Saturday, 04 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Haider Javed Syed/
  4. Jahan e Multan Ki Baaten Aur Amri Ki Turbat

Jahan e Multan Ki Baaten Aur Amri Ki Turbat

جہانِ ملتان کی باتیں اور امڑی کی تربت

قبرستان میں امڑی سینڑ کے پہلو میں بنی نئی قبر میرے چھوٹے بھائی کی ہے۔ امڑی اور بھائی کی قبروں پر پھول ڈالتے ہوئے بے ساختہ میرے منہ سے نکلا، یار طاہر (سید طاہر محمود بخاریؒ) زیادتی کی تم نے رخصتی کی عمر میری تھی دامن جھاڑ کر تم چل دیئے اور یہاں امڑی کے پہلو میں آکر سوگئے۔

میں ابھی کچھ اور بھی ممکن ہے کہتا کہ میری سماعت پر امڑی سینڑ کی آواز نے دستک دی کہہ رہی تھیں"میرے لعل ماں کی تربت کے سرہانے کھڑے ہوکر ایسی باتیں نہیں کرتے اور اس ماں کے سامنے تو بالکل نہیں جس کا جوان بیٹا سفر حیات طے کرکے ماں کے پہلو میں سوگیا ہو"۔

مجھے چپ سی لگ گئی۔ حالانکہ میں امڑی سینڑ کے حضور عرض کرنا چاہتا تھا کہ جس جگہ طاہر آکر سوگیا ہے میری خواہش تھی کہ اس جگہ میں آکر آرام کروں اس وقت تک جب سارے مرنے والے پھر اٹھائے جائیں گے۔

فقیر راحموں نے لقمہ دیا شاہ کم از کم ماں کی قبر کے سرہانے کھڑا ہوکر تو غلط بیانی نہ کرو جو مانتے نہیں اس کا حوالہ ذکر یا اس بارے سوچنا بری بات ہے تم ایسے برے تو کبھی نہیں تھے۔

اس فقیر راحموں جیسا دم ساز ہمدم و ہمراز و ہمزاد بھی کسی کو نہ ملے۔ پتہ نہیں کس جنم کے بدلے چکاتا رہتا ہے۔ یار ماننا نہ ماننا اور ریت روایت پر بحث کسی اور وقت پر کرلیتے یہ امڑی کی قبر کے سرہانے ٹوکنے کی ضرورت کیا تھی۔

ایکا ایکی مرشد کریم سیدی بلھے شاہؒ یاد آئے۔ میں نے فقیر راحموں کو دھمکی بھرے انداز میں کہا مرشد کی خانقاہ پر تمہاری شکایت لگائوں گا۔ کہنے لگا خوشی سے لگانا میں بھی تو وہیں ہوں گا اور ان کی خدمت میں عرض کروں گا مرشد کریمؒ اسے سمجھائیں اپنے لاڈلے کو انکار و اقرار کے درمیانی سراب میں بھاگتا نہ پھرے۔

کیا مطلب میں نے پوچھا؟

اس نے اتوار کی سپہر علی پور کے تقویٰ ہوٹل میں سجی محفل دوستاں میں کی میری گفتگو یاد دلاتے ہوئے کہا یاد کرو اس وقت تمہیں پروفیسر تنویر خان نے کہا نہیں تھا "شاہ جی جو خود مانتے ہو اس سے لوگوں کو دور کیوں کرتے ہو؟"

لیکن میں نے یہ بھی تو کہا تھا کہ ترغیب اور خوف کی بنیاد کھوکھلی ہوتی ہے۔ پیروی اطمینان قلب کے ساتھ اور اقرار یقین سے ہو تو اچھا ہے۔ ترغیب پر پیروی اور خوف پر اطاعت دونوں کاروبار ہیں۔ اسی لئے چار اور کاروبار ہی ہورہے ہیں۔ ہر فرنچائزی اس امر کا دعویدار ہے کہ اس کا مال سُچل اور دیرپا ہے۔

فقیر راحموں نے پھر سے ٹوکا اور کہنے لگا تمہیں کئی بار سمجھایا ہے کہ ملامتیوں کے انداز میں باتیں کرکے اپنے لئے مشکلات پیدا کرو گے لوگ جو نہیں سمجھتے وہ کہنے کے لئے نہیں ہوتا۔ کسی کے ظرف کا پیالہ چھلک گیا تو مشکل پیدا ہوجائے گی۔ لیکن کیا لوگوں کے ڈر سے وہ بات نہ کی جائے جس کی صداقت دل و دماغ میں جگہ بنالے؟

