Islamia University, Chand Mazeed Guzarishat
اسلامیہ یونیورسٹی، چند مزید گزارشات
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پر لکھے گئے گزشتہ روز کے کالم کے بعد وسیب کے مختلف حصوں سے دوستوں، قارئین اور سوشل میڈیا شناسائوں کے پیغامات میں ایک سے بڑھ کر ایک انکشاف ہے۔ ایک عزیز نے لکھا "صرف اسلامیہ یونیورسٹی کو رونا چھوڑ دیجئے، غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان ہو یا ملتان کی بی زیڈ یو ہر جگہ یہی حال ہے"۔
ایک عزیزہ نے کہا "بات آپ کی درست ہے۔ طالبہ کا مستقبل استاد کی عزت اور جامعہ کا وقار ان ڈھکوسلوں سے مٹی پائو پروگرام کے ذریعے ایسے واقعات کو دبادیا جاتا ہے"۔
ایک نام نہاد سیاسی رہنما (ان کا ملتان سے تعلق ہے اور سرائیکی دشمنی میں ہر جگہ الٹیاں کرتے پڑتے رہتے ہیں) نے اس معاملے میں سوشل میڈیا کی مختلف پوسٹوں پر جو کمنٹس کئے وہ یہاں لکھنے سے اولاً حد ادب مانع ہے (حد اب صحافتی اقدار کا نام ہے) ثانیاً یہ کہ اگر لکھ دیئے جائیں تو یہ طعنہ ملے گا کہ سرائیکی غیر سرائیکی فساد کرانے کی سازش کی ہے۔
پچھلے دو دن سے کچھ دوست احباب اور بہاولپور کے صحافی، آباد کاروں کے رہنما اور معروف قبضہ گروپ کے سربراہ طارق بشیر چیمہ اور اس کے صاحبزادے کے کردار پر بھی سوالات اٹھارہے ہیں ان کا موقف ہے کہ یہ باپ بیٹا اسلامیہ یونیورسٹی کو تباہ کرنے میں کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔
یونیورسٹی کے ہی ایک سے زائد طلباء نے یونیورسٹی انتظامیہ، سکیورٹی اہلکاران اور چند دیگر کے طریقہ واردات سے تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا۔ بتایا جارہا ہے کہ ایک طرح کی ویڈیو بنانے میں سی سی ٹی وی کیمرے کے آپریشن کنٹرول روم سے کام لیا جاتا ہے۔ اس میں آپریشن کنٹرول روم میں تعینات عملے کو انتظامی عہدوں کے لوگوں اور بعض پروفیسروں کا تعاون و سرپرستی حاصل ہے یہ پورا نیٹ ورک ہے۔
اس نیٹ ورک کا ہر فرد ہر وقت دائو پر ہوتا ہے۔ مثلاً گشت پر مامور گارڈ کسی بھی مقام پر طالب علم اور طالبہ کو بیٹھا دیکھ کر اس کی خاموشی سے تصویر اور ویڈیو بناتا ہے یا سی سی ٹی وی کے آپریشن کنٹرول روم کا آپریٹر سی سی ٹی وی پر کہیں بیٹھے دیکھائی دینے و الے طالب علم اور طالبہ کی ویڈیو سے تصویر بناکر ابتداً بلیک میل کرتے ہیں ابتدائی بلیک میلنگ موبائل لوڈ یا ہزار دو ہزار روپے کی ہوتی ہے۔
کبھی یہ صورت بھی بنتی ہے کہ گارڈ اس جوڑے (طالب علم اور طالبہ) کو اپنے سکیورٹی افسر کے پاس لے جاتا ہے یہ افسر سی سی ٹی وی سے جائزہ لے کر سب سے پہلے تو ان بچوں کے یونیورسٹی کارڈ ضبط کرتا ہے اس کے بعد وہی روایتی دھمکی کہ تمہارے والدین کو یونیورسٹی بلاتے ہیں۔ تیسرا طریقہ واردات وہی نمبروں والا ہے۔
