Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Furqan Qureshi
  4. Pathar Ho Jao Ya Loha

Pathar Ho Jao Ya Loha

پتھر ہو جاؤ یا لوہا

سورۃ اِسراء کی آیت 49 سے لے کر 51 تک ایک مضمون زیر بحث ہے جس کے مطابق کفار ایک مخصوص عقلی سوال اٹھایا کرتے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ وَقَالُواْ أَئِذَا كُنَّا عِظَامًا وَرُفَاتًا أَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا، جس کا ترجمہ ہے کہ "وہ کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈیاں اور ریزہ ہو جائیں گے تو کیا ہم نئے طریقے سے اٹھائے جائیں گے"۔

ان کا یہ کہنا دو قسم کی حیرانی کی بنیاد پر ہوتا تھا۔ پہلی یہ کہ مرنے کے بعد تو انسان کی ہڈیاں رہ جاتی ہیں اور پھر ہڈیوں کا بھی چورا رہ جاتا ہے۔ اور دوسرا یہ کہ مرنے کے بعد سے لیکر ہڈیوں کے بھی چورا ہو جانے کے عمل کو کم و بیش بیس سال تک کا وقت درکار ہوتا ہے تو اتنے لمبے عرصے کے بعد کیا کسی جاندار کا دوبارہ زندہ ہونا ممکن ہے۔ کیا وہ کسی نئی تخلیق میں اٹھیں گے؟ کیوں کہ اتنی مدت گزرنے کے بعد یہ بے جان بوسیدہ چورا کیسے دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا قُل كُونُواْ حِجَارَةً أَوْ حَدِيدًا، "کہہ دیجیئے! پتھر ہو جاؤ یا لوہا"۔

صرف ان پانچ چنے ہوئے خاص الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر عظیم جواب دیا ہے کہ جس کے سامنے کافروں کے دونوں عقلی اعتراضات سمندر کی تہوں میں غرق ہو جائیں۔ آج ہم اس جواب کی عظمت کو سائینسٹیفک کسوٹی پر بھی سمجھنے کے قابل ہوئے ہیں۔ وہ کسوٹی جو آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے تک ناممکن تھی۔

تاریخ میں پہلا انسانی فوسل 1857 میں جرمنی میں کان میں کام کرنے والوں کو ملا اور اسی نسبت سے اس کا نام فوسل ہوا کیوں کہ پرانی لاطینی زبان میں فوسیلیس "کھود کر نکالی گئی شئے" کو کہتے ہیں۔ فوسلز کیا ہوتے اس کے بارے میں ہمیں صرف 164 سال پہلے علم ہوا۔ جب کوئی vertebrateیعنی ہڈیوں والا جاندار مرتا ہے تو عموماً اس کا جسم ڈی کمپوز ہو جاتا یعنی خاک میں مل کر خاک ہو جاتا ہے گوشت پوست بھی اور اس کا ڈھانچہ بھی لیکن اگر اس مردہ جسم کو 4 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم درجہ حرارت، زیادہ مقدار میں نمی، ہائی پریشر کنڈیشنز اور کم سے کم آکسیجن والا ماحول دس ہزار سال تک ملتا رہے تو گوشت کے ڈی کمپوز کے جانے کے بعد ڈھانچہ دھیرے دھیرے ہڈیوں سے پتھر میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اسی عمل کو فوسیلائیزیشن کہتے ہیں۔

اس سے پہلے فوسلز کیوں اتنی فریکوئینسی سے نہیں ملے تھے وہ اس لیے کہ فوسلز اس قدر نایاب ہیں کہ ہر اڑتیس لاکھ مربع میل کے علاقے میں فوسلز ملنے کے چانس بھی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور آج تک ہمیں صرف 6000 انسانی فوسلز مل سکے ہیں۔ یہاں تک کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میوزیم کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ہر ایک ارب ہڈیوں میں سے صرف ایک ہڈی کے فوسل ہونے کے چانسز ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کی Dr. Susan Kindwell کے مطابق آج تک جتنے بھی جاندار جیئے ہیں ان کے صرف 1 % کے بھی دسویں حصے کے جاندار کسی صورت میں فاسلز بن پائے ہیں۔ ہڈیوں کا ہزاروں سال پر محیط عرصے میں پتھر میں تبدیل ہو کر فاسلز بن جانا بذات خود ایک حیران کن معجزہ ہے کیوں کہ ہڈی کو پتھر بننے میں سات قسم کے بیرونی عوامل کا بالکل ٹھیک ٹھیک مقدار میں ہونا بہت ضروری ہے جس پر انشاء اللہ پھر کبھی لکھوں گا۔

