامیہ کے ذمہ دار بذات خود باڑ کاٹنے کے عمل کی نگرانی ہی نہیں کررہے تھے بلکہ چند مقامات پر انہوں نے پرجوش خطاب میں 2باتیں بھی کہیں۔
پہلی یہ کہ اٹک تک ہمارا علاقہ ہے۔ دوسری یہ کہ ٹی ٹی پی اسی طرح کا جہاد کررہی ہے جیسا جہاد افغان طالبان نے 20سال امریکہ کے خلاف کیا۔ کیا ہمارے پالیسی سازوں اور دیگر نے ان دو باتوں کی گہرائی و مقاصد کو سمجھنے کی کوشش کی۔
بات اگر سمجھ میں آگئی تھی تو پھر افغان حکومت سے کس سطح پر احتجاج ہوا اور یہ واضح کیا گیا کہ دراندازی و باڑ کاٹنے کے واقعات کو روکا جائے۔
ہمارا میڈیا نان ایشوز پر پرائم ٹائم کے گھنوں برباد کرتا ہے مایوسی پھیلانے اور مخصوص مقاصد کے لئے پروپیگنڈے کو آگے بڑھانے میں فرنٹ لائن دستے کا کردار ادا کرتا ہے لیکن قومی سلامتی کے معاملات پر بات کرنے کے لئے اس کے پاس وقت ہی نہیں ورنہ الیکٹرانک میڈیا کی انجمن سیاپا فروشان کے ارکان (اینکرز) اپنے تئیں ہر فن مولا ہیں۔
اس جملہ معترضہ کو اٹھا رکھئے ہمیں یہ دیکھنا اور سمجھنا ہوگا کہ افغان عبوری حکومت نے دوحا معاہدہ پر اس کی روح کے مطابق عمل سے گریز کی پالیسی کیوں اپنارکھی ہے۔ اس پر غور سے پہلے ہم اس امر پر غور کیوں نہ کرلیں کہ خود ہماری بارڈر مینجمنٹ میں جو خامیاں کمزوریاں ہیں انہیں دور کرنے کے لئے کیا اقدامات ہوئے۔
مثلاً پچھلے برس وفاقی کابینہ کے جس اجلاس میں افغانستان کو لاکھوں ٹن گندم دینے کی منظوری دی گئی اسی اجلاس میں بتایا گیا کہ ایک سال کے عرصہ میں 30لاکھ ٹن سے زائد گندم افغانستان سمگل ہوئی۔ اسی اجلاس میں ڈالر، ادویات، کوکنگ آئل اور چینی کی افغانستان سمگلنگ پر بھی وزراء نے "تفصیل" سے غور کیا نتیجہ کیا نکلا اس غور کا اور یہ کہ روکنے کے لئے اگر کوئی حکمت عملی وضع ہوپائی تو اس پر عمل کتنا ہوا۔
یہاں ایک ضمنی سوال ہے وہ یہ کیا وزارت داخلہ و دفاع نے کابینہ کوبتایا کہ سرحد پار دراندازی سے صوبہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کس برے طریقے سے متاثر ہوئے ہیں؟
معاف کیجئے گا دوحا معاہدہ اور اس کے بعد ہر دو مرحلوں پر قومی سلامتی کے تقاضوں کو یکسر نظرانداز کرکے جو رویہ اور حکمت عملی ہم (یہاں ہم سے مراد ریاست ہے) نے اپنائی اس کا خمیازہ لمبے عرصے تک بھگتنا پڑے گا۔
افغان امور اور مسلح جتھوں کے حوالے سے پچھلی چوتھائی صدی سے رپورٹنگ اور تجزیہ کرنے والے ہم جیسے قلم مزدور مسلسل خبردار کررہے تھے کہ فتح کابل کا تحفہ سینے پر سجانے اور چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑ کر تصاویر وائرل کروانے والے اپنی ہی مملکت اور لوگوں کے مستقبل میں کانٹے بورہے ہیں۔
نمبرون کہلانے کا برسوں پروپیگنڈہ کرانے والے اتنی سی بات نہیں سمجھ پائے کہ دوحا معاہدہ پر عمل کے لئے امن معاہدہ پر عمل لازم تھا دونوں معاہدہ کی بنیادی روح یہ تھی کہ افغانستان میں مختلف الخیال گروہوں کی عبوری انتظامی حکومت ہوگی اس حکومت کو ایک برس میں افغان آئین بناکر انتخابات کرانا ہوں گے۔ طالبان ایک سیاسی جماعت کے طور پر انتخابی عمل میں حصہ لیں گے۔
پھر کیا ہوا کہ ایکاایکی یہ معاملہ پس پشت ڈال کر طالبان کی فتح کے لئے راہ ہموار کی گئی یہی نہیں بلکہ حد سے بڑھ کر تعاون بھی۔
انہی سطور میں ہم نے اس وقت عرض کیا تھا کہ چائے کے کپ والی تصویر اورپرجوش تعاون دونوں مستقبل میں گلے پڑجائیں گے۔
اس وقت ملک پر تحریک انصاف کی حکومت تھی مسلسل ان سطور میں ٹی ٹی پی سے کابل مذاکرات میں دیکھائی جانے والی کمزوریوں کی نشاندہی کی۔ یہ بھی عرض کیا کہ سنگین مقدمات میں سزا یافتہ اور گرفتار ٹی ٹی پی کے سینکڑوں افراد کی ہائی کا معاہدہ اور صدارتی فرمان پر ان کی رہائی آنے والے دنوں میں عٓذاب بن جائے گی۔
