Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Faqeer Rahmon Ke Suchal Mashware

Faqeer Rahmon Ke Suchal Mashware

فقیر راحموں کے "سُچل" مشورے

شاہراہ دستور اور پارلیمنٹ میں بہت کچھ ایسا ہورہا ہے جو نہ ہوتا تو بہتر ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ فوجی حکومتوں کو جائز قرار دینے والوں نے تاریخ سے کوئی سبق سیکھا نہ فوجی حکومتوں کی وجہ سے اقتدار سے محروم ہونے والوں نے۔ حالانکہ دونوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اہم ترین چیز آئین ہے باقی سب کچھ ثانوی ہے۔

خاکم بدہن اگر اس لڑائی میں آئین کو کچھ ہوا، جس کا خطرہ بڑھ رہا ہے تو معاملات سنبھالے نہیں سنبھلیں گے۔ آئین ظاہر ہے پارلیمان بناتی ہے۔ یہ صرف ہمارے ہاں نہیں دنیا بھر میں آئین سازی پارلیمان کا ہی کام ہے۔ ہمارے یہاں ایک طویل عرصہ تک آئین سازوں نے نالی موری کے ٹھیکوں اور 15 فیصد کمیشن کی سیاست کی۔ ترقیاتی فنڈ کا حصول، ملازمتوں میں کوٹہ وصول کرنے کے لئے بھاگ دوڑ تو ان کے اصل فرائض خود ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔

ترقیاتی کاموں میں بلاشبہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے پراجیکٹس ہوتے ہیں مگر بنیادی نوعیت کے کام بلدیاتی اداروں کی فرائض میں آتے ہیں۔

پنجاب میں پچھلے دور حکومت میں بلدیاتی اداروں کی حالت زار کیا رہی یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ (ن) لیگ کے دور میں بنے بلدیاتی ادارے تحریک انصاف کے دور میں معطل کردیئے گئے۔ عوامی نوعیت کے اس مسئلہ کا حل کتنے برس بعد تلاش کیا گیا اور کیا ملک کی سب سے بڑی عدالت اپنے فیصلے پر عمل کرواسکی؟

کسی کی بٙھد اڑائے بغیر یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ اشرافیہ کے ایوان کی بحالی کے لئے جس "والہانہ" پن کا مظاہرہ اور آئین آئین کی تکرار ہورہی ہے اس سے نوے فیصد کم محبت کا مظاہرہ پنجاب کے ان بلدیاتی اداروں کے لئے کیوں نہ ہوا جو پی ٹی آئی کی حکومت نے رنجیت سنگھی انداز میں معطل کردیئے تھے؟

اس سوال کا ایک سادہ جواب موجود ہے لیکن اسے لکھنے کی بجائے آگے بڑھ لیتے ہیں۔

وہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ جنگل میں نہتے شخص کا شیر سے آمنا سامنا ہوا تو شیر نے پوچھا بڑی ڈینگیں مارتے تھے اب سنائو کیسے بچو گے؟ نہتے شخص نے کاپنتے ہوئے کہا حضور اب جو بھی کرنا ہے شیر نے کرنا ہے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسی صورتحال سے بچنے کی شعوری کوشش کی جانی چاہیے۔

پتہ نہیں ایسا کیوں لگتا ہے کہ آمروں کے اقتدار کو جائز قرار دینے اور ایک آمر کو آئین میں ترمیم کا حق سونپ دینے والے خود کو آئین سمجھنے لگے ہیں۔ ایسا نہیں ہے بلکہ وہ آئین کے تحت قائم ایک ادارے میں ملازم ہے عوام کے ٹیکسوں سے جمع ہونے والی رقم میں سے تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں۔

ساعت بھر کے لئے رکئے، ایک قانون کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی تنخواہوں اور مراعات کی تفصیلات نہیں بتائی جاسکتیں۔ یہ ہمارا نہیں رجسٹرار آفس کا موقف ہے۔ اب اگر کوئی سادہ سا بندہ یہ پوچھے کہ حضور دوسروں کے معاملے میں بال کی کھال اتارنے اور پچھلے چند برسوں سے سوشل میڈیا کی چنگھاڑتی ہوئی پوسٹوں کو ازخود نوٹس کیسوں کا حصہ بنانے کے شوق نے آپ کو جہاں لاکھڑا کیا ہے یہ مقام "کیسا لگا"؟