اب اس آیت کے دوسرے حصے پر بات کروں گا جو لوہے کے بارے میں ہے۔ اگرچہ لوہا اس زمین میں فوسلز جتنا نایاب تو نہیں ہے بلکہ ان کے برعکس کافی زیادہ مقدار میں ہے۔ اس پوری زمین کی سطحی پرت کے 5 سے 6 فیصد حصے میں لوہا پایا جاتا ہے جو بارہ کلومیٹر کی گہرائی میں پھیلا ہے اور تقریباً ایک بلین ٹن روزانہ کی مقدار میں کھودا جا رہا ہے۔ لیکن ایک خاص بات یہ ہے کہ لوہا اس زمین کا قدرتی عنصر نہیں ہے بلکہ لوہے کی پیدائیش ستارے کی موت کے نتیجے میں ہوتی ہے اور ہماری زمین پر جتنا بھی لوہا موجود ہے یہ اس دور میں زمین پر اترا جب ابھی ہماری زمین اپنی پیدائیش کے ابتدائی سالوں میں مختلف اقسام کے شہاب ثاقب اور خلاء سے آنے والے پتھروں کا نشانہ بن رہی تھی اور وہ پتھر اپنے اندر لوہا سمیٹے ہماری زمین سے ٹکرا رہے تھے۔ نتیجتاً ہماری زمین کی پرتوں میں لوہا ان ٹکرانے والے پتھروں کے ذریعے خلاء سے آیا اور پھیل گیا۔

اور یہیں سے میری تحقیق کا دلچسپ پہلو شروع ہوتا ہے اس زمین میں قدرتی طور پر پایا جانے والا لوہا انتہائی کم مقدار میں ہے اور انتہائی پرانا ہے۔ 27 نومبر 2019 کو Dr. Sean McMahon نے رائل سوسائیٹی میں ایک مقالہ پیش کیا جس کے مطابق کینیڈا سے ملنے والے چھوٹے جانداروں کے پرانے ترین فوسلز اب لوہے میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ جنہیں ڈاکٹر شین نےiron-mineralized chemical gardens کا نام دیا ہے۔ ڈاکٹر شین کے مطابق یہ اس دنیا میں ملنے والے پرانی ترین حیات کا ثبوت ہو سکتا ہے جو 4.2 ارب سال پرانی ہے۔ اور یاد رہے کہ اس دنیا کی کل عمر ہی 4.5 ارب سال ہے۔

آپ کو یاد ہے کہ میں نے کافروں کے عقلی اعتراضات کی بات کی تھی؟ انہیں اعتراض ہوتا تھا کہ چورا ہو جانے کے بعد یا کئی سال گزرنے کے بعد بھی زندگی آ سکتی ہے؟ اور آپ نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعتراضات سے بھی کئی ہزار قدم آگے بڑھ کر صرف پانچ الفاظ میں وہ جواب دیا جس کو سائینسی طور پر ایکسپلین کرنے کے لیے میرا یہ بارہ سو الفاظ کا آرٹیکل بھی کم ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے اللہ پاک نے کافروں کو کہہ دیا ہو کہ چاہے تم مر جاؤ، مرنے کے بعد تمام مشکل ترین درجات سے گزر کر فوسلز بھی بن جاؤ اور فوسل بننے کے چار ارب سال تک مردہ رہنے کے بعد لوہا بھی بن جاؤ، تب بھی میں تمہیں زندہ کر کے اٹھا دوں گا۔ اور یہاں ابھی بات ختم نہیں ہوتی کیوں کہ اس سے اگلی ہی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "یا پھر وہ بن جاؤ جو تمہارے نزدیک اس سے بھی بڑا ہے"۔

سبحان اللہ! اس سبجیکٹ پر میں مزید بہت بہت کچھ لکھ سکتا ہوں لیکن وقت کی کمی اور الفاظ کا ناکافی ہونا آڑے آ جاتا ہے اور بالآخر تھک ہار کر مونہہ سے سورۃ کہف کی آیت 109 کی تلاوت نکلتی ہے۔ "کہہ دو! اگر میرے پروردگار کی باتیں لکھنے کے لیے سمندر سیاہی ہو تو سمندر ختم ہو جائے قبل اس کے کہ میرے پروردگار کی باتیں ختم ہوں اگرچہ ہم ویسا ہی سمندر اس کی مدد کو لائیں "۔

انشاء اللہ اپنے اگلے آرٹیکل میں قرآن کریم کی روشنی میں اللہ پاک کی مخلوقات کے بارے میں لکھوں گا۔ اللہ سے دعا ہے کہ میرے مفید علم میں اضافہ فرمائے۔

Check Also

Bushra Bibi Aur Ali Amin Gandapur Ki Mushkilat

By Nusrat Javed