یہ بھی عرض کیا کہ سرحد پار دراندازی کے معاملے پر ڈھیلے ڈھالے احتجاجی پروگرام کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ ملکی سلامتی اور سماجی وحدت کو سامنے رکھ کر افغان طالبان سے بات کی جائے۔
افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہ ہوا بلکہ دوسری طرف سے دوحا معاہدہ کے برعکس افغان سرزمین طالبان کی فتح کے پہلے دن سے پاکستان کے خلاف استعال ہورہی ہے۔
ہمارے "دانا و بینا" پالیسی ساز اس وقت بھی مستقبل کے حوالے سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ نہیں لگاسکے جب امریکہ کے خلاف افغان طالبان کی جنگ میں شریک تین پاکستانی کالعدم تنظیموں اور دوسرے مسلح دھڑوں کا افغان طالبان کی نگرانی میں مشاورتی اجلاس ہوتا رہا ہم اس پر خوش ہورہے تھے کہ افغان طالبان ہماری ٹی ٹی پی سے بات چیت کرارہے ہیں۔
حالانکہ یہ بات چیت اصل میں ٹی ٹی پی کو منظم ہونے کے لئے وقت دلوانے کی کوششوں کا حصہ تھی۔ ٹی ٹی پی کے جن سزا یافتہ اور مقدمات میں گرفتار افراد کو کابل مذاکرات کے عوض صدارتی فرمان پر رہا کیا گیا تھا ان کے لئے افغان عبوری حکومت ضامن تھی کہ وہ مسلح کارروائیوں میں شریک نہیں ہوں گے۔ تبھی ان سطور میں عرض کیا تھاکہ اگر ضامنوں کی اس بات پر غور کیا جائے تو انہوں نے مسلح کارروائیوں والے معاملے یعنی سرحد پار دراندازی کو مکمل طور پر روکنے سے کھلی معذرت کرلی ہے۔
ہمارے ہاں پہلے فتح کابل پر ٹھمکے لگائے گئے پھرا فغان طالبان کی ثالثی میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات پر رقص کیا گیا اس عرصہ میں جب کابل میں مذاکرات ہورے تھے ٹی ٹی پی اور اتحادی تنظیمیں پاکستان میں کارروائیاں کرتی رہیں۔
ماضی کے حوالے سے اس طویل تمہید کو دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ اس حوالے سے ہماری ریاست آج بند گلی میں کھڑی ہے۔ افغانوں کی ضرورت سے زیادہ ناز برداریوں کے تباہ کن اثرات ہم سب کے سامنے ہیں۔
ہمارے پالیسی ساز تو دو باتوں پر معذرت نہیں کراسکے اولاً اٹک تک ہمارا علاقہ ہے ثانیاً ٹی ٹی پی کی جدوجہد افغان طالبان کے امریکہ کے خلاف جہاد کی طرح ہے۔
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اگر ضلع کرم کے ایک سکول میں شناخت کرکے قتل کئے جانے والے اساتذہ کے معاملے میں قانون کی حاکمیت اور انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے ہوتے معاملات کو بگڑنے سے روکا جاسکتا تھا۔
فقط یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہ اگر اراضی کے تنازعات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے تفکیری مہم چلانے اور ٹی ٹی پی کو مدد کے لئے بلانے والے عید نظر کے خلاف قانون کےمطابق کارروائی ہوجاتی تو حالیہ واقعات نہ ہوپاتے۔
یہاں باردیگر ابتدائی سطور میں عرض کئے گئے سوال کو مختصراً لکھے دیتے ہیں۔ پچھلے ایک سال کے دوران سابقہ کرم ایجنسی کے افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں سے ہوئی دراندازی اور بالخصوص سرحد پر لگی باڑ کاٹنے کے واقعات اور ان کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟
نیز یہ کہ حالیہ واقعات میں افغان حدود سے ہوئی راکٹ بازی پر ردعمل میں دس دن کی تاخیر کیوں؟
یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ افغان حکومت کو کینڈے میں رکھنے کے لئے اقدامات کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کے بنیادی تقاضوں کو پوا کرنے کی ضرورت ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ سابق کرم ایجنسی میں اراضی سمیت دیگر تنازعات طے کرانے کے لئے ایک قومی کمیشن کا قیام ضروری ہے یہ قومی کمیشن ٹائوٹوں پر نہیں سنجیدہ مقامی حضرات پر مشتمل ہونا چاہیے تاکہ دیرینہ مسائل کا ایسا سنجیدہ حل تلاش کیا جاسکے جس سے مستقبل میں"مارا ماری" پروگرام شروع نہ ہونے پائیں۔