Imran Khan Par Hamla, Chand Aham Sawalat
عمران خان پر حملہ، چند اہم سوالات
جناب عمران خان کے کنٹینر پر ہوئے حملے کی ایف آئی آر تادم تحریر درج نہیں ہوسکی۔ اتوار کو انہوں نے شوکت خانم ہسپتال سے ویڈیو لنک پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شکوہ کیا کہ "میں ملک کا سابق وزیراعظم ہوں اور خود پر ہونے والے قاتلانہ حملہ کی ایف آئی آر تک درج نہیں کراسکا"۔
یہ شکوہ درست، ایف آئی آر درج ہونی چاہیے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی تو قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی تھی۔ خان کے نامزد تین افراد بھٹو صاحب سے بڑے لوگ تو نہیں ہیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ مقدمہ درج کیوں نہیں ہورہا۔ پنجاب میں پی ٹی آئی اور ق لیگ کی اتحادی حکومت ہے۔ صوبائی حکومت اتنی بے بس ہے تو کیوں ہے؟ کیا وزیراعلیٰ ڈبل گیم کھیل رہے ہیں۔ جیسا کہ تحریک انصاف کے لوگ کہہ رہے ہیں۔ کوئی قانونی سقم، جس کی بعض قانون دان نشاندہی کررہے ہیں یا پھر یہ کہ اندراج مقدمہ سے زیادہ پروپیگنڈہ عزیز ہے۔
یہ بھی ایک رائے ہے۔ اس رائے کے حاملین قانون دانوں کے ایک طبقے کی اس رائے کو پیش کرتے ہیں کہ وزارت دفاع کے ماتحت مسلح افواج کے تینوں محکموں کے افسر کے خلاف نامزد ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی۔ درج ہو بھی جائے ایف آئی آر سیل کردی جائے گی اور سیل شدہ ایف آئی آر متعلقہ محکمے کی ملکیت ہوگی اس صورت میں تحقیقات بھی متعلقہ محکمہ کرے گا۔
یہاں ایک سوال اور ہے۔ اگر تحریک انصاف اور ق لیگ کے ذرائع وزیر آباد حملے کے حوالے سے پیشگی آگاہ تھے تو کیا پنجاب حکومت اور صوبائی سکیورٹی کے محکموں کے علم میں یہ اطلاع لائی گئی؟ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز چودھری کہتے ہیں"انہوں نے ایم پی اے احمد چٹھہ کو باخبر کردیا تھا کہ عمران خان کے کنٹینر پر وزیرآباد میں حملہ ہوسکتا ہے"۔
خود خان صاحب یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ انہیں بھی معلوم تھا کہ وزیر آباد یا گجرات میں ان پر حملہ ہوسکتا ہے۔ کیا خان صاحب یا سینیٹر اعجاز چودھری نے وزیراعلیٰ، آئی جی اور قائم مقام چیف سیکرٹری کو اعتماد میں لیا؟ نہیں تو کیوں؟
اعتماد میں لیا تو کنٹینر کی سکیورٹی مزید بہتر بنانے پر توجہ کیوں نہ دی گئی۔ ریسکیو اہلکاروں کے بیانات، ملزم کے بیان کی قسطوں میں لیک ہونے والی ویڈیو، ملزم کو ایک ضلع سے دوسرے، ضلع میں ضابطے کی قانونی کارروائی کے بغیر منتقل کرنا اور اس طرح کے درجنوں سوالات ہیں۔
تحریر نویس کو اس کہانی سے رتی برابر دلچسپی نہیں کہ کنٹینر حملہ ایک منصوبہ کا حصہ تھا وزیراعلیٰ پنجاب کو جونہی اس منصوبے کی مخبری ہوئی انہوں نے آئی جی اور دیگر حکام کو یہ ہدایت کی کہ منصوبہ ناکام بنانا ہے۔ حملہ تو ہوگیا منصوبہ کیوں ناکام نہیں بنایا جاسکا؟
کیا ملزم کو تحویل میں لے کر دوسرے ضلع میں لے جانا اور ویڈیو بیان لیک کرانا منصوبہ ناکام کرنے کا حصہ تھا؟ ایسا ہے تو منصوبہ کیا تھا۔ اس سوال کا جواب اور منصوبے کی جزئیات دونوں تحقیق طلب ہیں۔
