Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Janab e Sadar, Ye Poora Sach Behar Haal Nahi Hai

Janab e Sadar, Ye Poora Sach Behar Haal Nahi Hai

جناب صدر، یہ پورا سچ بہرحال نہیں ہے

صدر مملکت عارف علوی نے گزشتہ روز اپنے ذاتی ٹیوٹر اکائونٹ پر کہا "میرا اللہ گواہ ہے کہ میں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 2023ء اور پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023ء پر دستخط نہیں کیئے میں ان دونوں بلز سے متفق نہیں تھا۔ میں نے اپنے عملے کو ہدایت کی تھی کہ دونوں بل بغیر دستخطوں کے واپس کردیں تاکہ انہیں غیرموثر بنایا جاسکے۔ ایوان صدر کے متعلقہ عملے نے میری ہدایات کی خلاف ورزی کی۔ مجھے بلز کی واپسی کا یقین دلایا گیا۔ اللہ سب جانتا ہے وہ انشاء اللہ معاف کردے گا۔ میں ان لوگوں نے معافی مانگتا ہوں جو اس قانون سے متاثر ہوں گے"۔

ہر دو ترمیمی بلز درست ہیں، غلط، معمول کی قانون سازی ہے یا قانون سازی کے نام پر ریاست کو دو دھاری تلوار تھمانے کا عمل، اس پر بات کرتے ہیں۔ پہلے یہ جان لیجئے کہ صدر مملکت نے 9 اگست کو 13 منظور شدہ ترمیمی بل اپنے اعتراضات کے ساتھ واپس بھجوائے۔ صدر مملکت کسی قانون یا ترمیمی بل سے متفق نہ ہوں تو وہ ایوان صدر کے لاء ڈویژن کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہیں لاء ڈویژن ان تحفظات پرسمری تیار کرتا ہے جو صدر مملکت کے موقف کو واضح کرتا ہے اور پھر بل وزارت قانون کو واپس بھجوادیا جاتا ہے۔

صدر مملکت کو کسی قانون اور ترمیمی بل کی منظوری و عدم منظوری کا آئینی حق ہے۔ ان کے دفتر نے جب ان کی ہدایت پر 9 اگست کو 13 ترمیمی بلز اعتراضات کے ساتھ واپس بھجوائے تو ان دو بلز کو جن پر اب انہوں نے تنازعہ کھڑا کروادیا ہے واپس کیوں نہیں بھجوایا نیز یہ کہ کیا صدر مملکت نے ایوان صدر کے لاء ڈویژن کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ان تحفظات کی روشنی میں بل کے ساتھ اعتراضات کی سمریاں لگائی گئیں؟

نگران وفاقی وزیر قانون احمد عرفان کہتے ہیں کہ "آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بلز کے حوالے سے صدر مملکت نے دونوں میں سے کسی اختیار کو استعمال نہیں کیا۔ آئین کہتا ہے کہ اگر دونوں طریقوں میں سے کوئی ایک طریقہ نہ اپنایا جائے اور بل بھی واپس نہ آئے تو یہ 10 دن بعد خود بخود قانون بن جاتا ہے"۔

آئین کا آرٹیکل 75 کہتا ہے کہ کوئی بل پارلیمان سے منظور ہونے کے بعد جب صدر مملکت کو بھجوایا جائے تو انہیں 10دن کے اندر اس کی منظوری یا عدم منظوری کا فیصلہ کرکے بل واپس بھجوانا ہوتا ہے۔ دونوں میں سے کسی ایک پر عمل نہ کرنے کی صورت میں بل خودبخود قانون بن جائے گا۔

صدر مملکت کو آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2 اگست کو اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی مجریہ 2023ء، 8 اگست کو موصول ہوئے اس طرح انہیں 2 اگست کو موصول ہونے والے بل کا 11اگست 8 اگست کو موصول ہونے والے بل کا 17اگست تک منظوری یا عدم منظوری کا فیصلہ کرنا تھا۔

صدر مملکت (ایوان صدر) کی جانب سے 9 اگست کو 13 بل اعتراضات کے ساتھ واپس بھجوائے گئے ایک طرح سے آرمی ایکٹ ترمیمی بل بھی ان 13 بلوں کے ساتھ یا ایک دو دن بعد واپس بھجوادیا جانا چاہیے تھا۔ اسی طرح آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل 17 اگست سے قبل فیصلہ کرکے بھجوانا ضروری تھا۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل مجریہ 2023ء 11 اگست کو قانون بنا اور آفشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل مجریہ 2023ء 17 اگست کو نافذالعمل ہونے کے نوٹیفکیشن جاری ہوئے (جاری ہوئے یا بعد میں پچھلی تاریخ سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا؟) صدر مملکت نے 20 اگست کو ٹیوٹر پر اپنے اکائونٹ پر تردیدی بیان جاری کرتے ہوئے متاثرین سے معافی مانگی۔

دستخط ہی نہیں کئے تو معافی کیسی۔ بل مقررہ دنوں کے اندر منظوری کے دستخطوں کے ساتھ واپس گئے یا خاموشی اختیار کرلی گئی جسکی وجہ سے وہ قانون بن گئے اسی لئے تو گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہوئے۔

صدر کہتے ہیں انہوں نے دستخط نہیں کئے۔ ان کے دستخطوں کے بغیر گزٹ نوٹیفکیشن کا اجراء ممکن نہیں اب دو تین صورتیں ہی ہوسکتی ہیں اولاً یہ کہ صدر مملکت دروغ گوئی میں مصروف ہیں عالی جناب نے معمول میں دستخط فرمادیئے اور جب وقت گزرگیا تو خود کو منتخب کرانے والی جماعت اور نوانقلابیوں کی نگاہ میں ہیرو بننے کی سعی کی۔

دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ان کے جعلی دستخطوں سے منظوری کا عمل مکمل کرکے بل واپس بھیجے گئے ہوں۔

تیسری صورت یہ ہے کہ صدر خاموش رہے کوئی کاروائی نہیں کی جب مروجہ طریقہ کار کے مطابق بل قانون بن گئے تو انگلی کٹوا کر شہیدوں میں نام لکھوانے چل پڑے۔

سمجھنے والی بات یہ ہے کہ دونوں بلوں کا گزٹ نوٹیفکیشن عین ان تاریخوں یعنی 11اگست اور 17اگست کا ہے جو ان بلوں کی منظوری کے عمل کی آخری تاریخ ہیں۔ یہاں پھر ایک سوال ہے وہ یہ کہ جناب صدر سوشل میڈیا پربیان جاری کرنے کی بجائے ایوان صدر کے لاء ڈویژن سے وزارت قانون اورسینیٹ آف پاکستان و سپیکر قومی اسمبلی (قومی اسمبلی کی تحلیل کے باوجود سیکر اپنے منصب پر فائز رہتا ہے) کو مراسلے کیوں نہیں لکھے؟ صدر کو محض ٹیوٹر بیان جاری کرنے کی بجائے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔

اس کے لئے بھی ان کے پاس دو راستے تھے پہلا یہ کہ وہ وزارت قانون کو مراسلہ لکھواتے کہ گزٹ نوٹیفکیشن معطل کرکے فوری طور پر تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے۔ دوسرا یہ کہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان کو خلط لکھتے کہ میرے جعلی دستخطوں کے ساتھ بھجوائے یا میرے حکم کے باوجود بل واپس نہیں بھجوائے اس سے ایوان صدر اور صدر مملکت کے منصب کو سازش کے تحت متنازعہ بنایا گیا۔

سپریم کورٹ اس کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنائے۔ ان دو راستوں کی بجائے انہوں نے تیسرا راستہ اختیار کیا یقیناً یہ بھی ان کا حق تھا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ نے 18 اگست کی سپہر سے یہ خبریں دینا شروع کردی تھی کہ صدر مملکت نے آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے بلوں پر دستخط کردیئے ہیں۔ 19 اگست کو اس حوالے سے خبروں کو کنفرم کرایا گیا۔

ذرائع ابلاغ 28 سے 36گھنٹے تک ان دونوں بلوں کی منظوری کی خبریں نشر کرتے رہے اس دوران صدر مملکت نجانے نیپال گئے ہوئے تھے 20 اگست کو غالباً واپسی پر انہیں"صورتحال" کا احساس ہوا تو انہوں نے صدر مملکت کے منصب کے مطابق معاملہ کرنے کی بجائے ذاتی ٹیوٹر اکائونٹ پر بیان "جڑ" دیا۔