اس (فقیر راحموں) نے ایک قہقہہ بلند کیا اور کہنے لگا۔ یار شاہ یہ ساری باتیں کرنا بہت آسان ہے۔ مجھے کہنا پڑا کہ تم تو جانتے ہی ہو میں تخلیق کئے جانے کی شکر گزاری کا تو قائل ہوں البتہ تجارت کے سودوں کا نہیں۔ بات ممکن ہے بڑھنے لگتی کہ مجھے لگا امڑی کہہ رہی ہیں یہ تم دونوں مجھے ملنے آئے ہو کہ قبر کے سرہانے آپس میں لڑنے؟

ان لمحوں میں میں نے غصے سے فقیر راحموں کی طرف دیکھا مگر وہ فاتحہ کے لئے ہاتھ بلند کئے آنکھیں میچ تلاوت کررہا تھا۔ بے ساختہ میں نے ہاتھ بلند کئے اور تلاوت کرنے لگا۔ میری امڑی کو یوں تو پورا قرآن ہی محبوب رہا۔ نصف صدی سے چند برس اوپر انہوں نے ملتانیوں کے گھروں میں منعقدہ وعظوں میں قرآن و سیرت طاہرہؑ کا بیان ہی کیا تھا لیکن دو سورتیں انہیں بہت پسند تھیں سورة کوثر اور سورة والعصر۔

میں امڑی کی تربت پر حاضری کے لئے جب بھی جائوں ان دونوں سورتوں کو تلاوت و فاتحہ خوانی کا حصہ ضرور بناتا ہوں۔

کچھ دیر قبل بھری دوپہر میں ایک ہڑک سی اٹھی میں معمول کے دفتری کام کو ادھورا چھوڑ کر ہوٹل سے نکلا اور امڑی کی تربت پر پہنچ گیا۔ حالیہ بارشوں سے قبرستان کے دوسرے حصوں کی طرح اس حصہ کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ قبریں کچھ دھنس سی گئی ہیں پتہ چلا قبروں پر مکان بناکر زبردستی پڑوسی بننے والوں نے اپنے پرنالوں کی تنصیب کے وقت یہ نہیں سوچا کہ پرنالوں سے پانی اگر قبرستان میں گرا تو قبریں متاثر ہوں گی۔

فقیر راحموں کہنے لگا وہ وقت یاد کرو جب کیڑی جمنداں سے وہاڑی بہاولپور روڈ تک قبرستان ہوتا تھا بات اس کی ٹھیک ہے۔ آپ اگر خونی برج کے راستے سے نصف صدی قبل کڑی جمنداں گئے ہوں تو آپ کے دائیں ہاتھ پر مکانوں کی صرف دو قطاریں ہوتی تھیں دوسری قطار کے عقب سے پیر عمر کا قبرستان شروع ہوتا جو ایک لمبے فاصلے کے بعد دوسری طرف وہاڑی بہاولپور روڈ سے جاملتا تھا۔

پھر اس شہر ملتان کی آبادی بڑھنے لگی۔ اب پیر عمر کے تاریخی (ایک اندازے کے مطابق یہ 8 سو سال پرانا قبرستان ہے) قبرستان کی قبروں پر دونوں طرف کیڑی جمنداں اور وہاڑی بہاولپور روڈ کے اطراف سے نصف درجن محلے قبروں پر بنے ہوئے ہیں۔

ضلعی انتظامیہ، لوکل کونسلز اور دوسرے بڑوں یعنی ارکان اسمبلی کی ناک کے نیچے ہونے والی قبروں پر اس آبادکاری کے ذمہ در اصل میں ملتان کارپوریشن کے چند سابق منتخب بڑوں کے ساتھ ساتھ کچھ مرحوم و زندہ ارکان اسمبلی بھی ہیں جنہوں نے صرف ووٹوں کے لالچ میں ملتان کے اکثر قدیم قبرستانوں کی قبروں پر محلے آباد ہونے دیئے۔