مقدمہ درج نہ ہوسکنے کی کچھ سیاسی وجوہات ہیں ان میں وزیراعظم، وزیر داخلہ اور ایک اعلیٰ فوجی افسر کے نام اندراج مقدمہ کی درخواست میں لکھ دیئے جانا یقیناً ایک وجہ ہوسکتی ہے لیکن چند اور اہم نکات ہیں ان سے صرف نظر کرنا بہت مشکل ہے۔
مثلاً کنٹینر پر حملے کے دوران گولی لگنے سے جاں بحق ہونے والے پی ٹی آئی کے کارکن معظم گوندل کا معاملہ ہے۔ اس مقتول کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کہاں ہے۔ پوسٹ مارٹم نہیں ہوا تو کیوں۔ کیا ورثاء نے کوئی درخواست دی؟ ورثا نے درخواست دی تھی تو انہیں قائل کیا جانا چاہیے تھا کہ یہ قومی سلامتی کا معاملہ ہے حساس مقدمہ۔ سابق وزیراعظم پر حملہ ہوا ہے۔ پوسٹ مارٹم کرانے دیا جائے۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ ہی یہ سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے کہ کیا معظم گوندل جب حملہ آورکی طرف سے سامنے سے بڑھ رہے تھے اور ملزم سے پی ٹی آئی کا دوسرا کارکن احتشام الجھ چکا تھا عین اس وقت ملزم نوید کے پسٹل سے گولی چلی تو کیا وہ معظم کے سینے یا سر میں لگی یا معظم سر کے بالائی حصے یا عقبی حصے پر لگنے والی کسی اور گولی سے جاں بحق ہوئے۔
اگر دوسرا اندازہ سر کے بالائی حصہ اور عقبی حصے پر گولی لگنے والا درست ہے تو پھر یہ گولی کس نے چلائی تھی۔ کیا یہ گولی کنٹینر سے چلائی گئی یا کہیں اور سے؟ ہمیں اس سوال کا درست جواب پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ہی مل سکتا ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اندراج مقدمہ کے لئے لکھی گئی درخواست میں تحریر یہ ہے کہ ایم پی اے احمد چٹھہ کو 2گولیاں ٹانگوں میں لگیں۔ احمد چٹھہ کی ہفتہ کو منظرعام پر آنے والی گھریلو تصویر جس میں اس کے والد حامد ناصر چٹھہ بھی موجود ہیں اس بات کی نفی کرتی ہے کہ انہیں ٹانگوں میں 2گولیاں لگیں۔
پھر بھی میڈیکو لیگل رپورٹ اور ایم ڈی ایکسرے رپورٹ کہاں ہے۔ سینیٹر فیصل جاوید نے وقوعہ کے بعد خون سے لت پت سفید قمیص پہنے ہوئے میڈیا سے وقوعہ بارے گفتگو کی تھی ان کی غالباً بائیں گال کو گولی چھوکر گزری یا ایک اطلاع کے مطابق چھرا لگا۔ گولی چھوکر گزرنے یا چھرا لگنے سے اتنا خون بہا تھا یا کنٹینر کے سٹیج یعنی چھت پر زخمی ہونے والے دوسرے افراد کی مدد کرتے ہوئے ان کی قمیض لہو رنگ ہوئی۔
کنٹینر کی چھت پر کیا کسی سے انجانے میں (وقوعہ کے وقت گھبراہٹ میں) ایسی گن چل گئی تھی جس کا فائر چھت کے فرش پر لگا اور چھرے بکھرنے سے چھت پر موجود لوگوں کو لگے؟ مکرر ایک سوال ہے ان تمام زخمیوں کی میڈیکو لیگل رپورٹس کہاں ہیں۔
جناح ہسپتال لاہور کے مطابق عمران خان کو 2گولیاں لگیں۔ شوکت خانم ہسپتال کے ڈاکٹر فیصل کے مطابق گولیوں کے ٹکڑے، خود عمران خان کے مطابق انہیں چار گولیاں لگیں۔ یہاں پھر وہ میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ اہم ہے اور اس امر کی فرانزک رپورٹ کہ یہ گولیاں کیا ملزم نوید کے نائن ایم ایم والے پسٹل سے چلائی گئیں اور خان صاحب کو لگیں۔
یہاں اس دعویٰ کو پر غور کیجے جو پی ٹی آئی کے سینیٹر عون عباس بپی نے کیا ان کے مطابق خان صاحب کو ایک ٹانگ میں 4گولیاں اور دوسری ٹانگ میں 6چھرے لگے۔
