Loot Sale Aur Naguzeer Tasadum
"لوٹ سیل" اور ناگزیر ہوتا تصادم
نصف صدی صحافت کے کوچے میں رپورٹر سے ایڈیٹر ایڈیٹوریل اور بحیثیت ایڈیٹر بیتائے کے ماہ و سال میں پیشگی و حفاظتی ضمانتوں کی "لوٹ سیل" کا نظارہ پہلی بار کیا ہم نے۔ مظہر عباس نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں پیپلزپارٹی کراچی کے مسرور احسن کا حوالہ دیا کہ قبل ازیں اسے اس طرح کی سہولت سندھ ہائیکورٹ نے دی تھی۔
معذرت کےساتھ عرض ہے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے میں لکھا تھا کہ کسی نئے مقدمے میں جو درج کیا جائے اس میں گرفتاری سے قبل متعلقہ ایس ایچ او اور ایس پی ایف آئی آر سمیت عدالت میں آکر گرفتاری کے لئے اطمینان دلائیں۔ یہاں تو لکھا ہے کہ کوئی مقدمہ مستقبل میں (گو یہ مستقبل 4 دن کا ہے) بھی درج ہو تو اس میں بھی گرفتار نہ کیا جائے۔
اس لوٹ سیل سے عبدالقیوم صدیقی (صحافی) اور خواجہ طارق رحیم قانون دان و سابق گورنر پنجاب کے درمیان ہوئی ٹیلیفونک گفتگو (ایک آڈیو لیک کے مطابق) حرف بحرف اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ یہ انصاف سے زیادہ سہولت کاری تھی۔
یہ درست ہے کہ جج صاحبان اسی سماج میں سے اٹھ کر منصفی والی کرسی پر تشریف فرما ہوتے ہیں لیکن ہم نے ماضی میں دیکھا کہ کسی مقدمے کے مدعی و ملزم کیا دونوں طرف وکیل صاحبان سے بھی دور کا واسطہ ہوتا تھا تو جج کیس سننے سے معذرت کرلیتے تھے، اب ہم دیکھتے ہیں اعتراضات، عدم اعتماد اور کرپشن کے الزامات کا دفاع یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ میں نے فلاں کو اس لئے بنچ میں شامل کیا کہ کسی کو خاموش پیغام دینا چاہتا تھا"۔
اس ارشاد کی داد بنتی ہے بلکہ سبحان اللہ کہتے اور آگے بڑھتے جائیں۔
جمعرات کو عمران خان کے کیس میں سپریم کورٹ کے کورٹ نمبر ایک میں بہت ساری باتیں ہوئیں کورٹ روم میں ہوا جذباتی مکالمہ رپورٹ ہوچکا، رپورٹ ہوئے حصے پر چونکہ توہین عدالت نہیں بنتی اس لئے دو باتیں یاد دلانا ضروری ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ چیف جسٹس نے 50ارب روپے کی کرپشن کے الزام (درست یا غلط کی بحث نہیں ہورہی) میں گرفتار عدالت میں بلائے گئے ملزم کو دیکھ کر جس مسرت کا اظہار کیا اسے کیا نام دیا جائے؟
کیا یہ سہولت پہلے کبھی کسی ملزم کو ملی یا آئندہ ملے گی؟ دوسری بات یہ ہے کہ چیف جسٹس نے عمران خان سے کہا خان صاحب آپ کے خلاف "انہوں" نے بہت سارے کیس بنوائے ہیں آپ سمجھ رہے ہیں نا کہ میں"کن" کا کہہ رہا ہوں؟ چیف جسٹس نے جنہیں"انہیں" کہا وہ کون ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ؟
تو کیا اب محاذآرائی اسٹیبلمشنٹ اور عدلیہ میں ہے یا ہم یہ سمجھیں کہ پاکستانی سرزمین پر چین اور امریکہ کے مفادات کی جو جنگ شروع ہوئی ہے اس میں عدلیہ امریکی کیمپ میں کھڑی ہے؟ اس طرح سمجھنے کا تاثر مزید پختہ عمران خان کے اس جواب سے ہوا انہوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے کمرہ عدالت میں غیرملکی صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ "ملک کے موجودہ حالات و واقعات کا ذمہ دار آرمی چیف ہے"۔
