Azad Kashmir Ke Wazir e Azam Ki Na-Ehli
آزاد کشمیر کے وزیراعظم کی نااہلی
آزاد کشمیر ہائیکورٹ نے ریاستی وزیراعظم سردار تنویر الیاس کو توہین عدالت کا مرتکب ہونے پر نااہل قرار دے دیا۔ ہائیکورٹ کے فیصلے سے تنویر الیاس وزارت عظمیٰ اور قانون ساز اسمبلی کی نشست سے محروم ہوگئے۔ فیصلہ سناتے ہوئے ہائیکورٹ کے فل بنچ نے یہ بھی کہا کہ آپ کا سابقہ ریکارڈ اچھا نہیں رہا۔
ہائیکورٹ کے فیصلے پر نااہل ہونے والے ریاستی وزیراعظم کو گزشتہ روز توہین عدالت کے الزام میں آزاد کشمیر سپریم کورٹ میں بھی طلب کیا گیا تھا جہاں انہیں جواب دینے کے لئے 15 دن کی مہلت دی گئی۔
سردار تنویر الیاس پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ریاستی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے وہ عبدالقیوم نیازی کی کابینہ میں سینئر وزیر تھے بعدازاں قیوم نیازی کی جگہ وزیراعظم بنوائے گئے۔ سینئر وزیر بلکہ اسمبلی کی رکنیت سے وزارت عظمیٰ تک کے تیز رفتار سفر اور کامیابیوں بارے موجود کہانیوں کے ساتھ دلچسپ بلکہ عبرت بھری ایک کہانی وزیراعظم ہائوس کے سکیورٹی سٹاف کی (ایک واقع کی وجہ سے) معطلی بھی ہے۔
تنویر الیاس مست موالی آدمی ہیں منہ کی بات دل میں رکھنے کی بجائے کہہ دیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ فائدہ اور نقصان کتناہوگا۔ تبدیلی پسند انقلابی تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ عدالتی فیصلہ پاکستانی ریاست کے اصل مالکان کے ایما پر ہوا ہے۔
پچھلی سپہر جب سے تنویر الیاس کی نااہلی کا فیصلہ آیا تو تجزیہ نگاروں کی لاٹری نکل آئی۔ مختلف اقسام کے دعوئوں کے بیچوں بیچ حبیب اکرم کہہ رہے ہیں یہ انتظام کافی دنوں سے چل رہا تھا۔
ویسے تو اگر اسلام آباد میں کی گئی ایک تقریر پر ریاستی عدالت میں کارروائی بنتی ہے تو ریاستی ہائیکورٹ تھوڑی سی ہمت کرکے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ان مجاہدین آزادی و تبدیلی کو ضرور طلب کرے جو یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ آزاد کشمیر ہائیکورٹ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے مقاصد کے لئے استعمال ہوا۔
ہم آگے بڑھتے ہیں۔ منگل 11 اپریل کو آزاد کشمیر کے وزیراعظم (اب نااہل) تنویر الیاس کو ایک جیسے الزام میں ریاست کی دونوں بڑی عدالتوں نے طلب کیا۔ آزاد کشمیر ہائیکورٹ کے فل بنچ نے چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق سزا سنائی۔ نااہل کیا اور قصہ ختم۔ جبکہ آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے چارج شیٹ پڑھ کر سنائی ان کی بات سنی غالباً معافی نامے کو مقدمے کا حصہ بنایا اور 15 دن کے اندر تفصیلی جواب جمع کرانے کی مہلت دے کر سماعت ملتوی کردی۔
سوال بہت سادہ ہے کیا ایک جیسے الزامات میں ایک ہی دن ریاست کی دونوں بڑی عدالتوں میں وزیراعظم کو طلب کیا جانا درست تھا؟ کیا مناسب نہ ہوتا کہ ہائیکورٹ میں مقدمہ انجام کو پہنچ جاتا وہ اپیل میں سپریم کورٹ جاتے۔ ہائیکورٹ کے فل بنچ نے انہیں نااہل کردیا (فقیر راحموں کے بقول جھٹکا کردیا) اور سپریم کورٹ نے 15 دن میں جواب جمع کرانے کی مہلت دیدی۔ تنویر الیاس پر الزام ہے کہ انہوں نے عدالتی حکم امتناع پر اسلام آباد میں تقریر کی پھر ریاستی اسمبلی میں بھی کھل کر اپنے موقف کااظہار کیا۔
