Monday, 23 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Furqan Qureshi
  4. Quran Aur Ehad e Qadeem

Quran Aur Ehad e Qadeem

قرآن اور عہد قدیم‎‎

سورۃ طٰہ کی آیت نمبر 128 جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسَاكِنِهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّأُوْلِي النُّهَى" جس کا اردو ترجمہ کچھ ایسے کیا گیا ہے۔ "کیا ان لوگوں کے لیے یہ بات بھی ہدایت کا باعث نہ ہوئی کہ ہم ان سے پہلے بہت سے لوگوں کو ہلاک کر چکے ہیں جن کے رہنے کے مقامات میں یہ چلتے پھرتے ہیں، اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں "۔

اس آیت میں قرون کا عمومی اردو ترجمہ بستیاں یا لوگ کیا گیا ہے، محاوراتی طور پر تو یہ ترجمۃ صحیح ہے کیوں کہ اس ترجمے سے ان بستیوں اور اقوام کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جن پر اللہ کا عذاب آیا جیسا کہ قوم لوط یا قوم عاد اور ان کی بستیاں وغیرۃ۔ لیکن قرون کا لفظی مطلب نہ ہی بستی ہوتا ہے نہ ہی لوگ بلکہ عربی زبان میں قرن کا مطلب ایک دور، ایک عہد، ایک صدی یا ایک زمانہ ہوتا ہے اور قرون اس ہی کی جمع ہے یعنی زمانے، عہد اور ادوار اور اس ہی سے اردو میں قرون اولیٰ یا قرون وسطیٰ جیسے الفاظ آئے۔ ایسے ہی سورۃ قصص کی آیت 45 میں بھی قرون کا لفظ لمبے عرصے یا طویل مدت کے لیے آیا ہے۔ یعنی کہ اس آیت کا لغوی اعتبار سے ترجمہ کچھ ایسے ہو گا کہ "کیا ان کے لیے اس میں بھی ہدایت نہیں ہے کہ کیسے ہم نے ان سے پہلے کے عہد ہلاک کر دیئے جن کے رہنے کی جگہوں میں یہ چلتے ہیں، اس میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں "۔

اب آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ انسان سے پہلے واقعتاً کئی عہد گزرے ہیں اور اس سے بھی زیادہ حیرت کہ وہ عہد خود ہی سے ختم نہیں ہو گئے بلکہ ہلاک ہوئے تھے۔ اس زمین پر پانچ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جنہیں انگریزی میں mass extinctions کہا جاتا ہے یعنی ایسے واقعات کہ جس میں زمین میں رہنے والے جانداروں کی % 70 سے زیادہ آبادی ہلاک ہو گئی۔ جس کا میں اردو میں مختصراً تعارف لکھوں گا تاکہ وہ آپ پر واضح ہو جائیں۔

آج تک دنیا میں جتنی بھی مخلوقات پیدا ہوئی ہیں ان میں سے % 90 سے زیادہ مخلوقات اب معدوم ہو چکی ہیں مثال کے طور پر وولی میمتھ یعنی کہ لمبے بالوں والا ہاتھی، آئیرش ایلک یعنی عظیم الجثہ ہرن، جاوا ٹائیگر، ڈوڈو بطخ، گرے وہیل، سفید تتلیاں تو ماضی قریب کی مثالیں ہیں جبکہ، باسیلوسارس مگرمچھ، اینٹیلوڈون سؤر، میگالوڈون شارک، گلیپٹوڈون کچھوا، دیوقامت میگاتھیریم چوہے، خوفناک دکھنے والے ٹیرر برڈ، سمیلوڈون شیر اور ٹائیٹینوبوا جیسے اژدھے قدیم مثالیں ہیں۔

پہلی عظیم ہلاکت 44 کروڑ سال پہلے ہوئی اور اس عہد کا خاتمہ ہوا جسے ordovician پیریڈ کہا جاتا ہے۔ ایسے ہی دوسری عظیم ہلاکت 36 کروڑ سال پہلے ہوئی جس میں 75 فیصد مخلوقات ہلاک ہو گئیں اور devonian عہد کا خاتمہ ہوا۔

تیسرا عہد جسے permian کہتے ہیں کا خاتمہ 25 کروڑ سال قبل ہوا اور اسے great dying بھی کہتے ہیں کیوں کہ اس میں تقریباً 96 % جاندار ختم ہو گئے تھے یا پھر ہر چار میں سے تین جاندار مر گئے۔ اس کی وجہ سائیبریا سے 7 لاکھ کیوبک میل کے رقبے سے نکلنے والا لاوا تھا جس کی اہمیت کے بارے میں آگے چل کر لکھوں گا۔