یہ تین طرح کے کھیل برسوں سے جاری ہیں۔
یونیورسٹی کی حدود میں جہاں سکیورٹی گارڈ کی رجمنٹ دندناتی پھرتی ہو سی سی ٹی وی کیمرے ہر طرف لگے ہوئے ہوں کہیں بیٹھا جوڑا کس حد تک پہنچ اور بچ سکتا ہے اس پر لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں عین ممکن ہے کہ اِکادُکا یا چند شکایات درست ہوں۔ لیکن کیا ان شکایات کے بعد جو سلسلہ وار بلیک میلنگ کا کاروبار شروع ہوتا ہے اسے محض اس لئے درست سمجھ لیاجائے کہ بچوں نے خود ہی موقع دیا؟
ایک پیغام یہ بھی موصول ہوا "شاہ جی تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے" جی بالکل درست ہے لیکن ایک ہاتھ تو بہرطور اس کا ہے جو اخلاقی طور پر گارڈین ہے۔ محافظ ہے۔ روحانی باپ ہے۔
تالی کے لئے ان تین کرداروں کو جس دوسرے ہاتھ کی تلاش یا ضرورت ہے وہ کسی اور مقام پر ان کے گھر کی دختران کا بھی ہوسکتا ہے۔
دوسری طرف یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ آباد کاروں کے رہنما طارق بشیر چیمہ کا بیٹا یونیورسٹی میں منشیات کے کاروبار کا ماسٹر مائنڈ ہے۔ فقط یہی نہیں بلکہ دوسری قباحتوں میں ملوث گروپ کا سربراہ بھی فرزند طارق بشیر چیمہ ہی ہے یہ فریق دعویٰ کررہاہے کہ یونیورسٹی سکیورٹی انچارج میجر (ر) اعجاز شاہ کو طارق بشیر چیمہ نے گرفتار کروایا ہے تاکہ اپنے بیٹے کی ویڈیوز اور دوسرے ثبوت مٹواسکے۔
اگر اس موقف کو درست مان لیا جائے تو پھر خود اعجاز شاہ کے اعترافی بیان یا قبل ازیں ڈاکٹر ابوبکر والے سکینڈل کا کیا کرنا ہے۔ ایک عامل صحافی کے طور پر کم از کم میں ان دوستوں سے اس حد تک تو متفق ہوں کہ فرزند چیمہ کو بلاتاخیر پولیس اپنی تحویل میں لے کیونکہ یونیورسٹی میں منشیات سپلائی اور فروخت کرنے والے گروپ کے سربراہ کے طورپر اس کا نام لیا جارہا ہے یہی نہیں چند دیگر سنگین الزامات بھی ہیں اس پر البتہ اس بات سے اتفاق ممکن نہیں کہ بیٹے کو بچانے کے لئے طارق بشیر چیمہ نے منصوبہ بندی سے یونیورسٹی کے سکیورٹی انچارج میجر (ر) اعجاز شاہ کو گرفتار کروایا۔
گزشتہ کالم میں سکیورٹی انچارج کی حادثاتی گرفتاری اور پھر معاملہ بگڑنے بارے کچھ عرض کیا تھا۔
کہا یہ جارہا ہے کہ یونیورسٹی سکیورٹی انچارج میجر اعجاز شاہ کو جب پولیس نے ناکے پر روکا تو یہ معمول کی کارروائی تھی۔ میجر ر اعجاز شاہ ناکہ پر روکے جانے کے وقت نشے میں تھا۔ ریٹائر میجر، یونیورسٹی کا سکیورٹی انچارج پھر نشے میں یہ تو کریلا دھوپ میں اور نیم چڑھا والا معاملہ ہوگیا۔
موصوف نے ناکے پر موجود پولیس اہلکاروں سے روکے جانے پر بدتمیزی شروع کردی۔ نشے میں ٹن شخص کی بدتمیزی سے معاملہ بگڑا بات گاڑی کی تلاشی تک گئی۔ منشیات وغیرہ کی برآمدگی کے بعد اہلکاروں نے اپنے سینئرز کو اطلاع دی جس کے بعد اعجاز شاہ کو گرفتار کرلیا گیا۔
