Mardan Ke Waqia Mein Sabaq To Hai
مردان کے واقعہ میں"سبق" تو ہے
خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں ہفتہ کی شام جو المناک واقعہ رونما ہوا تحریک انصاف کے آفیشل سوشل میڈیا اکائونٹس سے اسے اپنی جماعت اور قائد کے خلاف سازش قرار دیا گیا۔ بعض انصافیوں نے انکشاف کیا کہ مخالفین ہماری صفوں میں اپنے بندے بھیج کر ان کے ذریعے پروپیگنڈہ کرواکر ہمیں بدنام کررہے ہیں۔
ہمارے خیال میں عمران خان اور ان کے محبین کو ٹھنڈے دل سے سوچنا ہوگا کہ ہفتہ کی شام کا واقعہ کیوں رونما ہوا۔ اس واقعہ کے حوالے سے ایک بات طے شدہ ہے کہ مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والے مولوی نگار عالم نے اپنی تقریر کے دوران الفاظ کے چنائو میں احتیاط نہیں کی لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ سیاق و سباق کو سمجھے بغیر دیا گیا ردعمل درست نہیں تھا۔
جلسہ پی ٹی آئی کا تھا مقررین و حاضرین دونوں تحریک انصاف کے تھے۔ مولوی نگار عالم نے جو بات کہی اس کی وضاحت انہی سے لی جانی چاہیے تھی لیکن مجمع خود ہی مدعی، وکیل، جج اور جلاد بننے پر تل گیا اور نتیجتاً جو ہوا اس پر اب ملال ہی کیا جاسکتا ہے۔ مولوی نگار عالم کی تقریر والی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرکے پشتو کی تقریر کا اردو ترجمہ کرنے والوں نے متناعہ جملہ کو عمران خان سے نسبت دی اور پھر چل سو چل ہوگیا۔
اس کی وجہ سے سیاسی مخالفت میں اندھی مخلوق کے ہاتھ "استرا" لگ گیا۔ ہفتہ کی شام ہی میں نے سوشل میڈیا کے اپنے فیس بک اکائونٹ پر نگار عالم کی تقریر اس کے پس منظر اور متنازعہ کلمات کے حوالے سے معروضات پیش کرتے ہوئے کہا تھا جو بات نہیں ہوئی وہ نہ لکھی جائے عمران خان سے اختلاف اور اس پر تنقید کے لئے اس کے اپنے یوٹرنز اور ارشادات پرچون میں دستیاب ہیں۔
ہمیں لوگوں اور بالخصوص مقررین ان میں عمران خان بھی شامل ہیں، کو اس امر کی جانب متوجہ کرنا چاہیے کہ تقاریر کے وقت ہوش و ہواس کو قائم رکھیں اور الفاظ کے چنائو میں احتیاط سے کام لیں۔ عمران خان تو خصوصی احتیاط کیا کریں بالفرض اپنی فضیلت بیان کرتے وقت۔ کیونکہ وہ اپنی فضیلتیں بیان کرتے ہوئے اکثر ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں جن کا ان سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
اس عدم تعلق والی باتوں کو باردیگر یہاں لکھنے (نقل کرنے) سے اجتناب اس لئے ہے کہ ہمارے ہاں جو ماحول بن چکا ہے اس میں ہر شخص خود ہی مفتی، وکیل، جج اور تارا مسیح (جلاد) بنا پھرتا ہے۔
اس کے باوجود یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ عمران خان کو نہ صرف خود احتیاط کرنی چاہیے بلکہ اپنے پرجوش حامیوں سے بھی کہیں کہ وہ ان کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے وقت ایسی کوئی بات نہ کہا کریں جو کسی گرفت کا سبب بنے یا کج بحثوں کے ہاتھ میں"استرأ" آجائے۔
