Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Etebar e Jan Tootne Ka Noha

Etebar e Jan Tootne Ka Noha

اعتبارِ جاں ٹوٹنے کا نوحہ

جی چاہتا ہے کہ اپنی جنم بھومی کی گلیوں میں خوب گھوموں، پرانی یادیں تازہ کروں، ہنستے بستے شہر کا نظارہ کروں، مجبوری یہ ہے کہ سٹک کے بغیر چند قدم چلنا دشوار تر ہوگیا ہے۔

تین دن اُدھر کی شام کا مسافر اپنی امڑی کے شہر میں پہنچا تو بے اختیار آنکھیں بھیگ گئیں۔ یہ کیفیت عموماً شہرِ مادر سے جدائی کے وقت ہوتی ہے۔ اس بار آمد پر ہے۔ کیا سفر مختصر رہ گیا ہے۔

سانسوں کی ڈور کٹنے کو ہے جتنا بھی اس پر غور کرتا ہوں ایک عجیب سے احساس بڑھ رہا ہے۔ اسے کیا نام دوں، یہ کیا، کوئی سندیسہ یا کچھ اور کچھ پتہ نہیں لیکن اعتبارِ جاں اٹھتا جارہا ہے۔

اعتبار ہی تو اصل چیز ہے۔ وہ رشتوں سے ہو یا زندگی سے، ایک آواز ہے وقفے وقفے سے سماعتوں سے ٹکراتی ہوئی۔ جیسے کوئی کہہ رہا ہو۔

سانسوں کی ریزگاری بس تھوڑی سی بچی ہے۔ شہر کے درودیوار کو جی بھر کے دیکھ لو۔ ماں باپ کی تربتوں پر جو کہنا ہے کہہ لو۔

میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔ چند ٹوٹی پھوٹی خواہشیں ایک آدھ حسرت اور خود پہ اپنی حقیقت عیاں ہونے کے سوا۔

اب تک کا سفر بہت مشکل سے طے ہوا لڑتے بھڑتے۔ محنت مزدوری کرتے طے ہوگیا اس میں اپنا کوئی کمال نہیں۔ معافی کا خواستگار ہوں یہ مت سمجھ لیجئے گا کہ ہمدردی بٹورنے کے لئے حرف جوڑ رہا ہوں۔

عمر کے اس حصے میں ہمدردی کی نقدی سنبھالے نہیں سنبھلنے کی۔ اعتبار جاں ہی نہ رہے تو طلب کیسی۔

پچھلے تین دن کے دوران خوب سوچا سمجھا، سفر حیات کے آغاز سے اس موڑ تک جو یاد تھا سب خود کو سنایااور پھر سوچا کہ زندگی کیسی رہی ایسی ہی تھی جیسی اب ہے۔

پھر بھی لاکھ لاکھ شکر ہے اس سفر کے سارے رشتے، تعلق، دوستیاں، پڑھی گئی کتابیں اور ذات سے منسوب رشتے سبھی اچھے تھے اور ہیں ہم ہی غالباً کسی کے معیار پر پورا نہیں اتر پائے۔

میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں لیکن لکھ نہیں پارہا۔ خود بیتی کا ایک حصہ ہے۔ اس حصہ کے ہی یہ چند لفظ ہیں، لیکن یہی چند الفاظ حاصل زندگی ہیں۔ ایسا حاصل یا منافع جس کے بعد سانسوں کے اس کاروبار سے جی اکتاگیا ہے۔

کچھ دیر میں اپنی امڑی کی تربت پر جائوں گا شاید ایک وہی ایسی محفوظ جگہ ہے جہاں جی بھر کے سب کہا جاسکتا ہے اور وہاں دیواروں کے کان نہیں ہوتے کہ جگ ہنسائی کا ڈر نہ کوئی کسی کو کوئی طعنہ مارتا ہے نہ خطرہ۔

ابھی چند کام کرنے ہیں لیکن لگتا ے کہ وہ مکمل نہیں ہوپائیں گے۔ کچھ وعدے تھے ان کے پورا نہ ہونے کا دکھ رہے گا۔

