Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Haye Us Zood Pasheman Ka Pasheman Hona

Haye Us Zood Pasheman Ka Pasheman Hona

ہائے اس زودِ پشیماں کا پشیماں ہونا

پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی کی گزشتہ روز دوبارہ گرفتاری پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بزرگ سیاستدان کی تذلیل کی گئی ان کی اہلیہ کو گھٹیا ویڈیو بھیجی گئی۔ اعظم سواتی انصاف کے لئے دہائی دیتے رہے ان کی کسی نے نہیں سنی یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے بھی پارلیمنٹیرین کے احتجاجی مظاہروں کا نوٹس نہیں لیا۔

سوموار کو سوشل میڈیا پر جاری کئے جانے والے اپنے بیان میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے سپریم کورٹ سے یہ سوال بھی کیا کہ کیا قوانین کی شقیں طاقتور لوگوں کی حفاظت کے لئے ہیں۔ ان کے خیال میں سینیٹر اعظم سواتی کا حالیہ ردعمل اور خصوصاً 26 نومبر کو راولپنڈی کے جلسہ میں خطاب درحقیقت انصاف اور دادرسی سے محروم شخص کا ردعمل ہے۔

اس امر پر دو آراء ہرگز نہیں کہ سینیٹر اعظم سواتی نے پہلی گرفتاری کے بعد خود پر تشدد کے حوالے سے جو سنگین الزامات لگائے یا بعدازاں انہوں نے اپنی اہلیہ کو بھجوائی گئی ویڈیو کے حوالے سے جو احتجاج کیا اس کا نہ صرف نوٹس لیا جانا چاہیے تھا بلکہ اس کی تحقیقات بھی لازماً ہونی چاہئیں تھی۔

البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ سینیٹر سواتی نے اس حوالے سے بنائی گئی سینیٹ کی کل پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی سے نہ صرف تعاون کرنے سے انکار کردیا بلکہ پی ٹی آئی کے سینیٹرز نے کمیٹی کے قیام کو مسترد کرتے ہوئے پہلے چیئرمین سینیٹ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا بعد ازاں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کردیا۔

اسی طرح سینیٹر سواتی نے مذکورہ ویڈیو بنائے جانے کے حوالے سے پہلے کوئٹہ میں سپریم کورٹ کے گیسٹ ہائوس کا نام لیا بعد ازاں بار کونسل کے دونوں کی جانب سے مہمان خانہ نہ ہونے کی وضاحت تفصیل کے ساتھ میڈیا کو جاری کی گئی۔

اس تردید کے بعد بھی ویڈیو کا معاملہ اس کے باوجود جوں کا توں ہے کہ ایف آئی اے حکام کا دعویٰ ہے کہ ویڈیو فرانزک معائنہ میں جعلی ثابت ہوئی نیز یہ کہ یہ ویڈیو مختلف ویڈیوز کے ٹوٹے جوڑ کر بنائی گئی تھی۔

یہاں جس بنیادی سوال کو نظرانداز کیا گیا وہ یہ ہے کہ ویڈیو سینیٹر سواتی نے تحقیقات کے لئے ایف آئی اے کو دی تھی نہیں تو ایف آئی اے تک ویڈیو کیسے پہنچی؟ اس ضمن میں بعض سینئر صحافی یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ ایف آئی اے نے ویڈیو کے جعلی ہونے کی اطلاع سال بھر قبل سینیٹر سواتی کو دے دی تھی۔

ایسا ہے تو کیا سال بھر قبل کے معاملے کو موجودہ حالات میں پروپیگنڈہ مہم کا حصہ بنایا گیا؟ اس کی وضاحت بہت ضروری ہے بالخصوص ایف آئی اے کے حکام کو چاہیے کہ وہ پورا معاملہ میڈیا کے توسط سے عوام کے سامنے رکھیں۔

ضمنی سوال بہرطور یہی ہے کہ سینیٹر سواتی نے سینیٹ کی تحقیقاتی کمیٹی سے تعاون سے انکار کیوں کیا اور اس امر کی پردہ پوشی کیوں کی کہ ویڈیو کا معاملہ سال بھر پرانا ہے اور اس کے جعلی ہونے کی تحریری اطلاع ایف آئی اے کے حکام انہیں دے چکے تھے۔

جہاں تک سینیٹر سواتی کی حالیہ گرفتاری پر سابق وزیراعظم عمران خان کے ردعمل کا تعلق ہے تو سیاسی و اخلاقی طور پر یہ نہ صرف درست ہے بلکہ جو سوال انہوں نے اٹھایا وہ بھی جواب طلب ہے۔ ملکی قوانین کے یکساں اطلاق اور تحقیقات و انصاف کے یکساں مواقع ہر شخص کے لئے ہونے چاہئیں۔

طبقاتی امتیاز اور طبقانی بنیادوں پر انصاف کی فراہمی یا ہر دور میں حکومت و اسٹیبلشمنٹ کے ناقدین کے خلاف طاقت اور قوانین کا یکطرفہ استعمال تنازعات کو جنم دیتا ہے۔ اعظم سواتی سے انصاف ہونا چاہیے ان کی جس تقریر کو عمران خان نے مایوس آدمی کا ردعمل قرار دیا ہے وہ ردعمل سے زیادہ نفرتوں سے بھری تقریر ہے۔

