Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Baghawat Ya Ghulami?

Baghawat Ya Ghulami?

بغاوت یا غلامی؟

سوشل میڈیا پر بغاوت یا غلامی؟ کا سوال لکھنے والوں میں ہمارے بہت سارے دوست بھی شامل ہیں۔ ان دوستوں میں بعض حقیقی معنوں میں صاحبان علم و دانش ہیں لیکن افسوس کہ ان میں سے چند ایک مقتل کی کتابوں سے منتخب کردہ الفاظ کے ذریعے لوگوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔

کم از کم میں سیاست میں مذہبی ٹچوں پر یقین نہیں رکھتا مگر بدقسمتی سے یہاں یہی سودا بکتا ہے۔ فقیر راحموں کے بقول اس ملک کی بنیادوں میں مذہبی ٹچز شامل ہیں اس لئے جو بکتا ہے وہی دکھتا بھی ہے اور خوانچہ فروشوں کے لئے منافع بخش بھی ثابت ہوتا ہے۔

کچھ دوستوں کے انقلاب کی باسی کڑی میں ابال آیا ہوا ہے ان کا خیال ہے کہ اب وقت ہے سامراجی نظام پر ضرب کاری لگائی جائے۔ افسوس کہ ان میں سے بہت ساروں کو ہم نے ماضی میں سامراج کے ہاتھ مضبوط کرنے والی تحریکوں کی حمایت کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ بنیادی سوال جو اٹھایا جارہا ہے وہ ہے بغاوت یا غلامی؟

بہت احترام کے ساتھ عرض کروں بغاوت کس کے خلاف کرنی ہے اور کون کرے گا۔ یہ نظام جبر طبقاتی مفادات سے عبارت ہے اس نظام جبر سے بغاوت واجب ہے لیکن کیا لاٹھی اور بندوق اٹھانا ہے یا پرعزم جمہوری جدوجہد میں حصہ ڈالنا ضروری ہے۔

جس بات کو ہمارے ہاں مسلسل نظرانداز کیا جاتا رہا ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی عمل میں مذہبی اصلاحات کا بے دریغ استعمال اصل میں طبقاتی نظام جبر کو مسلط رکھنے کے لئے ہے۔

آپ اس ملک کی دستیاب تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے جب بھی جمہوری شعور کی بیداری محسوس ہوئی کوئی نہ کوئی ایسا مذہبی ٹچ مارکیٹ کیا گیا کہ لوگوں کی توجہ اصل مسائل جدوجہد اور منزل سے ہٹ گئی۔ سو اصل ضرورت لوگوں کی جمہوری شعور اور جدوجہد کی طرف رہنمائی ہے۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ سیاسی کارکن طویل پرعزم سیاسی جدوجہد کرتے ہیں منزل پانے کے لئے انہیں قربانیاں دینا پڑتی ہیں قربانیوں کے حوالے سے ہماری تاریخ میں ہزاروں چراغ چل رہے ہیں۔ تجزیہ اس بات کا کرنا ہوگا کہ اتنی قربانیوں کے باوجود طلوع صبح جمہور کی بجائے ہر گزرنے والے دن کے ساتھ طبقاتی نظام کا شکنجہ سخت تر کیسے ہوتا گیا۔

ایک طالب علم کے طور پر میں یہی سمجھ پایا ہوں کہ اس ملک میں مذہبی طبقات، بالادست اشرافیہ کے مختلف کردار اور اسٹیبلشمنٹ ساجھے دار ہیں۔ اس تگڑم کی اصل کوشش ہمیشہ یہی رہی کہ اقتدار اور وسائل ہاتھ سے نہ نکلنے پائیں۔

چلیں بٹوارے کو اٹھا رکھئے قرارداد مقاصد سے شروع کیجئے سالہا سال آگے بڑھتے آئیں۔ اوراق الٹتے غور سے دیکھئے کہ کب کب اور کس موقع پر عوام کے ساتھ ہاتھ کیا ہوئے اور کس نے کئے۔ عوام سے ہاتھ کرنے والے کردار سبھی کو معلوم ہیں ہمیں جو نسبتاً پسند ہوتا ہے اسے رعایتی نمبر دیتے ہوئے دوسروں کی طرف خاک اچھال دیتے ہیں۔