موبائل فون چونکہ بوقت تلاشی اہلکاران قبضے میں لے چکے تھے اس کا پاسورڈ میجر (ر) اعجاز شاہ نے خود پولیس کوبتایا جس کے بعد گیلری واٹس ایپ اور ویڈیو سیکشن سے چیک کرنے سے بات "بڑھ" گئی پھر تھانے کی حد تک کے سینئر نے اپنے ضلعی حکام کو صورتحال سے آگاہ کیا۔
میں نے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ اعجاز شاہ سے برآمد شدہ سامان بارے ایک پیغام موصول ہوا کہ برآمدگی کم ظاہر کی گئی ہے۔ مقامی دوستوں کے ذریعے تصدیق نہیں ہوپائی اس لئے صرف پیغام موصول ہونے پر برآمد شدہ اشیاء میں سے غائب کی گئی منشیات کی دو دیگر اقسام۔ خاصی تگڑی رقم اور اسلحہ کی تفصیل نہیں لکھی تھی اب بھی میری رائے یہی ہے کہ جب تک تصدیق نہ ہو یہ تفصیل نہیں لکھ سکتا۔
البتہ یہ درست ہے کہ یہ معاملہ اتنا سادہ بہرطور نہیں خود اعجاز شاہ کے ابتدائی تفتیشی بیان میں چونکادینے والے انکشافات ہیں اور منظم انداز میں خبریں بھی " فراہم " کی گئیں یہ بھی اطلاع ہے کہ گرفتاری کے وقت وہ نشے کے ساتھ "سرور آور" ادویات کے سرور میں بھی تھا۔
باردیگر عرض ہے معاملات گھمبیر ہیں سابق وی سی کے حق میں"آئی سٹینڈ ود وی سی" کا ٹرینڈ چلانے والے مجرموں کے سہولت کار ہیں اسی طرح کے سہولت کار وہ افراد ہیں جو سارا ملبہ طلباء و طالبات پر ڈال کر منشیات فروشوں، اعجاز شاہ اور انتظامی و تدریسی شعبوں کے رسوا کرداروں کو بچانے کی مہم چلارہے ہیں۔ میں اس رائے سے متفق ہوں کہ غازی یونیورسٹی، ملتان یونیورسٹی اور اسلامیہ یونیورسٹی ان تینوں جامعات میں اب تک اس طرح کے جتنے واقعات سامنے آئے ان کی تحقیقات کے لئے ایک جے آئی ٹی کسی تاخیر کے بغیر بننی چاہیے۔
سابق وائس چانسلر، طارق بشیر چیمہ کے بیٹے، ڈاکٹر ابوبکر سمیت ان افراد کو فوری طور پر گرفتار کیا جانا چاہیے جن کا ذکر خیر سکیورٹی انچارج اعجاز شاہ کےبیان میں ہے۔ یہ کہنا کہ کوئی یونیورسٹی کا سرائیکی شعبہ بند کرانا چاہتا ہے بچگانہ بات ہے۔ یہ ایک شعبہ کا نہیں یونیورسٹی کا سکینڈل ہے
آزادانہ صرف آزادانہ تحقیقات سے ہی سیاہ کردار بے نقاب ہوں گے اور کیفر کردار تک پہنچائے جاسکیں گے۔
یونیورسٹی کے سکیورٹی سٹاف کی ازسرنو تنظیم کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بچیوں کے والدین کا تعلیمی اداروں پر اعتماد بحال کرنا ہوگا۔
جان کی امان رہے تو عرض کروں ان تینوں جامعات میں اخلاقیات کے نام پر غیراخلاقی سرگرمیوں کو رواج دینے والے اور ان کے مداحین ہی اصل مجرم ہیں۔
ذمہ دار سکیورٹی اہلکار ہو، انچارج کوئی کلرک یا اس کا افسر یا کوئی استاد، بلاامتیاز محاسبہ اور انصاف کے کٹہرے میں لائے بغیر اصلاح احوال ممکن نہیں۔