وائے غربتا جن کے پیاروں کی قبروں پر اب محلے آباد ہیں ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی۔ میں اپنی امڑی کی تربت پر کوکا کولا فیکٹری کے سامنے والی گلی سے جاتا ہوں چند برس پہلے سڑک سے پیدل چلا جاتا تھا اب علالت کی وجہ سے رکشہ لیتا ہوں وہ مجھے قبرستان کی حدود تک لے جاتا ہے۔

پچھلے پندرہ بیس برسوں کے درمیان وہاڑی بہاولپور روڈ پر کوکا کولا فیکٹری کے سامنے سے قبرستان جانے والی مرکزی گلی کی نکڑ کے بعد 20 سے زیادہ نئے مکان بن گئے ہیں۔ ان مکانوں کی بنیادیں قبروں پر اٹھی ہوئی ہیں۔

میں جب بھی قبروں پر بنے مکانوں کو دیکھتا ہوں آنکھیں بھر آتی ہیں ان لمحوں میں فقیر راحموں مجھے دلاسہ دیتے ہوئے کہتا ہے "شاہ تم فکر نہ کرو ایک دن ان مکانوں میں بسنے والوں کی قبروں پر بھی گھر اور دوسری عمارتیں بن جائیں گی"۔

میں ہمیشہ نم آنکھوں سے اسے دیکھتا اور جھڑکتا ہوں۔ وجہ یہی ہے کہ میں کسی کو بددعا دینے کا قائل نہیں۔ لوگ اپنے ظرف سے معاملات کرتے ہیں البتہ یہ حقیقت ہے کہ میرے نزدیک پچھلے پچاس برس میں ملتان سے ارکان اسمبلی اور ارکان کارپوریشن بننے والے مجرم ہیں اس افسوسناک صورتحال کے صرف قبرستان ہیں کیا ملتان کی کون سی جگہ ہے جو مقبوضہ نہیں سمجھی گئی۔ قلعہ کہنہ قاسم باغ، بادشاہی عیدگاہ مسجد، ہائیکورٹ کے ساتھ والا چوک جہاں کسی بیرونی حملہ آور کا تلوار بدست مجسمہ نصب ہے۔

پرہلاد کا دانش کدہ زمین بوس ہے اور مقبوضہ جات پر مزارت و عمارتیں بنانے اور مجسمے نصب کرانے کی کامل آزادی ہے۔ ملتان کی کل کہانی یہی ہے۔

فقیر راحموں اور میں اس ملتان کو ایک پورا جہان سمجھتے ہیں صرف ہم دونوں نہیں کسی ملتانی سے پوچھ کر دیکھ لیجئے اس پورے جہان کی تاریخ و ثقافت کی نشانیوں کو ملیامیٹ کئے جانے پر وہ دکھی ہے ہائے ہم ملتانیوں کے دکھ جن کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔

معاف کیجئے گا میں امڑی سینڑ اور بھائی کی تربتوں پر حاضری و فاتحہ خوانی کے لئے گیا تھا پھر قبروں پر بنے مکانوں اور محلوں سے بات شروع ہوئی اور پھیلتی چلی گئی۔ یادوں اور خیالات کے سیلاب کے آگے بند نہیں باندھے جاسکتے تھے۔

امڑی سے ڈھیر ساری باتیں کرنے کی خواہش ادھوری رہ گئی۔ فقط یہی عرض کرپایا امڑی میری پیاری امڑی سینڑ پاک بتولؑ اور ان کے بلند مرتبہ بابا جانؐ سے میری سفارش کرنا میری عرضیاں ان کے حضور پیش کرکے مرادوں کی برآوری کے لئے عرض کرنا۔

امڑی بولیں میرے لعل میں تو ہمیشہ تجھے پاک سینڑ بتولؑ اور کملی والے آقاؐ کے سپرد کرتی ہوں پریشان نہ ہوا کرو کبھی پریشانی کا لمحہ آئے تو اپنی ماں کو یاد کررلیا کرو۔

ایک بار پھر تلاوت و فاتحہ کے لئے ہاتھ بلند کئے اور عرض کیا امڑی صحت اور زندگی رہی تو پھر حاضری ہوگی۔

قبرستان سے واپسی پر چوک ڈیرہ اڈا پر "چوک ملک صلاح الدین ڈوگر" کا بورڈ دیکھائی دیا تب میں نے فقیر راحموں سے پوچھا یہ ملک صاحب کی ملتان کے لئے کیا خدمات تھیں؟

Check Also

Agle Janam Mohe Bitiya Na Keejo

By Amer Abbas