Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ghulam Abbas Saghar
  4. Haqiqi Azadi Kya Hai

Haqiqi Azadi Kya Hai

حقیقی آزادی کیا ہے

اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزاد پیدا کیا اور انسان کی فلاح کے لئے ہر دور میں پیغمبر اور رسول بھیجے جو انسان کو سیدھا راستہدیکھانے میں مصروف عمل رہے۔ حصرت آدم سے خاتم الانبیاء حصرت محمد ﷺ تک کم و بیش ایک لاکھ جوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں آئے سب کے سب اللہکا پیغام انسانیت تک پہنچاتے رہے۔ ہر نبی کوئی نا کوئی معجزہ یا کرامت لے کر آیا۔

کسی نے انسانیت کی بات کی۔ کسی نے طرزحکومت کی۔ کسی نے نفع نقصان کی۔ مگر ہمارے نبی حصرت محمد ﷺ رہتی دنیا تک کے لئے مکمل دین اسلام کی صورت میں۔ مکمل نظام شعریت محمدی کی صورت میں اور مکمل ہدایت قرآن کی صورت میں لے کر آئے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آج مسلمان اغیار کی چال میں آ کر آپس میں ہی ایک دوسرے کے دشمن بنے بیٹھے ہیں۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ (2:75 Al-Baqara) اے مسلمانو، کیا تم یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ (یہودی) تم پر یقین کر لیں گے جبکہ ان میں سے ایک گروہ کے لوگ ایسے (بھی) تھے کہاللہ کا کلام (تورات) سنتے پھر اسے سمجھنے کے بعد (خود) بدل دیتے حالانکہ وہ خوب جانتے تھے (کہ حقیقت کیا ہے اور وہ کیا کررہے ہیں)۔ اسلام وہ دین ہے جس نے مکمل سیاسی اور معاشی آزادی کی بات کی ہے۔

مگر کیسی آزادی ایک نظر کشمیر، فلسطین، یمن، عراق، شام، اور کسی حد تک پاکستان پر بھی ڈال لیں۔ وجہ صرف یہ کہ اغیار جانتے ہیں کے اگر سب مسلمان اکھٹے ہو گئے تو دنیا پریہ راج کریں گے۔ مگر ہم اکھٹے ہونے کے لئے تیار بھی نہیں۔ اسلام نے ایک جمہوری فلاحی ریاست کا نظام دیا ہے مگر ہم آمریتی نظام میں جی رہے ہیں جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ہم اسلام سےدور ہو گئے اور انسانیت سے بھی۔

اسلام آنے کے بعد یزید نے آمریت قائم کرنے کی کوشش کی مگر حضرت امام حسین نے یزید کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی بلکہ اسسے بغاوت کی، یزید ایک نام تھا۔ جو آج بھی ظالم جابر آمر کے عنصر سے یزیدیت کے نام پر جانا جاتا ہے۔ آپ حصرت محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا مگر دین کی تبلیغ کی ذمہداری ہم سب پر عائد کی گئی۔ اسلام کی قدروں کونقصان سے بچانے کے لئے ہم سب نے کلمہ حق بلند کرنا ہے۔

حصرت موسیٰ کو جب اللہ نے نبوت عطا کی تو سب سے پہلے دین، نماز روزے کا حکم نہیں دیا بلکہ ظالم حکمران فرعون کے خلافآواز حق بلند کرنے کو کہا، قرآن پاک میں ارشاد ہے۔ (20:47 Taa-Haa) پس تم دونوں (موسیٰ اور ہارون)اس کے پاس جاؤ اور کہو، ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے (رسول) ہیں سو تو بنی اسرائیل کو (اپنی غلامی سے آزاد کرکے) ہمارے ساتھ بھیج دے اور انہیں (مزید) اذیت نہ پہنچا۔

بیشک ہم تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے نشانی لےکر آئے ہیں، اور اس شخص پر سلامتی ہو، جس نے ہدایت کی پیروی کی، آزادی ایک ایسا مفہوم ہے۔ جس سے تمام انسان مانوس ہیں، اور آزادی سے انسان کی یہ انسانیت اور دلچسپی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ آزادی سے یہ لگاؤ، سرمایہ داری یا سوشلزم کے جدید طرز فکر کا بھی نتیجہ نہیں ہے۔

بلکہ انسان کی فطرت میں آزادی سے محبت موجود ہے، اور تاریخ کے ہر دور میں اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ انسان کی کہانی ہی آزاد رہنے اور خود کو آزاد کروانے کی جنگ معلوم ہوتی ہے۔ البتہ اس جنگ کے طریقہ اور مقاصد میں طرز فکر کے اختلاف کی وجہ سے فرق پایا گیا ہے۔ حتی کہ آزادی کے سلسلے میں بعض نظریات، انسان کو غلامی کی انتہا تک پہنچا دیتے ہیں۔

آزادی سے اس لگاؤ کی وجہ انسان میں فطری طور پر موجود ہے۔ جسم اور روح کا مجموعہ یہ انسان "ارادے" کا بھی مالک ہوتا ہے۔ اور اسی ارادے کی وجہ سے وہ آزادی کو پسند کرتا ہے اور اس کا طلب گار ہوتا ہے۔ انسان جس طرح اس بات کو ناپسند کرتا ہے کہ اس کے اعضاء کام کرنا چھوڑ دیں، اسی طرح فطرتاً وہ اپنے ارادے پر پابندی بھینا پسند کرتا ہے۔

البتہ انسان شروع سے اس بات کو تسلیم کرتا چلا آرہا ہے کہ ایک منظم معاشرے میں زندگی گزارنے والے عام انسان کو مکمل اور بے لگام قسم کی آزادی نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ معاشرے میں ہر فرد کی مکمل آزادی یا بے لگامی سے دوسرے افراد کی آزادی ختم ہو جاتی ہے۔ اس طرح معاشرے کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ انسان کو اس کی آزادی کا حصہ اسی صورت میں مل سکتا ہے۔

جب کہ ہر ایک انسان دوسرے کی آزادی میں دخل دینے سے پرہیز کرے۔ اس کے لئے اسے اپنی آزادی کو کچھ محدود کر دینا پڑتا ہے، اور اس طرح سے معاشرے میں کچھ ایسے قوانین فروغ پا جاتے ہیں۔ جن سے معاشرے میں نظم و ضبط قائم ہو جاتا ہے۔ آج ہمیں اسلام کی قدروں کا دفاع کرنا ہو گا۔ ظلم کی خلاف آواز ااٹھانی ہو گی آمریت کو کچلنا ہو گا، اور اس جمہوری نظام کو ختم کرنا ہو گا۔

جس میں غریب امیر برابر نہیں، اللہ تعالیٰ اہل اسلام اور ملک پاکستان کی خیر کرے اور پاک فوج جیسے دفاعی ادارے کی حفاظت فرمائے۔ آمین

Check Also

Kya Sinfi Tanaza Rafa Hoga?

By Mojahid Mirza