بارِ دیگر عرض ہے کیا کنٹینر کی چھت پر موجود محافظوں میں سے کسی سے گھبراہٹ میں گولی چلی تھی کیونکہ زیادہ زخمیوں کو چھرے لگنے کا کہا جارہا ہے۔ اگر کنٹینر کی چھت پر کسی سے فائر نہیں ہوا تو کیا کنٹینر کی چھت پر کسی سمت سے کوئی فائر ہوا جس کے چھرے پھیلے اور لوگ زخمی ہوئے؟
ایسا ہے تو کنٹینر کی چھت پر زخمی ہونے والوں کی میڈیکو لیگل رپورٹس ہی ہمیں بتاسکتی ہیں کہ کیا یہ کسی ایسی گن کے چھرے ہیں جو کنٹینر کی چھت پر موجود تھی یا کسی اور سمت سے ہوئے فائر کا نتیجہ؟
فرانزک رپورٹ کی اس معاملے میں بنیادی اہمیت ہے۔ کیا پوری صوبائی حکومت اس امر سے لاعلم تھی کہ اگر مریضوں کو قاعدے کے مطابق تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال سے ریفر کروائے بغیر کہیں لے جایا گیا تو آگے چل کر سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ کیا میڈکو لیگل رپورٹ، ایم ڈی ایکسرے وغیرہ۔
گولیوں اور چھروں کو جو زخمیوں کے جسموں سے نکالے گئے فرانزک ٹیسٹ کے لئے بھجوایا گیا۔ لیکن یہ ساری باتیں قاعدے اور قانون کی ہیں۔
مثال کے طور پر صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کسی مجسٹریٹ کی اجازت کے بغیر یا اجازت سے سرکاری ہسپتال کی میڈیکو لیگل ٹیم کو نجی ہسپتال میں لے گئی تھیں؟ اس قانونی سقم کا جواز دوران تفتیش و عدالتی سماعت پیش نہیں کیا جاسکے گا۔ گولیاں یا چھرے، جو بھی ہوں سنجیدہ تفتیش سے صورتحال کی وضاحت ہوگی۔
مثال کے طور پر عمران خان کو 4گولیاں لگی ہیں بقول ان کے، جبکہ موقع واردات سے نائن ایم ایم پسٹل کی گولیوں کے 9خول ملے اور 2خول کسی اور اسلحہ سے چلائی گئی گولیوں کے ہیں۔ یہاں پھر وہی بات جو بظاہر تکرار محسوس ہوگی، قانونی ضابطوں کو نظرانداز کیوں کیا گیا۔
یہاں یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ان 12گولیوں کے علاوہ بھی ایک گولی ہے جو معظم گوندل نامی کارکن کی وفات کا سبب بنی۔ اس طرح کل 13گولیاں ہوگئیں۔ میڈیکو لیگل، ایم ڈی ایکسرے، فرانزک رپورٹ یہ تیینوں چیزیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں۔ زخمیوں کی جو تصاویر اور بعض ویڈیو سوشل میڈیا پر موجود ہیں وہ مختلف صورتحال کی نشاندہی کرتی ہیں۔
یعنی اب تک کے دعوئوں سے یکسر مختلف صورتحال۔ جیسا کہ عمران خان کی دو ویڈیوز ہیں ایک کنٹینر سے روانگی کے بعد لاہور اور وزیرآباد کے درمیان غالباً گوجرانوالہ کی ہے جس میں وہ اطمینان کے ساتھ ہاتھ ہلاتے ہوئے اپنے پیروں پر چل کر گاڑی میں بیٹھتے ہیں، دوسری اتوار کی شام شوکت خانم ہسپتال میں پریس کانفرنس کی تیاری کے مرحلہ کی ہے جس میں ان کی ایک ٹانگ پر حسب معمول پلستر اور بینڈج موجود ہے اور دوسری ٹانگ ان دونوں چیزوں سے خالی۔
حرف آخر یہ ہے کہ خان صاحب کے کنٹینر پر حملے، گولیوں اور چھروں سے زخمی لوگ ایک شخص کا جاں بحق ہونا، دعوے، الزامات سب اپنی جگہ البتہ اگر مندرجہ بالا سوالات کے جواب مل جائیں تو اشکال دور ہوسکتے ہیں ان سوالات کا جواب کون دے گا؟
پسِ نوشت: یہ کالم عمران خان کے مخالفین سے سوا ارب روپے لے کر لکھا گیا ہے اس لئے ان کے ہمدرد پریشان نہ ہوں رقم بڑھائیں اگر نہیں تو ان سوالات کا جواب بھی لکھا جاسکتا ہے۔
سیکنڈ نوٹ: کالم لکھا جاچکا تھا کہ خبر ملی سپریم کورٹ اس وقوعہ کا چوبید گھنٹوں میں مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