مردان والے واقعہ پر (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کے بعض حامیوں کا سوشل میڈیا پر ردعمل نفرتوں کی اس سیاست کا بدلہ تھا جس کا بیج عمران خان نے جنرل شجاع پاشا اور پھر اس کے جانشینوں کی سرپرستی میں بویا۔
ماضی میں جب ایسے کام (ن) لیگ یا اس سے پہلے آئی جے آئی اور اس سے قبل جماعت اسلامی وغیرہ والے کرتے تھے تو ہم سے طالب علم تب بھی یہی عرض کیا کرتے تھے کہ سیاست میں مذہبی ٹچ دینا اور سیاسی لیڈر میں مقدس شخصیات والے اوصاف بتانا سمجھانا درست نہیں۔
مردان کے حالیہ واقعہ میں مشتعل ہجوم کے تشدد سے جاں بحق ہونے والے مولوی نگار عالم کی عمومی شہرت تعویذ دھاگے اور دم درود کرنے والے پیر اور مولوی کی تھی وہ کچھ عرصہ قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اسی جماعت کے جلسوں اور ریلیوں میں خطابت کے جوہر دیکھاتے وقت وہ سامعین کو اپنا مرید سمجھ بیٹھتے یہی ان کی بھول تھی۔
دوتین برس قبل مردان کی یونیورسٹی میں مذہبی جنون کو ہوا دے کر یونیورسٹی انتظامیہ کی کرپشن اور دوسرے کالے کرتوتوں کو بے نقاب کرنے والے طالب علم مشال خان کے قتل کے بعد جن لوگوں نے قاتلوں کو مجاہد اسلام بناکر پیش کیا ان میں مولوی نگار عالم بھی پیش پیش رہے، بلکہ ان سفاک قاتلوں کے دفاع میں تو ایسے ایسے نیک نام پارسا بھی صف اول میں د یکھائی دیئے جن کے متعلق عمومی تاثر یہ تھا کہ یہ لوگ سماجی امن و وحدت کو حرف آخر سمجھتے ہیں۔
ہفتہ 6مئی کی شام ضلع مردان میں جو کچھ ہوا وہ اس لئے درست نہیں کہ اصولی طور پر قانونی کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ سنجیدہ مقامی مولوی صاحبان کی کمیٹی مولوی نگار عالم سے ان کے الفاظ کی وضاحت طلب کرتی۔ وضاحت غیرتسلی بخش ہوتی تو پھر معاملہ قانون کے مطابق آگے بڑھایا جانا چاہیے تھا۔
ہمارے سامنے ماضی کی ایک مثال موجود ہے۔ مرحوم جنید جمشید نے ایک ویڈیو میں نامناسب الفاظ استعمال کئے تھے تب مولوی طارق جمیل کی قیادت میں مولوی صاحبان کا پورا لشکر اس کے دفاع میں میدان عمل میں اتر آیا تھا اور ان کی جانب سے کہا گیا کہ جنید جمشید کو اپنی بات کی وضاحت اور معذرت کا حق ملنا چاہیے۔
ایک مکتب فکرکے مولانا صاحبان نے جنید جمشید کو وضاحت اور معذرت کا حق دلوایا اور معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ اس کے بعد جو لوگ توہین مذہب و مقدسات اور توہین مقدس شخصیات کے الزامات کی زد میں آئے انہیں وضاحت اور معذرت کا شرعی حق کیوں نا دیا گیا؟
بہت احترام کے ساتھ عرض کروں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بعد کے سارے لوگ معاشرے کے عام لوگ تھے جیسا کہ مشال خان ایک سفید پوش گھرانے کا طالب علم تھا، کرپشن اور "کالے کرتوت" چھپانے کے لئے اسے توہین مذہب کے نام پر بے دردی سے قتل کردیا گیا اور قاتلوں کے حامی آج بھی اس سفاکیت کا جواز پیش کرتے نہیں تھکتے۔
مولوی نگار عالم کے معاملے میں پولیس کا غیرذمہ دارانہ طرز عمل اور خصوصاً خاموش تماشائی کا کردار افسوسناک ہے۔ مردان کے ڈی پی او کہتے ہیں کہ موقع پر اٹھارہ انیس سو لوگ تھے۔ وہ غلط کہہ رہے ہیں موقع پر تین چار سو لوگ تھے۔