چوتھی معدومیت jurrasic عہد کی تھی جو قریباً 20 کروڑ سال پہلے ہوئی اور قریب 80 فیصد جاندار ختم ہو گئے۔ اس کے بعد 14 کروڑ سال کے عرصے پر محیط وقت میں زندگی بہت تیزی سے پھلی پھولی جس کا ایک نتیجہ ڈائینوسارز تھے لیکن ان کا خاتمہ ایک ناگہانی چیز یعنی ایک شہاب ثاقب سے ہوا جو آج کے نقشے کے مطابق میکسیکو سے ٹکرایا اور ٹکرانے کے بعد کئی ایک چیزیں ایک ساتھ ہوئیں جن میں ان گنت سونامی طوفانوں کا پیدا ہونا، کئی جگہ جنگلی آگ کا جنم لینا اور زمین سے راکھ کا فضاء میں کئی میل اوپر اٹھ کر کئی سال تک سورج کی روشنی کو روکے رکھنا شامل تھا جس کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت شدید گر گیا اور اس پانچویں اور آخری ہلاکت کو cretaceous عہد کا اختتام کہتے ہیں۔

آپ کو یاد ہے کہ میں نے سائیبیریا سے پھوٹ پڑنے والے لاوا کا ذکر کیا تھا؟ سات لاکھ مربع میل یعنی کہ تقریباً پورے پاکستان کے رقبے جتنے علاقے سے لاوا ابل پڑنے کا ایک اثر زمین کے اندر موجود گیسز کا اخراج تھا جن میں بڑی مقدار میں سلفر شامل تھی اور اس نے زمین کو تیزابی بارش میں ڈھک دیا جس سے زمین 80 لاکھ سال تک مردہ رہی تھی۔ اور اس میں کچھ اگانے کی اہلیت نہ تھی لیکن لاوا کے ساتھ زمین کے اندر سے نکلنے والی نئی گیسز اور ان کے ساتھ نکلنے والے منرلز نے زندگی کی وہ ورائیٹی ممکن بنائی جو اس سے پہلے کبھی نہیں پنپی تھی جس کی ایک مثال ڈائینوسارز ہیں۔ اور قرآن پاک میں یوں تو بہت سے مقامات پر مردہ زمین کے زندہ ہونے کا ذکر ہے لیکن میں بالخصوص سورۃ روم کی آٰیت 50 کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس میں اللہ پاک فرماتا ہے "اے دیکھنے والے! اللہ کی رحمت کے آثار دیکھ کہ کیسے وہ زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

یہاں میں نے سورۃ روم کی ہی اس آیت کا کیوں انتخاب کیا؟ ایسا اس لیے کہ اس میں دو نکات بہت اہم ہیں کہ ایک تو اللہ تعالیٰ انسان کو انظر یعنی آنکھوں سے دیکھنے کا حکم فرما رہا ہے اور دوسرا اہم عربی لفظ ہے آثار جس کا اردو میں مطلب باقیات ہوتا ہے۔

آج اگر آپ نیو ساؤتھ ویلز کے فریزر نامی ساحلی پہاڑوں میں کھدائی کریں، یا گوبیو (اٹلی) کے پہاڑوں میں یا اومان کے صحرائی پہاڑوں میں جہاں یونیورسٹی آف ایڈینبرگ کے محققین نے بھی تحقیق کی تو آپ کو اس تیسری ہلاکت، اس سے نکلنے والے لاوا اور سلفر کی بارش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاہ کوئلے کی پرت صاف نظر آئے گی اور اس بات کا ثبوت ملے گا کہ تیسری عظیم ہلاکت کے بعد اس دنیا میں آکسیجن کی شدید کمی ہو گئی تھی، سطح زمین کوئلے کی ایک پرت سے ڈھک گئی تھی، ہماری زمین ورچوئلی طور پر مردہ اور بنجر ہو گئی تھی اور اس زمین کو دوبارہ زندہ ہونے میں 80 لاکھ سال لگے تو میرے نزدیک سورۃ روم کی اس آیت سے زیادہ فصیح دلیل شاید کوئی انسان نہ دے سکے کہ دیکھو! اپنی آنکھوں سے دیکھو! اس ثبوت کی طرف دیکھو کہ کس طرح ہم نے اس زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کیا۔

ان تمام واقعات کے متعلق ہم کیسے جانتے ہیں، اس زمین کے فاسلز نے کیسے ہمیں ان واقعات کے بارے میں بتایا اور فاسلز کا قرآن پاک میں کیسے ذکر ہے انشاء اللہ اس کے بارے میں اپنے اگلے آرٹیکل میں ذکر کروں گا۔

Check Also

Apna Khaka Khenchoon Ya Khaka Uraun

By Mojahid Mirza