گزشتہ چند دنوں سے سنجیدگی کے ساتھ اس قلم مزدوری کو خیرباد کہنے کا سوچ رہا ہوں۔ یہ قلم مزدوری یقیناً میرا ذریعہ روزگار ہے لیکن اس سے زیادہ یہ ہے کہ اپنی فہم کے مطابق جو درست سمجھتا رہا وہی عرض کرتا رہا۔

اس قلم مزدوری کی وجہ سے بلاشبہ بہت عزت و احترام ملا۔ آدمی اور کیا چاہتا ہے۔

جو ملا اس پر شکر گزاری واجب رہی اس سارے سفر میں دوست اچھے ملے اچھے بلکہ اس سے بڑھ کر۔ اساتذہ میں سے جو دنیا سے اٹھ گئے خدا ان کی تربتوں کو منور فرمائے۔

کتابیں ہم نے خوب پڑھیں بس یہی ایک مہنگا شوق تھا لیکن سیانے کہا کرتے تھے پڑھتے رہنے سے عدم معلوم سے معلوم کی طرف کا سفر ذرا سہل ہوجاتا ہے۔

جی بالکل ہوا اس لئے تو ہمیں سمجھ میں آیا کہ مذہبی پاپائیت، ریاست اور بالادست اشرافیہ کے طبقات، تینوں مل کر خوابوں، ترغیب، لالچ اور خوف کا کاروبار کرتے ہیں کبھی کبھی مال تازہ دیکھانے کے لئے اس پر صبروشکر کا چھڑکائو کردیتے ہیں۔

یوں لوگوں کے مختلف الخیال طبقات صبروشکر کی قبولیت کے لئے بھی پیٹ کاٹ کر نذرانے دیتے اور لیتے رہتے ہیں۔ ہائے کتنے عقل مند ہیں وہ ہمارے لئے رہبر دنیا و دیں کے فرائض سنبھالے ہوئے لوگ کہ وہ اپنی کمائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

اس سارے سفر میں جو اب تک طے ہورہا کچھ خواب آنکھوں میں ٹوٹے، خواہشیں بکھریں اور کچھ تعلق بھی۔

ہر گزرنے والے دن کے ساتھ یہ احساس دوچند ہوتا گیا کہ ہم بس ایک فالتو سی چیز ہیں۔ وہ فالتو چیزیں کتنی خوش قسمت ہوتی ہے جو اوکھے وقت میں کام آجاتی ہیں ہم ایسے بھی نہیں ہو پائے۔

فقیر راحموں نے پچھلی شب سمجھاتے ہوئے کہا "شاہ تم اپنے کام خود نہیں آئے، اب اعتبار جاں تمام ہونے اور خواہشوں کے بکھرنے پر نوحہ خوانی مت کرو"۔

تب مجھے یاد آیا برسوں پہلے کہیں پڑھا تھا "زندگی کو جیو قبل اس کے وہ تمہیں جینا شروع کردے"۔ کئی بار ان الفاظ کے مطالیب سمجھنے کی کوشش کی لیکن گزشتہ شب پوری طرح بات سمجھ میں آگئی جیسے ہی یہ بات سمجھ میں آئی اسی لمحے سے اکلاپے کا احساس مارے جارہا ہے۔

پتہ نہیں کسی اور کو تجربہ ہوا کہ نہیں مگر ہمیں ضرور ہوا کہ ایک ذات جسے اپنا تعارف سمجھا تھا وہ خود اپنا تعارف ہے ہمارا نہیں۔

میرے سامنے یہ سوال بالکل نہیں ہے کہ اب کیا ہوگا، ملال اپنی جگہ ہے مگر یہ ایک دن ہونا تھا۔ اچھا ہے تمامی کی منزل پر اترنے سے قبل حقیقت دوچند ہوگئی۔

ایک بات عرض کردوں یہ کہ تاثیر سے خالی الجھے لفظوں کا مطلب نہ پوچھ لیجئے گا۔ مسافر کے پاس اب اتنا وقت نہیں کہ داستان کی کڑیاں جوڑے اور بیٹھ کر سنائے۔