بغاوت یا غلامی؟ کا سوال پوچھنے والے زیادہ تر دوست یہ سمجھتے ہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کو پڑھنے ڈال دیا ہے۔ یہ وقت ہے کہ عمران خان کا ساتھ دیا جائے۔ ہوسکتا کہ وہ درست کہتے ہوں لیکن کیا عمران خان تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو پڑھنے ڈال دیا؟ وہ تو گزشتہ روز بھی کہہ رہے تھے کہ "جو انتخابات کرواسکتے ہیں میں ان سے مخاطب ہوں الیکشن کروائیں ملک بچائیں"۔

یہ "وہ" کون ہیں جو الیکشن کرواسکتے ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ ہی تو ہے۔ جو شخص اب بھی اسٹیبلشمنٹ کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہا ہو اس کا ساتھ کیوں دیا جائے۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کا دیوتا تو اپنے گھر کے لان میں ادا کی گئی غائبانہ نماز جنازہ سے غائب تھا۔ چلیں یہ ذاتی معاملہ ہے انہیں کسی بزرگ نے کہہ رکھا ہے کہ میت والے گھر اور جنازے میں نہیں جانا۔

ہر شخص میں کوئی نہ کوئی کمزوری فطری طور پر ہوتی ہے یا توہم پرستی کی وجہ سے۔ البتہ میں ان مہربان دوستوں سے متفق نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو پڑھنے ڈال دیا یا دیوار سے لگادیا گیا ہے۔

معاف کیجئے گا حالیہ واقعات سے اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہوئی ہے۔ سیاسی کارکنوں نے کم تعداد میں ہونے کے باوجود ایک لمبی جدوجہد کے ذریعے عملی طور پر یہ ثابت کیا تھا کہ سیاست و جمہوریت اور سیاستدانوں میں یقیناً خامیاں ہوں گی لیکن جو الزامات اڑائے جارہے ہیں یہ مخصوص طبقے کی بالادستی اور لوٹ مار کی پردہ پوشی کے لئے ہیں۔

ہم اس پر بحث نہیں کرتے کہ عمران خان کو کون کن مقاصد کے لئے لایا، مقاصد کیا تھے۔ وہ کس حد تک پورے ہوئے۔ اب یہ تجربہ ہڈی کی طرح گلے میں پھنس گیا ہے یہ سوال بھی نہیں اٹھاتے کہ لوگ تحریک انصاف کیوں چھوڑ رہے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ سوال اٹھایا تو پھر سامنے دیوار پر 2011ء سے ایک سوال لکھا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کو بنایا کیسے گیا۔

ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ سیاسی کارکن بلوائی نہیں ہوتا اور بلوائی سیاسی کارکن نہیں۔ یقیناً ماضی میں سیاسی جماعتوں کے احتجاجوں سے ہنگامے پھوٹے۔ جلائو گھیرائو ہوا لوگوں کا بے پناہ نقصان بھی۔ ان افسوسناک واقعات کی کسی نے بھی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو کچھ ہوا وہ غیرمنظم ردعمل ہرگز نہیں تھا۔

سائفر لہرانے والے دن سے عمران خان اپنی تقاریر، ویڈیو پیغامات اور بیانات سے اپنے حامیوں میں جو نفرت بھر رہے تھے اس نفرت کا لاوا پھوٹا اور جسے وہ اپنے اقتدار کے خاتمے کا ذمہ دار کہہ رہے تھے ان کے ہمدرد ان کی املاک پر ٹوٹ پڑے۔ نتیجہ کیا نکلا؟

خان صاحب تشدد اور جلائو گھیرائو کو ایجنسیوں کے ایجنٹوں کی کارستانی قرار دے رہے ہیں۔ ان کا موقف درست ہے تو پھر شہریار آفریدی سے یاسمین راشد تک، عالیہ حمزہ سے ان کے بھانجے حسان نیازی تک یہ سارے لوگ ایجنسیوں کے ایجنٹ کہلائیں گے کیونکہ لوگوں کو اکسانے پتلونیں لہرانے اور فتح مبین کے گیت گانے والے یہی لوگ تھے۔