یہ بجا ہے کہ پانچ سات پولیس اہلکار معاملہ نہیں سنبھال پائے لیکن اگر وہ تھوڑی سی فراست اور ہمت سے کام لیتے تو حالات پر قابو پایا جاسکتا تھا۔ ہمارا اصل مسئلہ قانون کی حاکمیت کا نہ ہونا ہے۔ سارے فساد کی جڑ یہی ہے۔
مردان کے حالیہ واقعہ میں ایک سبق ہے وہ یہ کہ مقررین کو جوش خطابت میں بھی زبان پر نہ صرف قابو رکھنا چاہیے بلکہ اس امر کو بھی یقینی بنانا چاہیے کہ وہ موضوع سے ہٹ کر کوئی بات نہ کریں خصوصاً مذہبی ٹچ تو بالکل نہ دیں۔
یہ واقعہ چونکہ تحریک انصاف کے منعقد کردہ اجتماع میں ہوا ہے اس لئے تحریک انصاف کی قیادت حامیوں اور خصوصاً عمران خان کے لئے اس میں پیغام بھی ہے کیا وہ اس پیغام کو شعوری طور پر سمجھنے کے لئے وسعت قلبی کا مظاہرہ کرپائیں گے۔
مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں لاہور میں دو غیرمناسب واقعات ہوئے دونوں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ اس میں سے ایک ویڈیو میں ہوئی گفتگو اور دوسری ویڈیو میں موجود رقص کا "انداز" دونوں انتہائی غیرمناسب ہیں رقص میں اپنائے گئے لچر پن پر تو چند افراد نے موقع پر ہی خاتون کو آڑے ہاتھوں لیا وہ اول جھلول بکتے ہوئے موقع سے چلی گئی لیکن دوسری ویڈیو جو انتہائی غیرمناسب تھی اور گفتگو میں جو مماثلت پیش کی گئی اس پر عمران خان اور ان کے دو تین کارخاص مسکراتے رہے۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس سوال نما گفتگو کی نہ صرف مذمت کی جاتی بلکہ کھلے دل سے معذرت بھی افسوس کہ اس کی بجائے اندھے مقلدین تاویلات پیش کرنے میں جُتے ہوئے ہیں۔
مکرر یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہمارے ہاں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مذہبی انتہا پسندی کو بڑھاوا دیا گیا ہے۔ ہفتہ بھر پہلے صدیوں قبل وفات پاجانے والے ایک محترم بزرگ سے منسوب کسی واقعہ پر منطقی انداز میں سوال کرنے والے نوجوان کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
حالیہ عرصہ میں ہی گستاخی پیر کے جرم میں دو مقدمات درج ہوئے۔ یہ صورتحال تسلی بخش ہرگز نہیں۔ اہل دانش ادیب اور سماج سدھار انتہا پسندوں کے ڈر سے "دڑوٹے" ہوئے ہیں یہ مزید افسوسناک بات ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس سماج کو جس اصلاح اور رہنمائی کی ضرورت ہے اس کا فقدان ہے۔ صاحبان منبر کو سماجی وحدت سے زیادہ اپنی پھلجڑیاں عزیز ہیں۔
ستم بالائے ستم عمرانی سیاست ہے، مذہبی تڑکوں اور تقدسات کے ٹچوں سے بھری ہوئی۔ جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست کو سیاست ہی رہنے دیا جائے مذہبی اصطلاحات اور ٹچوں سے رنگ بھرنے کا کاروبار بند کیا جائے۔
اس کے لئے سبھی کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی البتہ زیادہ ذمہ داری عمران خان پر ہے کیونکہ مدینہ کی ریاست بنانے سے خاص خدائی تربیت تک اور اس سے آگے کی جتنی باتیں انہوں نے کیں کوئی دوسرا کرتا تو مولوی نگار عالم بنادیا گیا ہوتا۔
عرض یہ ہے کہ یہ دونوں طرح کے رویے قابل اصلاح ہیں۔