دوسرے سانس میں انہوں نے دھمکی دی کہ دوبارہ گرفتار کیا گیا تو ایسا ہی ردعمل آئے گا۔ اب کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کو پتہ تھا کہ کسی مرحلہ پر اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو ردعمل کیا ہوگا؟
سادہ سی بات ہے وہ اس ردعمل کو مینج کرچکے تھے۔ اب ہمیں عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہوئے جلائو گھیرائو، تشدد اور لوٹ مار کے واقعات کا ازسرنو جائزہ لینے کے ساتھ کالعدم تحریک طالبان کے دو اعلامیوں کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔ ان میں سے ایک اعلامیہ بطور خبر چند انگریزی اخبارات نے شائع کیا ہے اردو اخبارات نے مگر بوجہ چپ سادھ لی۔
کالعدم تحریک طالبان کے اعلامیہ کے مطابق "تین دن ہونے والی عوامی مزاحمت میں شہری علاقوں میں مقیم و موجود ہمارے ساتھیوں نے بھرپور شرکت کرکے ریاست کو جو جواب دیا وہ تاریخی نوعیت کا ہے"۔
معاملہ صرف پشاور یا پختونخوا اور کوئٹہ کے افسوسناک واقعات کا نہیں کیونکہ راولپنڈی، لاہور اور کراچی میں ہوئے پرتشدد واقعات میں افغان شہریوں اور کالعدم تنظیموں کے لوگوں کی شرکت کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ تو کیا عمران خان اس برتے پر یہ دھمکی دے گئے کہ دوبارہ گرفتار کرو گے تو یہی ردعمل ہوگا؟
اس دھمکی اور ردعمل کی سنگینی کو بطور ڈراواہ پیش کئے جانے کو اگر پچھلے چند ماہ کے دوران ان کی لاہور والی قیام گاہ پر رونما ہونے والے بعض واقعات کے تناظر میں دیکھا سمجھا جائے تو یہ امر دوچند ہوجاتا ہے کہ اس سے قبل بھی ان کے اجتماعات اور زمان پارک کے بعض واقعات میں کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کی موجودگی کے حوالے سے جو شواہد سامنے آئے وہ نہ صرف درست تھے بلکہ اب یہ کہنا مزید سہل ہوگیا (ان سطور میں قبل ازیں بھی عرض کرچکا) کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ عمران خان کا اعتماد سازی والا پروگرام جوکہ جنرل فیض حمید کی نگرانی میں شروع ہوا تھا کا بنیادی مقصد ٹی ٹی پی اور اس کے ہمدردوں کی قوت کو اپنی سیاسی طاقت کے طور پر پیش کرنا تھا۔
بعض حالیہ واقعات سے نہ صرف اس کی تصدیق ہوگئی بلکہ یہ بھی واضح ہوگیا کہ عمران خان کی ترجیحات کیا ہیں۔ اسی طرح ایک رائے یہ بھی ہے کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ میں موجود امریکہ نواز دھڑے کے جال میں پھنس گئی ہے۔ یہ دھڑا سی پیک اور اس کے نئے منصوبوں کے حوالے سے امریکی ترجیحات کا محافظ ہے۔ امریکہ چینی سرمایہ کاری کو روکنے کے لئے ایک طرف آئی ایم ایف کو پاکستان کے ساتھ مالیاتی معاہدہ سے روکے ہوئے ہے دوسری طرف وہ پاکستانی نظام کے مختلف شعبوں میں موجود اپنے وفاداروں کے ذریعے داخلی انتشار کو بڑھاوا دے رہا ہے۔