خان صاحب نے تو یہ کہہ کر دامن جھاڑ لیا کہ یہ سب ایجنسیوں کا کیا دھرا ہے۔ ان کے اس موقف کا تجزیہ کرنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ ان کی ایک بات کبھی دوسری بات سے نہیں ملی۔ انہوں نے ہمیشہ پہلی بات کے جواب میں جو دوسری بات کہی اس پر یوٹرن کی پھبتی کسی گئی۔

سپریم کورٹ میں لائے جانے کے بعد سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر حفاظتی رخصتی تک انہوں نے کم از کم تین بار کھلے انداز میں کہا جس طرح مجھے گرفتار کیا گیا اس کا ردعمل آنا تھا۔ اب بھی گرفتار کریں گے تو شدید ردعمل آئے گا۔ سادہ سی بات ہے کہ 9 مئی اور اگلے دن کا ردعمل عین ان کی خواہش کے مطابق تھا یہ خواہش ہوائی تھی یااس کی پیشگی منصوبہ بندی ہوچکی تھی؟

ایک گزشتہ کالم میں تفصیل کے ساتھ عرض کرچکا کہ جو کچھ ہوا باقاعدہ منصوبہ بندی سے ہوا اور منصوبہ پہلے سے طے تھا۔ طاقت کے اس بے رحم مظاہرے کو بھلا کوئی بھی نام دیجئے اور جو جی میں آئے کہہ ڈالئے لیکن تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ منہ زور طاقت کے اس مظاہرے سے جمہوری جدوجہد کے عمل کو بے پناہ نقصان ہوا پسپا ہوئی اسٹیبلشمنٹ مزید مضبوط ہوکر فرنٹ فٹ پر آگئی۔ یہ بہرطور اس سے بھی زیادہ نقصان ہے جو اشتعال سے ہوا۔ یہی سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اب کیا ہوگا یہ سب پر عیاں ہے بس الفاظ کی جادوگری سے جی بہلایا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر خان صاحب کے ایک ارشاد "آئی ایس پی آر سیاسی بیان مت دو شوق ہے تو سیاسی جماعت بنالو" کے جواب میں لطیفہ گردش کررہا ہے، "بنائی تو تھی جماعت اسی تجربے کو بھگت رہے ہیں"۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے۔

پی ٹی آئی کی نشاط ثانیہ کے خالق اصل جنرل پاشا سے اس کے فاتح کابل جنرل فیض حمید تک نے اس جماعت کو بنانے منوانے لوگوں کا ہانکا کرنے، انتخابی مینجمنٹ سے اقتدار دلوانے کے لئے تاریخ ساز خدمات سرانجام دی ہیں۔

پڑھنے والوں میں سے کچھ ناراض ہوں گے مگر کڑوا سچ یہ ہے کہ عمران خان سیاسی فہم و فراست سے محروم شخص ہیں۔ انانیت تکبر گھمنڈ مجھے سب معلوم ہے کا زعم اور اپنی ایک دن کہی بات کے سو فیصد الٹ بات دوسرے دن کبھی دوسرے سانس میں کردینا یہی ان کی شہرت اور شناخت و تعارف ہے۔

مکرر عرض کرتا ہوں کہ نفرت سے بھرے جس ردعمل کو وہ سال بھر سے پروان چڑھاتے ہوئے یہ سمجھ رہے تھے کہ بس انہوں نے جھٹکا دینا ہے ریاست ان کے قدم چوم رہی ہوگی امان امان کی صدائیں بلند ہورہی ہوں گی ایسا نہیں ہوا بلکہ یہ تجربہ ان کے گلے کا "ہار" بن گیا ہے۔

اس تجربے کے نتائج ان جذباتی نوجوانوں کو بھگتنا ہوں گے جو دیوتا کی محبت میں آگ میں کودے تھے۔ غلطی ان جذباتی نوجوانوں کی ہے دیوتا تو غلطی نہیں کرتے۔

Check Also

Wada

By Mubashir Aziz