Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Andhe Kunwe Ka Rizq Bani Khidmat

Andhe Kunwe Ka Rizq Bani Khidmat

اندھے کنویں کا رزق بنی خدمت

وزیراعظم شہباز شریف نے چند دن کے وقفے سے اس امر کا پھر اعادہ کیا ہے کہ آئندہ ماہ (اگست میں) مدت پوری ہونے سے قبل چلے جائیں گے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میاں نوازشریف کو پھر موقع ملا تو پاکستان کا نقشہ بدل دیں گے۔ وزیراعظم نے پی ٹی آئی کے سربراہ اور سابق وزیراعظم عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اپنے دور میں ایک اینٹ نہیں لگائی البتہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف چیلنجنگ ہے کوئی دودھ پیڑہ یا لڈونہیں روپیہ تگڑا ہوا تو پٹرولیم پر ریلیف دیا۔ یہ کہتے ہوئے غالباً انہیں یاد نہیں رہا کہ پٹرولیم مصنوعات میں ریلیف دے کر حکومت نے دوسری طرف بجلی کے فی یونٹ قیمت میں 4روپے 96پیسے اضافہ کرکے مستقلاً 500ارب روپے کی اضافی آمدنی کا بندوبست بھی کرلیا ہے۔

پی ڈی ایم اور اتحادیوں نے سابق وفاقی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاتے وقت عوام کو بتایا سمجھا تھا کہ اگر اس حکومت کو رخصت کرنے میں مزید تاخیر برتی گئی تو پاکستان ناکام ریاستوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر دیکھائی دے گا، اس وقت مہنگائی اور دوسرے مسائل پر اٹھتے بیٹھتے یہی کہا جاتا تھا کہ ناتجربہ کاروں نے ملک کی لُٹیا ڈبودی ہے۔

گزشتہ سوا برس میں اس ڈوبی ہوئی لُٹیا کونکالنے اور پار لگانے کے لئے پی ڈی ایم اور اتحادیوں نے کیا کارنامے انجام دیئے ماسوائے اس کے کہ حکومت کے وزیر خزانہ عالمی مالیاتی ادارے سے الجھتے رہے اور بالآخر "اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینی پڑی"۔

جن شرائط پر گیارہ ماہ کی بھاگ دوڑ اور کھیچل کے بعد آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوا انہیں ابتدا ہی میں تسلیم کرنے میں کیا امر مانع تھا؟

قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے سے قبل چلے جانے کی نوید خوش آئند ہے اسمبلی مدت پوری کرنے پر آئینی طور پر تحلیل ہوتی ہے تو قوانین کے مطابق 60دن میں انتخابات کا انعقاد لازم ہے لیکن اگر آئینی مدت سے چند دن قبل تحلیل کردی جاتی ہے تو انتخابی عمل 90دن میں مکمل کرانا ہوگا اس طور اگر مقررہ مدت سے قبل اسمبلی اور حکومت تحلیل کرنے کے حوالے سے موصولہ اطلاعات کا تجزیہ کیا جائے تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم اور اتحادی 60دن کی بجائے 90دن میں انتخابی عمل کا انعقاد چاہتے ہیں۔

اضافی وقت لینے میں کوئی آئینی پابندی یقیناً نہیں ہے پھر بھی مختلف الخیال حلقوں کی جانب سے یہ کہا جارہا ہے کہ پی ڈی ایم اور اتحادی اس امر کے خواہش مند ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور نگران حکومت انتخابی فضا کو ان کے حق میں بہتر بنانے کے لئے اقدامات کریں گے۔

اس ضمن میں سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان یہ کہتے دیکھائی دیتے ہیں کہ ان کے مخالفین اس وقت تک انتخابات نہیں ہونے دیں گے جب تک انہیں یہ گارنٹی نہ مل جائے کہ انتخابی عمل عمران کے بغیر ہوگا۔

عمران خان اس موقف کا اظہار کیوں کررہے ہیں اس کی بادی النظر میں بڑی سیدھی سادی وجہ ہے وہ یہ کہ ہمارے ہاں عمومی روایت یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے اقتدار سے نکالے گئے چہروں کو اگلے انتخابات میں واپسی کا راستہ کبھی نہیں دیا گیا۔

گو کہ فی الوقت اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار ہونے کی دعویدار ہے مگر اس کی حقیقت انتخابی معرکے کے دوران ہی دوچند ہوگی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ سابق وزیراعظم نے اپنے دور میں ایک بھی نئی اینٹ نہیں لگائی بلکہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔

اس حوالے سے عمران خان اور ان کی جماعت کا موقف یکسر برعکس ہے ان کا کہنا ہے کہ انہیں (ن) لیگ سے تباہ حال ملک اور معیشت ملی جسے کورونا کے باوجود ان کی حکومت نے خوش اسبولی سے سنبھال لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ سابق حکمران قیادت کے پاس دو تین اہم سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں ہے

اولاً یہ کہ ان کے دور میں ملکی تاریخ کا سب سے زائد بیرونی قرضہ کیوں لیا گیا؟ ثانیاً کورونا وبا کے دنوں میں ملی بیرونی امداد کے تھرڈ پارٹی آڈٹ کے وعدے سے انحراف کرکے 12 سو ارب روپے کے گھپلوں کے ذمہ داران کو تحفظ کیوں فراہم کیا گیا؟ ثالثاً یہ کہ آئی ایم ایف سے 2021ء میں طے پانے والے معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے محض واہ واہ سمیٹنے کےلئے پٹرولیم اور بجلی پر سبسڈی دے کر ملک کے لئے مشکلات کیوں پیدا کی گئیں؟

اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے دور میں کوئی میگا پراجیکٹ شروع نہیں ہوسکا۔ احساس پروگرام میں توسیع اور سماجی خدمت میں مصروف تنظیموں کے تعاون سے لنگرخانوں کے قیام کو دلکش خدمات کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس امر کو نظرانداز کردیا گیا کہ امدادی پروگرام تعمیروترقی میں معاون ہوتے ہیں نہ ہی ان سے معیار زندگی بہتر ہوتا ہے ایک کروڑ نوکریاں دینے کے تواتر کے ساتھ اعلانات کے باوجود اس ضمن میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔

اقوام متحدہ میں کی گئی بعض تقاریر اور ریاست مدینہ جیسی ریاست بنانے کے اعلانات سے جذباتی فضا پیدا کرکے لوگوں کی اصل مسائل سے توجہ ہٹائی گئی۔ آج بھی عمران خان کے پاس مستقبل کے حوالے سے قابل عمل پروگرام نہیں ہے۔

اگلے دن بھی نیٹ پر خطاب کے دوران وہ یہ کہتے دیکھائی دیئے کہ اگر دوبارہ اقتدار ملا تو ریاست مدینہ جیسا مساوات پر مبنی نظام لائیں گے۔ پونے چار برسوں کی وزارت عظمیٰ کے دور میں مساوات پر مبنی نظام کیوں نہ لایا جاسکا؟

اسی طرح انہیں اس سوال کا جواب بھی دینا چاہیے کہ ان کے اہل خانہ عزیزوں اور بااعتماد رفیقوں پر کرپشن و کمیشن کے جو الزامات لگے انہوں نے اپنے دور میں ان کی آزادانہ تحقیقات سے گریز کیوں کیا؟

پی ڈی ایم و اتحادیوں کی حکومت کی اب تک کی کارکردگی کو مایوس کن بھی سمجھ لیا جائے تو بھی اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ تحریک انصاف نے اپنے دور میں جو کانٹے بوئے وہ چنے نہیں جاسکے۔ اس پر ستم اس کی ٹکرائو کی پالیسی رہی۔

نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت 2014ء سے ڈی چوک کے کنٹینر پر ہی کھڑی ہے جذباتی تقاریر وعدے، اوئے توئے اور للکارے ان کی سیاست کے اعلیٰ وصف یہی ہیں

تلخ ترین حقیقت یہی ہے کہ پی ٹی آئی ہو یا پی ڈی ایم ا ور اتحادی دونوں نے عوام کو مایوس ہی کیا۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہوا۔ مہنگائی، غربت، بیروزگاری کی شرح میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آیا ستم بالائے ستم یہ کہ پی ٹی آئی کے ذمہ دار رہنما آئی ایم ایف سے کہتے رہے موجودہ حکومت سے معاہدہ نہ کریں۔

اندریں حالات یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دستیاب سیاسی جماعتوں کو عوام سے زیادہ اشرافیہ کے ان طقبات کی فکر رہتی ہے جو ان کے انویسٹر ہیں۔ پی ٹی آئی کے پونے چار برسوں کی طرح موجودہ حکومت کے سوا برس کے دوران ان بالادست طبقات کی ناز برداری میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی گئی۔

امسال کے بجٹ میں لگ بھگ اڑھائی ہزار ارب روپے اشرافیہ کے اللوں تللوں کے لگے رکھے گئے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لاد دیا گیا اس کے باوجود سابق و موجودہ حکمرانوں کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے عوام کی خدمت کی۔ سوال یہ ہے کہ وہ خدمت آخر کس اندھے کنویں کا رزق ہوئی؟

Check Also

Khadim Hussain Rizvi

By Muhammad Zeashan Butt