بس کچھ باتوں اور رشتوں کی حقیقت اب جاکر عیاں ہوئی اچھا ہوتا کچھ عرصہ قبل بات سمجھ میں آجاتی تو چند دن اپنی مرضی سے جی لیتے۔

خیر ہم تو بہت پہلے سے یہ سمجھ چکے تھے کہ زندگی بھی ایک طرح سے امتحانی پرچہ ہے۔ کاش اس امتحانی پرچے کے سوالوں کو سمجھ کر پڑھ لیا ہوتا۔

یہ کیا ہوتا تو اب جب سانسوں کی ریزگاری تھوڑی سی بچی ہے دکھ زیادہ نہ ہوتا۔ خیر آدمی کو اپنی غلطی مان لینی چاہیے۔

زندگی کے امتحانی پرچے کے سارے سوال پڑھ کر جواب لکھنے اور وقت بیتانا چاہیے۔

اس قلم مزدوری کے ذریعے مزید کتنی ملاقاتیں رہیں گی اس بارے کچھ عرض کرنے سے قاصر ہوں۔ کچھ اور سوچ رہا ہوں۔ دعا کیجئے اس بار کی خواہش پوری ہو۔

زندگی بھر امیدوں کا دامن تھامے رہنے والے شخص پر ناامیدی غالب آجائے تو یقیناً اس کی کوئی وجہ ہوگی۔ افسوس وجہ ہے مگر عرض نہیں کرسکتا۔

کچھ ایسا بھی نہیں کرنا چاہتا جو چند رشتوں کے لئے عمر بھر کا طعنہ بن جائے۔ بس جو وقت بیت گیا وہ اچھا ہے جو باقی ہے کیسا ہوگا یہ اچھی طرح معلوم ہے۔

یہی نہ معلوم ہوتا تو زیادہ اچھا تھا اور سانسوں کی ریزگاری ختم ہونے تک خوش فہمی برقرار رہتی۔

میں پڑھنے والوں سے باردیگر معذرت خواہ ہوں کہ سیاسی گرماگرمی سے بنے ماحول پر چٹخارے دار کالم لکھنے کو جی آمادہ نہیں ہوا۔

چند تاریخی واقعات کو ترتیب کے ساتھ لکھنے کے لئے کچھ نوٹس پچھلی شام تیار کئے تھے کچھ دیر پہلے انہیں پھاڑ کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔

کیا ضرورت ہے تاریخ کے گھٹالوں کی نشاندہی کرنے کی ہوسکتا ہے جنہیں ہم گھٹالے سمجھ رہےے ہوں وہ دوسروں کے نزدیک منافع بخش کاروبار ہوں۔

اب تک لکھی بالائی سطور اگر بے ربط اور غیرضروری محسوس ہوں تو اس کے لئے معذرت قبول کرلیجئے۔

روزانہ اپنے پڑھنے والوں کے لئے لکھتے ہوئے اگر ایک دن ایک کالم اپنی ذات کے لئے لکھ لینے کی خواہش پوری کرلی ہے تو اتنا سا حق دے دیجئے۔

ویسے اعتبار جاں کے تمام ہونے پر اس حق کا جتانا فضول ہی ہے۔

کالم کے دامن میں گنجائش تمام ہونے کو ہے۔ بادیگر عرض کردوں یہ جو کچھ بھی ہے اپنی محنت، سوچ اور لفظوں کا پھل ہے "کرنی" کا بالکل نہیں۔

اس سے ایک سبق پھر ملا کہ توقعات کسی سے نہیں باندھنی چاہیے۔ اس "کسی" میں "سب" شامل ہیں۔ مجھے ابن انشا مرحوم یاد آرہے ہیں ان کا ایک شعر کچھ یوں ہے:

فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے بھر کر سنائی ہو۔

فرض کرو ابھی اور ہو اتنی آدھی نے چھپائی ہو

Check Also

Riyasat Ba Muqabla Imran Khan Aur Do Number Inqelabi

By Nusrat Javed