8 اپریل کو اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ریاستی عدلیہ حکومت کے کام کو متاثر کررہی ہے۔ حکم امتناع کے ذریعے ایگزیکٹو کے اختیارات میں مداخلت کی جارہی ہے۔ ان کے اس جملے کی بھی دونوں عدالتوں میں بازگشت سنائی دی کہ "جب آپ ہماری ڈومین میں گھسیں گے تو ہم آپ کو نہیں چھوڑیں گے"۔
ریاستی ہائیکورٹ میں انہیں فرد جرم پڑھ کر سنائی گئی اور پوچھا گیا کیا وہ الزامات کا سامنا کریں گے؟ تنویر الیاس نے خود کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے اپنی تقاریر پر معافی مانگ لی معافی مسترد کرتے ہوئے نااہلی کا فیصلہ سنایا گیا البتہ انہیں سپریم کورٹ میں اپیل کا حق ہوگا۔
مکرر عرض ہے ایک جیسے الزامات میں ایک ہی وقت میں دو بڑی عدالتوں میں توہین عدالت پر طلب کرنا قانون کے عین مطابق ہے؟ کیا ریاستی ہائیکورٹ اس امر سے لاعلم تھا کہ اسی طرح کے الزام میں ریاستی وزیراعظم سپریم کورٹ بھی طلب کرلئے گئے ہیں۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ ہائیکورٹ کا فل بنچ چارج شیٹ سنائے جانے کے بعد جواب کے لئے مہلت دے کر کارروائی ملتوی کردیتا۔ یہ بہترین طریقہ ہوتا کیونکہ سپریم کورٹ نے انہیں جواب دینے کے لئے 2 ہفتے کی مہلت دی تھی لیکن ہائیکورٹ میں جس انداز میں کارروائی کو آگے بڑھایا گیا اس پر سوالات اٹھ رہے ہیں صرف سوالات ہی نہیں بلکہ بعض تجزیہ نگار اس معاملے کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی خواہش کی تکمیل کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ فیصلہ ہوچکا تھا بس کارروائی اور پڑھ کر سنانے کا عمل مظفر آباد میں ہوا۔
تجزیہ نگار ایسا کیوں کہہ رہے ہیں اس پر بحث اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ جس بنیادی بات کو یکسر نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کے نااہل قرار دیئے جانے والے وزیراعظم نے اپنی تینوں تقاریر (یہ تقاریر عدالتی چارج شیٹ کا حصہ ہیں) میں یہ کہا کہ عدالتیں حکم امتناعی جاری کرکے حکومتی معاملات میں مداخلت کرتی ہیں جس سے کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ بظاہر یہ غلط بات بھی نہیں لامحدود مدت کے لئے حکم امتناعی ہو یا کچھ عرصہ کے لئے اس سے فرق تو پڑتا ہے۔ بسا اوقات حکم امتناعی دے کر عدالت بھول بھی جاتی ہے۔ ہم بھول جانے والی بات کو دو طرح سمجھ سکتے ہیں۔
مثلاً شہباز شریف، دوست محمد کھوسہ کے بعد پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے تو قانونی سوال اٹھا کہ پہلی نشست سے مستعفی ہوئے بغیر انہوں نے صوبائی اسمبلی کی دوسری نشست پر حلف لیا اور وزیراعلیٰ بن گئے دوسری نشست بھکر سے تھی۔
شہباز شریف کے وکیل اکرم شیخ الیکشن کمشن کی کارروائی رکوانے کے لئے حکم امتناعی لے آئے یوں 2013ء کے انتخابات کے لئے نگران کابینہ بننے تک شہباز شریف عدالتی حکم امتناعی کے ذریعے وزیراعلیٰ رہے۔ اس حکم امتناعی پر جب بہت زیادہ شور ہوا تو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے من پسند صحافیوں کو رجسٹرار آفس کا دورہ کروا کر مرضی کی خبریں لگوالیں۔