عمران خان کے اسی جلسہ میں دوسری متنازعہ غیرشائستہ تقریر ان کے سابق معاون خصوصی شہباز گل کی تھی۔ کیا عمران خان اس تقریر کو بھی مایوس آدمی کا ردعمل قرار دیں گے؟ جبکہ اس تقریر کا ایک ایک لفظ اور ادائیگی کے وقت مقرر کے چہرے کے تاثرات سے تو ایسا لگتا تھا کہ تقریر عمران خان کی مرضی سے کی گئی اور یہ مرضی اصل میں بدلے کی بھائونا کا حصہ ہے۔

سیاسی مخالفین کسی بھی دور میں گرفتار ہوں یا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جائے یہ صریحاً غلط ہی قرار پائے گا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ خود عمران خان کا اپنا دور اقتدار سیاسی مخالفین کے خلاف ریاستی طاقت کے بے رحمانہ استعمال سے عبارت ہے۔

سائبر کرائم کے سخت گیر قوانین کا بل بھی ان کے دور اقتدار میں ہی منظور ہوا تھا۔ کیا اس قانون اور بعض شقوں کے حوالے سے یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بطور وزیراعظم کابینہ کے اجلاس میں اس قانون کی منظوری دے کر اسے پارلیمنٹ سے منظور کرانے میں ذاتی دلچسپی کیوں لی۔ کیا کسی کی خوشنودی مقصود تھی یا اپنے مخالفیبن و ناقدین پر زمین تنگ کرنا؟

ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں ہوتی ہیں تو جھاڑو پھیرنے کو مقصد بنالیتی ہیں۔ اقتدار سے محرومی کے بعد انہیں قوانین، تحقیقات اور نظام انصاف میں خرابیاں نہ صرف دیکھائی دیتی ہیں بلکہ اس کا رونا بھی روتی رہتی ہیں۔

پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کے پونے چار سالہ دور میں سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا سلوک ہوا اور ناقدین پر کیا کیا ستم ڈھائے گئے یہ ملکی تاریخ کے چند دوسرے سیاہ بابوں کی طرح ایک سیاہ باب ہے۔

یقیناً ماضی میں جو غلط ہوا اس غلط کی آج پیروی بھی غلط ہی ہوگی لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ مسلح افواج کے محکموں یا عسکری منصب داروں کا نام لے کر تنقید کو جرم اور اس کے لئے 2 سال سزا اور 5 لاکھ روپے جرمانہ تک کا قانون خود پی ٹی آئی نے بنایا تھا۔ اس دور میں اس قانون پر اعتراض کرنے والوں کو "شٹ اپ" کال دی گئی۔

بار دیگر اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے کہ سینیٹر سواتی کی جانب سے پہلی گرفتاری کے بعد خود پر ہوئے انسانیت سوز تشدد اور ان کی اہلیہ کو بھجوائی گئی گھٹیا ویڈیو کی تحقیقات ازبس ضروری ہے۔

اسی طرح یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ انہوں نے اپنی ضمانت سے رہائی کے بعد تواتر کے ساتھ متنازعہ بیانات دیئے۔ سینیٹ کی کمیٹی سے تعاون سے انکار کے موقف نے اس تاثر کو تقویت دی کہ ان کے الزامات پروپیگنڈہ کا ہتھیار ہیں۔

حقیقت ہوتی تو وہ دادرسی کے لئے پارلیمنٹ کے طاقتور فورم کو استعمال کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔

گزشتہ سے پیوستہ شب ان کی دوبارہ گرفتاری کے وقت کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں کیا کسی عام شخص کو کسی مقدمہ میں گرفتاری کے وقت اپنے حامیوں سے ویڈیو خطاب کی سہولت فراہم کی جاتی ہے؟

بہرطور یہ امر بجا طور پر درست ہے کہ کسی بھی عام یا خاص شخص کے ساتھ زیادتی بالکل نہیں ہونی چاہئیے۔ قوانین کے استعمال میں بھی احتیاط لازم ہے لیکن قوانین بناتے وقت بھی یہ سوچا جانا چاہیے کہ یہ کل ہمارے گلے بھی پڑسکتے ہیں۔

سینیٹر سواتی کی جانب سے بعض عسکری منصب داروں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کئے جانے کی عدم تائید کے ساتھ ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ انہوں نے خود پر انسانیت سوز تشدد اور اہلیہ کو بھجوای گئی گھٹیا ویڈیو کے حوالے سے جو الزامات لگائے ان کی آزادانہ تحقیقات بہت ضروری ہیں۔

ہم امید کرتے ہیں کہ وفاقی حکومت کسی تاخیر کے بغیر ہر دو معاملات کی تحقیقات کے لئے تحقیقاتی کمیٹی قائم کرے گی نیز اس امر کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے کہ سیاسی مخالفین کے خلاف طاقت کا استعمال کسی بھی طور نہ ہو۔

اندریں حالات ہم تحریک انصاف کے رہنمائوں اور ہمدردوں سے بھی یہ درخواست کریں گے کہ وہ بھی زبان دانی کے مظاہروں کو جذبات کے اظہار کا نام نہ دیں۔ حکومت اور ریاستی محکموں یا شخصیات پر تنقید کا حق استعمال کرتے ہوئے احتیاط کا دامن بہرصورت تھامے رہیں۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra