Dukh Hain Dosto Tamam Dukh
دُکھ ہیں دوستوں تمام دُکھ
سوات و دیر سے طوفانی بارشوں کے بعد کی صورتحال دیکھاتی ویڈیوز دوستوں نے بھجوائیں وہ خاصی پریشان کن ہیں۔ چترال میں بھی حالات اچھے نہیں۔
گزشتہ شام خیبر پختونخوا میں شامل سرائیکی وسیب کے ضلع ٹانک کے ڈپٹی کمشنر نے بھی سیلابی صورتحال کے پیش نظر ضلع میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے پروفیسر ضیاء الدین ضیاء نے اطلاع دی کہ ٹانک کے متعدد دیہاتوں، بھٹوال، چھینہ، براخیل، کالی اور توران میں سیلابی پانی گھروں میں داخل ہوگیا ہے۔ برادر عزیز سید طارق بخاری نے بتایا درابن اور پروا میں تباہی کے مناظر دیکھے نہیں جاتے۔
کچھ دیر بعد اطلاع ملی کہ گرہ بلوچ اور رنوال کے دیہاتوں میں سیلاب کا پانی داخل ہوگیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کا زمینی راستہ بند ہے یوں کہہ لیجئے ٹانک کا زمینی راستہ پورے ملک سے کٹ گیا ہے۔ ہر طرف پانی ہے، ملبہ بنی پختہ نیم پختہ اور کچے مکانوں کا ملبہ ہے۔ ماچس تک پر ٹیکس لینے والا نظام پتہ نہیں شرم سے کسی ندی نالے میں ڈوب مرا ہے یا "ہل من یزید" کے چکر میں ہے۔
ٹانک سے سندھ اور پھر بلوچستان تک سیلاب سے پھیلی تباہی کی وجہ سے دو اڑھائی کروڑ سے زائد افراد بے گھر و بے در ہوئے۔ سرکار کا رویہ حسب سابق ہے۔ بے حسی ہے اور بے شرمی ہے سرکار نے منہ پر ملی ہوئی۔ سوشل میڈیا نے سیلاب کی صورتحال سے محفوظ مقامات پر رہتے شہریوں کو آگاہ کیا۔ انگنت وسیبی اور غیروسیبی دوست نہ صرف بڑھ چڑھ کر امدادی کاموں میں مصروف ہیں بلکہ کچھ تو دوردراز سے سیلاب زدہ علاقوں تک خدمت خلق کے لئے پہنچے ہوئے ہیں۔
ہماری قابل احترام بہن ادی عابدہ بتول کراچی سے سفر کرکے سیلاب زدہ علاقوں میں خدمت خلق کے لئے آئیں۔ ہمارے برادر عزیز اور سرائیکی کے معروف شاعر سید مخمور قلندری اپنے دوستوں کے گروپ کے ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں مصروف عمل ہیں۔ وہ اور ان کے دوست تیز سیلابی پانی کے اندر سے گزر کر متاثرین تک امدادی سامان پہنچارہے ہیں۔
شیراز آفتاب امدادی سامان لے کر اسلام آباد سے ڈیرہ اسماعیل خان کے لئے روانہ ہیں۔ پچھلی شب لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک محترم دوست کے رابطہ کرنے پر انہیں سوجھل دھرتی واس سمیت 2مزید دوستوں کے نام بھجوائے کہ اعتماد کے ساتھ انہیں امداد بھجوادیجئے۔
کچھ دیر قبل ہمارے دیرینہ دوست عبداللہ خان بلوچ نے ہماری درخواست پر خدمت خلق میں مصروف چار افراد کو رقوم بھجوائیں۔ اس آڑے وقت میں کون کہاں کھڑا ہے اس پر بحث کی ضرورت نہیں کوئی مانے یا نہ مانے حقیقت یہ ہے کہ زمین زادوں (سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے) کے حالات ابتر ہیں۔
ان حالات میں چراغ سے چراغ جلانے والے قابل ستائش لوگ ہیں۔ سرائیکی وسیب کی معروف شاعرہ صباحت عروج صاحبہ پچھلے ہفتہ دس دن سے وسیبی بہن بھائیوں کی مدد کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ وسیب اپنی اس لائق صد احترام بیٹی پر کیوں نہ فخر کرے جو سیلاب زدہ علاقوں میں عملی طور پر امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہے۔
تہذیب حافی اور ان کے دوستوں نے بھی آرام ترک کرکے مشکل کی اس گھڑی میں وسیب کے لوگوں کے دکھ بٹانے کا کام شروع کررکھا ہے۔ سوات سے ڈی آئی خان، تونسہ سے روجھان، بلوچستان اور سندھ سے دوست جو تفصیلات فراہم کرتے ہیں انہیں ان دوستوں کو بھجوادیتا ہوں جو شرف انسانی پر کامل یقین رکھتے ہیں۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو سیلاب زدگان کے المیوں کو ڈھکوسلہ اور سوشل میڈیا کا پروپیگنڈہ قرار دے لکھ رہے ہیں۔
خدا ان کے خاندانوں کو کسی آفت سے دوچار نہ کرے البتہ حیرانی بالکل نہیں ہوتی ان کی شقاوت قلبی پر۔ کچھ دوست 2010ء کے سیلاب کے بعض واقعات سناتے ہیں اور کچھ این جی اوز کو کوس رہے ہیں ان کے تجربے اور مشاہدے سے انکار نہیں مگر اس وقت آگے بڑھ کر لوگوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔
سیلاب زدہ علاقوں میں ہر طرف مشکلات ہی مشکلات ہیں لوگوں کو سب سے زیادہ ضرورت خیموں، پینے کے صاف پانی، ادویات اور راشن وغیرہ کی ہے۔
ادھر حالت یہ ہے کہ لاہور میں 4ہزار روپے والے خیمے کی "ہنگامی" قیمت 9ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے۔ "روتے مسلمانی کو"، آدھا ملک سیلاب سے متاثر ہے ان حرام خوروں کو منافع کی پڑی ہے۔
برادرم ساجد خان نے اطلاع دی کہ 4ہزار بتاکر 7ہزار میں جو خیمہ فروخت کرنا چاہتے ہیں وہ ایک بارش بھی نہیں نکال پائے گا کیونکہ خستہ ہے۔ کیسی بدنصیبی ہے کہ ہمارے ہاں آفتوں کے ہر دور میں اخوت، بھائی چارہ، انسانیت سب تیل لینے چلے جاتے ہیں اور منافع خوری کو دوام حاصل ہوتا ہے۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اگر کوئی مسجد، امام بارگاہ اور دوسری عبادت گاہ کے علاوہ سرکاری عمارت سکول وغیرہ محفوظ ہیں تو ان کے دروازے بے گھر ہوئے لوگوں کے لئے کھول دیئے جانا چاہئیں۔
اپنی اپنی بساط کے مطابق سبھی کو آگے بڑھ کر اپنے قرب و جوار میں موجود سیلاب زدگان کی مدد کرنی چاہیے۔ یہ کہنا کہ زیادہ لوگ اس لئے متاثر ہوئے کہ وہ مختلف وجوہات کی بنا پر گھر بار نہیں چھوڑنا چاہتے تھے حالانکہ حکومتی وارننگ موجود تھی۔ اس سے بڑا سفید جھوٹ کوئی نہیں۔
وفاقی وزارت ماحولیات چاروں صوبوں کو پیشگی اطلاع کرچکی تھی لیکن صوبائی حکومتوں نے بروقت انتباہ جاری نہیں کیا۔ کچھ لوگ جو یہ کہتے پھر رہے ہیں (ان میں سندھ اسمبلی کے سپیکر سراج درانی بھی شامل ہیں) کہ حالیہ سیلاب گناہوں کا عذاب ہے۔
ان سے ایک سادہ سا سوال پوچھ لوں، کیاایک کچے مکان میں پانچ سات افراد کے ساتھ مقیم غریب آدمی کے گناہ آغا سراج درانی سے زیادہ تھے کہ اس کا کچا مکان ملبہ بن گیا اور سراج درانی کے محلات محفوظ ہیں؟ اخلاقیات اور صحافتی اقدار مانع نہ ہوں تو جناب سراج درانی کے "شونقوں" پر ایک مفصل کالم لکھ کر لوگوں کو بتائوں کہ اگر عذاب نازل ہوا تو سب سے پہلے سراج درانی اس کی پکڑ اور زد میں آئے گا۔
یہ عذابوں والی بات اصل میں اپنی ذمہ داریوں اور جرائم کی پردہ پوشی کے لئے ہے جو بھی اس طرح کی ڈھکوسلے بازی کرے اس سے پوچھا جانا چاہیے کہ تمہارے گناہ ہم سے کتنے کم ہیں۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ سیلاب متاثرین دربدر ہیں لوگ بلند مقامات، بچی کھچی سڑکوں، ریلوے لائن پر پناہ لئے ہوئے ہیں۔ رضاکارانہ طور پر سیلابی علاقوں میں خدمت خلق میں مصروف جواں عزم نوجوان تو خود کہہ رہے ہیں کہ سوفیصد متاثرین تک امداد پہنچادینے کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔
دنیا بھر کی ریاستیں اپنی افواج کو جنگ کے علاوہ کے ہنگامی حالات سے نبردآزما ہونے کی تربیت دلواتی ہیں ساری دنیا ترقی یافتہ و غیرترقی یافتہ میں افواج آڑے وقت میں اپنے لوگوں کی مدد کے لئے آتی ہیں۔
گو ہمارے ہاں کچھ علاقوں میں فورسز کے اہلکار موجود اور کام کررہے ہیں لیکن 95فیصد متاثرہ علاقوں میں وہ موجود نہیں، کیوں؟ اس سوال کا جواب کچھ تلخ ہوگا۔ این ڈی ایم اے نامی ادارہ فوٹو سیشن اور بریفنگ تک محدود ہے۔
سوشل میڈیا پر اس ادارے کے حوالے سے جو لطاف گردش کررہے ہیں وہ ہیں تو ویسے حقیقت کے قریب۔ لوگ کہتے ہیں یہ ادارہ خدمت خلق کے لئے نہیں غیرملکی امداد ہڑپ کرنے کے لئے بنا ہے۔ اب این ڈی ایم اے کو چاہیے کہ وہ لوگوں کے الزام کو عملی طور پر غلط ثابت کرے۔
حرف آخر یہ ہے کہ گو مہنگائی اور معاشی ابتری سے ہر شخص پریشان ہے لیکن براہ کرم ان نازک حالات میں ایثار کا مظاہرہ کیجئے اپنے حصے کی روٹی میں ان بہن بھائیوں کو شریک کریں جو گزرے کل تک اپنی چھت کے نیچے بستے تھے اب کھلے آسمان کے نیچے بے یارومددگار پڑے ہیں۔