اسی طرح کا دوسرا واقعہ قومی اسمبلی کے سابق ٹائیگر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کا ہے وہ جعلی ووٹوں سے رکن قومی اسمبلی بنوائے گئے الیکشن ٹربیونل میں ان کی جعلسازی ثابت ہوئی فیصلہ ان کے خلاف آیا، ان کے وکلاء نے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی لے لیا اور وہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر آئین سے کھلا کھلواڑ کرنے کے بعد مستعفی ہونے کے وقت تک حکم امتناعی کے سہارے قومی اسمبلی پر مسلط رہے۔
حکم امتناعی سے پیدا ہوئے مسائل کی درجنوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ حکومتیں اکثر شاکی رہتی ہیں کہ ایسے ایسے معاملات پر ازخود نوٹس لیا اور حکم امتناعی جاری کیا جاتا ہے جو غیرضروری ہوتے ہیں اور ان فیصلوں کی وجہ سے آگے چل کر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ تنویر الیاس کے انداز بیاں پر گرفت کی جاسکتی ہے لیکن یہ انداز بیاں ان کا معمول ہے۔ اسمبلی کی تقریر چارج شیٹ کا حصہ نہیں بن سکتی باقی جن 2 تقاریر پر توہین عدالت کی کارروائی ہوئی (کارروائی تین تقاریر پر ہوئی ہے) انہیں بغور دیکھنے اور پس منظر کو مدنظر رکھنے کی بھی ضرورت تھی۔
آپ اختلاف کرسکتے ہیں لیکن مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ رکن اسمبلی لوگوں کے ووٹوں سے بنتا ہے اور قائد ایوان اپنی پارلیمانی پارٹی کے ووٹوں سے۔ اسی طرح جج ہمارے نظام میں جس طرح بنتے ہیں وہ طریقہ کار سب کے سامنے ہے۔
یہ منصب ایک طریقہ کار پر عمل کرکے ملتے ہیں عطیہ الٰہی ہرگز نہیں اور اگر عطیہ الٰہی ہیں تو پھر الٰہی انعام کے ایک منصب پر فائز شخص دوسرے کو الٰہی انعام سے محروم کیسے کرسکتا ہے؟ یہ بات بات پر مذہب اور خدا کو درمیان میں لانا غیرضروری ہے۔ انسان اپنے کرموں، کوششوں اور حلقہ اثر کی بدولت آگے بڑھتا ہے۔ بات کچھ دور نکل گئی۔۔
دوبارہ یہ عرض کروں گا کہ ایک جیسے الزام میں ایک ہی وقت میں دو بڑی عدالتوں میں کارروائی سے اچھا تاثر پیدا نہیں ہوا۔ ریاستی ہائیکورٹ کے فل بنچ کو سپریم کورٹ والا راستہ اختیار کرنا چاہیے تھا۔
بہت ادب کے ساتھ یہ عرض کروں گا کہ اس طرح کے چٹ منگنی پٹ بیاہ کے مصداق فیصلے جنرل ضیاء الحق کی فوجی عدالتوں میں ہوتے تھے۔
مناسب ترین عمل یہی تھا کہ جب سپریم کورٹ میں اسی نوعیت کی کارروائی ہورہی تھی تو ہائیکورٹ میں نہ کی جاتی یا پھر ہائیکورٹ سے بھی یہ معاملہ سپریم کورٹ میں بھیج دیا جاتا۔ انصاف ہوا، قانون جیتا۔ کسی کی خواہش حکم بنی ان باتوں سے ہمارا کچھ لینا دینا نہیں ہمارا سوال بس اتنا ہے کہ کیا ایک ہی وقت میں دو عدالتوں میں کسی ایک معاملے کی سماعت قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے؟
پسِ نوشت: آزاد کشمیر کے نااہل قرار دیئے گئے وزیر اعظم تنویر الیاس کی اپیل ریاستی سپریم کورٹ نے بدھ کو مسترد کردی چیف جسٹس برہم تھے کہ پرائم منسٹر سردار تنویر کیوں لکھا ہے یہ بھی کہا یہ سپریم کورٹ ہے کوئی مذاق نہیں۔