اس رائے کے حاملین یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ عمران خان کی گرفتاری اور پرتشدد ردعمل دونوں ایک منصوبے کا حصہ تھے۔ وفاقی حکومت کے بعض ذمہ داران منصوبہ سازوں کے فریب کا شکار ہوگئے۔
گو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ ایک طرح سے اچھا ہوا اس سے اس منصوبے کے مرکزی کرداروں کے ساتھ معاونین اور خصوصاً ٹی ٹی پی کے "سلیپرز" بھی بے نقاب ہوگئے لیکن یہ سوال بہرطور ہے کہ کیا اب ان سب کو کارروائی اور انصاف کے کٹورے میں لانا آسان ہوگیا ہے یا پرتشدد واقعات کے نئے سلسلے کا آغاز بھی ہوگا؟
کالم کے آغاز میں عرض کیا تھا کہ ضمانتوں کی لوٹ سیل کا جو پروگرام 12مئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں دیکھنے میں آیا ویسا میلہ کبھی نہیں لگا۔ مثال کے طور پر القادر ٹرسٹ کیس میں ضمانت اور توشہ خانہ کیس کو روکنے کا حکم دینے والے بنچ کو لے لیجئے اس بنچ کے ایک رکن پی ٹی آئی کے عمر ایوب کے پھپھی زاد بھائی ہیں یعنی پہلے فوجی آمر ایوب خان کے نواسے فقط یہی نہیں بلکہ یہ پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صدر سابق وزیراعلیٰ اور وزیر دفاع پرویز خٹک کے داماد (پرویز خٹک ان کے چچا سسر ہیں) بھی ہیں۔
بنچ کی دوسری رکن ماضی میں انصاف لائرز ونگ کی عہدیدار رہی ہیں۔ یہ بنچ کیوں بنا اس پر سوال ہے۔ محض یہ کہہ کر آگے نہیں بڑھا جاسکتا کہ ججوں کی رشتہ داریاں ہوتی ہیں کیا پرویز خٹک کے داماد جج کو سسر کی پارٹی کے سربراہ کا کیس اخلاقی طور پر سننا چاہیے تھا؟
بہت احترام کے ساتھ یہ عرض کروں کہ یہ بنچ کسی کی فرمائش نما حکم پر بنا ہے تو غلط بات نہیں۔ ڈویژن بنچ اگر کسی دوسرے دو جج صاحبان پر بنتا تو شاید اتنی باتیں ہوتیں نا گڑھے مردے اکھیڑے جاتے۔
اس میں مرکزی اہمیت اس آڈیو لیک کی گفتگو کو حاصل ہے جو عبدالقیوم صدیقی اور خواجہ طارق رحیم کے درمیان ہوئی۔ دوسری آڈیو لیک جس میں عمران خان اور مسرت چیمہ کی گفتگو ہے دونوں کو ملاکر سن لیجئے پوری کہانی سمجھ میں آجائے گی۔
جج یا بنچ کے سربراہ پر عدم اعتماد تو حالیہ چند کیسوں میں حکومت اور مختلف پارٹیوں کے وکلاء نے بھی کیا تھا سپریم کورٹ میں اس پر جو جواب چیف جسٹس دیتے رہے ویسا جواب اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے کیوں نہ دیا۔ یہ بذات خود ایک سوال ہے۔
باردیگر عرض کروں کہ گو اب تک کی ساری لڑائی میں عمران خان ان کے حامی عدالتی، اسٹیبلشمنٹی کرداروں کا پلڑا بھاری ہے لیکن اس کے نتائج سبھی کو بھگتنا ہوں گے۔
پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہانکا تو بند گلی کی طرف ہورہا ہے مگر اس بند گلی میں داخلے والے مقام پر ایک خونریز تصادم ناگزیر ہوچکا اس ناگزیر ہوئے تصادم میں جو بچ رہا مستقبل اس کا ہے۔
کون بچ رہے گا فی الوقت دونوں طرف بڑھکیں ہیں۔ ہماری دعا یہی ہے کہ تصادم کی نوبت نہ آنے پائے اس سے قبل کسی طرح معاملات سنبھال لئے جائیں۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ اب سنبھال لینے کے جذبے پر حرف غلط کی طرح مٹادو کی سوچ دونوں طرف غالب ہے۔