ویسے آئین کی کس شق کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی تنخواہوں، مراعات کو پوشیدہ رکھنا ضروری ہے اور یہ کہ کیا معلومات کی فراہمی کے قانون کے مقابلہ میں کوئی ادارہ یا محکمہ اپنا قانون بناکر اس کے پیچھے چھپ سکتا ہے؟

مجھے یاد آیا کہ کورونا وبا کے دنوں میں سوشل میڈیا پر ایک خبر تیز رفتاری سے دوڑی، سندھ حکومت نے کورونا متاثرین کے امدادی کاموں کی رقوم میں تقریباً سوا 8 ارب روپے کی کرپشن کی ہے۔ بس پھر کیا تھا انصاف کے گھنٹے بج گئے منصف جلال میں آگئے۔

سپریم کورٹ میں کورونا وبا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سندھ کے نمائندوں کو جی بھر کے ذلیل کیا گیا۔ وہ دہائی دیتے رہے کہ عالی جاہ! کورونا متاثرین کے لئے غذائی سہولیات کی رقم ڈیڑھ ارب روپے ہے اس میں سے ابھی 73کروڑ خرچ ہوئے ہیں سوا آٹھ ارب روپے کی کرپشن کیسے ہوگئی۔

منصفوں کا تو پارہ ہائی ہوگیا۔ ایک صاحب بولے "نا ہم جھوٹ بول رہے ہیں، عدالت کو گمراہ مت کرو، یہ سارے اعدادوشمار سوشل میڈیا پر موجود ہیں"۔

یعنی فنڈ جاری کرنے والی سندھ حکومت کی دستاویزات غلط اور سوشل میڈیا درست۔ اس طرح تو اس ملک میں ازخود نوٹسوں اور انصاف کا ڈنکا بجتا رہا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ آزاد عدلیہ کے جدید باوا آدم افتخار چودھری کے دو ازخود نوٹس بہت مشہور ہوئے تھے۔ ایک سموسوں کے نرخوں پر لیا گیا نوٹس اور دوسرا ایک معروف اداکارہ کے بیگ سے شراب کی نصف بوتل کی برآمدگی پر نوٹس۔

سموسوں کے نرخوں پر نوٹس عالی جناب نے اپنے ڈرائیور کی دکھ بھری داستان سننے کے بعد لیا تھا اور شراب کی نصف بوتل والے ازخود نوٹس کی اصل کہانی ان سطور میں لکھنے سے معذرت خواہ ہوں۔ صرف اتنا بتادیتا ہوں کہ ایک جھگڑا جو بورڈنگ کارڈ پر درج سیٹ نمبر سے شروع ہوا تھا وہ نصف بوتل شراب کی برآمدگی خبر کی اشاعت کے بعد ازخود نوٹس تک وسیع ہوگیا۔

یقین کیجئے اگر کوئی کورٹ رپورٹر ہمت کرے اور 2009ء سے اب تک لئے جانے والے ازخود نوٹسوں کے پس منظروں کی چھان بین کرکے ایک کتاب بعنوان "ازخود نوٹسوں کی داستان عبرت" لکھے تو یہ اردو میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہوگی، لکھے گا کون یہ البتہ اہم سوال ہے۔

فقیر راحموں کہہ رہا ہے اس کے پاس اس سوال کا جواب ہے لیکن میں سنی ان سنی کرکے کالم لکھنے میں مصروف ہوں۔ یہ پھر کسی تنازع میں پھنسوا دے گا۔ آج کل ڈن ہل سگریٹ مہنگی ہونے کی وجہ سے غصے میں رہتا ہے۔

معاف کیجئے گا کالم کی ابتدائی سطور میں عرض کی گئی بات کو آگے بڑھاکر یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ یہ چونچ اور دم گُم ہوجانے کے خطرات کے اشارے دینے والے اپنے اپنے حلقہ اثر کے لوگوں کو سمجھاتے کیوں نہیں کہ بندے بنو؟