بدنیت کون ہے صدر یا حکومت؟ فیصلہ کیسے ہوگا۔ باردیگر ایک بات ذہن نشین کرلیجئے، 2 اگست کو صدر کو موصول ہوئے بل کی آخری تاریخ 11اگست تھی اور 8 اگست کو موصول ہوئے بل کی 17 تاریخ۔ وزارت قانون کے مطابق چونکہ 11اگست اور 17 اگست تک صدر کی جانب سے منظوری یا مسترد کئے جانے کی سمری کے ساتھ بل واپس نہیں آئے اس لئے قانون کے مطابق یہ بل قانون بن گئے

گزٹ نوٹیفکیشن کے اجراء کی وجہ یہی قانون ہے۔

صدر مملکت کے بیان، اس پر جاری لے دے، ہیروپنتی اور پھبتیاں ہمیں ان سے کوئی غرض نہیں اصل مسئلہ یہ ہے کہ صدر مملکت کے بیان نے قانون سازی کے عمل کو برہنہ کردیا ہے۔ اب یہ کیسے طے ہوگا کہ برہنگی کا یہ ایکٹ فرمائشی نہیں بلکہ حقیقت ہے؟ واحد طریقہ تو ایوان صدر کے لاء ڈویژن کےپاس صدر مملکت کے اس نوٹ کی موجودگی ہے جو انہوں نے ان دونوں بلوں کو منظور نہ کرنے اور واپس بھجوانے کے لئے لکھا ہوگا۔ صدر اگر یہ کہتے ہیں کہ سارا کام زبانی ہوا تو ان کی بات کون مانے گا کیونکہ بل ہر دو صورتوں (منظوری یا عدم منظوری) میں واپس بھجوانے کا باضابطہ طریقہ کار موجودہے اس طریقہ کار پر عمل کے لئے ایوان صدر میں ایک مکمل لاء ڈویژن ہے۔ غالباً اس لاء ڈویژن کی سربراہی آجکل ایک سابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کے پاس ہے۔

صدر مملکت بلوں کی منظوری کی خبروں، ان پر تجزیوں، حمایت و مخالفت کے بیانات پر 28 سے 36 گھنٹے تماشائی بنے رہے اس کے بعد انہیں یاد آیا کہ میں نے تو ان بلوں کی منظوری ہی نہیں دی۔ یاد آیا یا اپنے محبوب قائد عمران خان کی "سنت" پر عمل کرنا انہوں نے ضروری سمجھا یہ جانتے ہوئے کہ ان کی جماعت کے ساتھ نوانقلابیوں کو وہی سچ لگے گا جو یہ بولیں گے؟

معاملہ فقط یہ ہے کہ صدر مملکت نے اولاً بل واپس نہیں بھجوائے جو بقول وزارت قانون 10دن کا وقت گزرنے پر قانون بن گئے یا پھران کے جعلی دستخط ہوئے۔ تیسری صورت وہ ہے جو صدر کہہ رہے ہیں کہ میں نے بلوں پر تحفظ ظاہر کرتے ہوئے انہیں واپس بھجوانے کا کہا۔

اصولی طور پر اس تیسری صورت کے لئے صدر مملکت کا دو سطری حکم اور ایوان صدر کے لاء ڈویژن کی سمری کا موجود ہونا ضروری ہے۔

بصورت دیگر ان کے ناقدین کی اس بات میں وزن محسوس ہوگا کہ صدر مملکت کو جب یہ احساس ہوا کہ دونوں ترمیمی قانون بعض حالیہ واقعات کی بنیاد پر ان کی پارٹی تحریک انصاف کے خلاف استعمال ہوں گے تو انہوں نے "کلٹی مارنے" کا فیصلہ کیا۔

بہرطور جو بھی ہے یہ درست ہے کہ اس سارے معاملے کی تحقیقات بہت ضروری ہیں آخر کسی نے تو ایوان صدر کو نظام سقہ کا دربار بنانے کی کوشش کی ہے اس کردار کے چہرے سے نقاب ہٹایا جانا ضروری ہے۔

Check Also

Khadim Hussain Rizvi

By Muhammad Zeashan Butt