تخت پنجاب کے الیکشن کے لئے سٹیٹ بینک کو 21 ارب روپے الیکشن کمیشن کو فراہم کرنے والے فیصلے کی تفصیلات کو ٹی وی کے ٹیکروں اور سوشل میڈیا کی "فتح مبین" وال پوسٹوں سے ہٹ کر پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ویسے 21 ارب روپے والے معاملے میں فقیر راحموں کا مشورہ ہزار فیصد درست اور بروقت ہے۔ فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ لگ بھگ 17 ارب روپے تو ڈیم فنڈ والے اکائونٹ میں پڑے ہیں۔ 4 ارب روپے آئین کی بالادستی کے لئے سپریم کورٹ اپنے فنڈ میں سے دے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ انویسٹمنٹ کی ہے پھر یہ کون سا پہلی بار ہورہی ہے۔

فنڈ میں 4 ارب روپے نہ ہوں تو ملک ریاض جیسی دریا دلی رکھنے والی مخیر شخصیات کی فہرست اسی طرح منگوائی جاسکتی ہے جیسے ثاقب نثار کی صاحبزادی کی شادی کے وقت "مخیر حضرات" کی فہرست منگوائی گئی تھی۔

یہ لگ بھگ 120 افراد کی فہرست ہے ان میں سے بعض تو ایک ایک ارب دینے کی "استطاعت" رکھتے ہیں، باقیوں سے دو کروڑ فی کس بھی چندے کی اپیل کی جائے تو کافی رقم جمع ہوجائے گی اس طرح پنجاب میں الیکشن بھی ہوجائیں گے اور بحران کا اونٹ بھی کسی کروٹ بیٹھ جائے گا۔

فقیر راحموں کا مشورہ پسند نہ آئے تو کوئی بات نہیں ویسے اس نے ایک اور تجویز بھی دی ہے وہ یہ ہے کہ پنجاب سے امسال جو خواتین و حضرات حج کرنے جارہے ہیں ان سے اپیل کرلی جائے کہ وسائل کی کمی ہے آپ حج والی رقم صوبے میں الیکشن کروانے کے لئے عطیہ کردیں الیکشن جیتنے والی جماعت کے ارکان ایک ایک کروڑ روپیہ حج فنڈ میں جمع کروادیں گے اس طرح اگلے سال ان حجاج کرام کو حج پر بھیج دیا جائے گا جو امسال جمہوریت اور آئین کے لئے قربانی دیں گے۔

ہر دو مشوروں میں سے جو بھی پسند آئے اس پر عمل کرکے دیکھ لیجئے تاکہ حالات کچھ بہتر ہوسکیں۔

ہمارے کچھ نومولود انقلابی دوست آجکل آئین اور جمہوریت کے ساتھ فضائل عدلیہ بیان کرتے ہوئے طنزیہ جملے اچھالتے پھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔

ویسے ساڑھے چھ دہائیوں کے سفر حیات میں ہم نے یہی دیکھا ہے کہ فرقہ اور سیاسی جماعت بدلنے والے نئی محبت کے یقین کامل کے مظاہروں میں اچھے خاصے جذباتی ہوتے ہیں۔

ایسا ہی حال ہمارے ان نومولود انقلابی دوستوں کا ہے جو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ایک ناکام پراجیکٹ کی محبت میں دیوانے ہوکر پچھلی محبتوں پر چاند ماری کرتے ہوئے دوستوں کو بھی رگید ڈالتے ہیں۔

بہرحال ایک بات طے ہے وہ یہ کہ اگر حالات کو بہتر بنانے کے لئے انا کی قربانی نہ دی گئی تو چوبیس کروڑ لوگوں کا ملک تاریک بند گلی میں پھنس جائے گا، پھر کیا ہوگا؟

اس پر اگلے کالم میں بات کریں گے۔

Check Also

Khadim Hussain Rizvi

By Muhammad Zeashan Butt