Qabaili Muashron Mein Jirge Ki Ahmiat
قبائلی معاشروں میں جرگے کی اہمیت
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے دنیا کے نقشے پر موجود دیگر اسلامی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کو ان کی منفرد جغرافیائی اور ناقابل تسخیر ایٹمی صلاحیت کی بدولت مسلم بلاک میں غیر معمولی مقام حاصل ہے۔ ملک میں جمہوری نظام حکومت رائج ہے مگر اس ملک کے چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے بیشتر دیہی علاقوں میں لوگ سماجی مسائل اور انکے پائیدار حل کیلئے سرکاری سطح پر رائج ریاستی نظام عدل اور شریعت محمدی کے علاوہ قبائلی نظام جرگہ داری، پنچائیت اور بیٹھک کو متذکرہ بالا سماجی مسائل یا قبائلی دشمنیوں کے ممکنہ المناک معاشرتی نتائج سے نجات کا موثر زریعہ بھی سمجھا جاتا ہے۔
ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں ارض شمال کے ضلع دیامر میں مقامی لوگ آج بھی سرکاری نظام عدل و انصاف سے زیادہ جرگہ داری کے زریعے قبائلی تنازعات کے حل پر کامل یقین رکھتے ہیں یہاں آج بھی عدالتوں میں قلیل المدت یا سالوں سے زیر التوا مقدمات اور دیگر خاندانی و قبائلی تنازعات کا حل مقامی عدالتوں کے بجائے یہاں کے جرگہ دارانہ نظام کی راہیں تکتا ہے۔
چلاس کے گرد نواح میں دو دہائیوں سے جاری زاتی و اجتماعی نوعیت کی اراضیاتی سرد مہری، نالہ جاتی حد بندی، و زاتی دشمنیوں کے ان گنت پیچیدہ نوعیت کے حل طلب مسائل مختلف عدالتوں میں خرگوش کی چال چل رہے ہیں۔ انہی مقدمات کی وجہ سے منجمد اربوں روپے نوجوانوں کو نہ صرف صبح شام سڑک چھاپنے پر مجبور کرتیں ہیں بلکہ نوجوان نسل کو سماجی تحمل مزاجی، میانہ روی اور حصول تعلیم کے بہتر مواقعوں سے بھی دور رکھتی ہے۔ اتنا ہی نہیں یہ مکروہ قبائلی خرافات چوک چوراہوں گلی کوچوں چائے خانوں اور حتی کہ منبر و محراب کے مکینوں کو خوب الجھائے گتھم گتھا بھی رکھتی ہیں۔
ہمیں بطور اشرف المخلوقات و قبائلی معاشرہ نہ صرف اپنے بزرگوں بالخصوص علمائے کرام کی جرگہ دارانہ صلاحیتوں پر اطمینان و اعتماد کے اظہار کی ضرورت ہے بلکہ انکی صحبت کے سماجی پھلدار پیوند کو اپنے غیر ثمر آور شاخوں پر پیوست پیوند کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہی وہ جرگہ ہے جنہوں نے انتہائی قلیل عرصے میں ڈپٹی کمشنر دیامر فیاض احمد تحصیلدار محمد امین اور بالخصوص واپڈا کی فراخدلانہ جدوجہد کی بدولت مستقبل قریب کا سلگتا مسئلہ تھور ہربن حد بندی تنازعے پر قبائلی امن کے آہنی مہر ثبت کیے ہیں۔
صوبائی وزیر معدنیات جیّد عالم دین حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب دامتم برکاتھم سمیت کوہستان سے تعلق رکھنے والے دیامر کوہستان امن جرگے کے دو اہم اراکین جیّد عالم دین حضرت مولانا عزیز الرحمان حقانی اور مولانا عبدلوارث صاحب کے کندھے ایکبار پھر دیامر میں جاری مختلف نوعیت کے تنازعات کے حل کیلئے قبول و منظور ہونے لگے ہیں جوکہ اس خطے میں اب بھی جرگہ داری کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
قابل زکر امر یہ ہے کہ تھور ہربن تنازعے سے لیکر دیامر میں حالیہ دنوں قیام امن کیلئے جاری کوششوں میں علامہ مفتی مولانا سیف الرحمان کا ذمہ دارانہ کردار بھی اس قوم کو قبائلی تنازعات کے بھنور سے نکالنے کیلئے نہایت قابل زکر اور اہمیت کا حامل رہا ہے جو پر پیچ قبائلی باریک و تاریک بند گلیوں میں سے دلیل کی گہرائی سے ترش قبائلی رویوں کو رام کرنے کی کمال مہارت رکھتے ہیں۔ اپنی بساط کے مطابق تھور ہربن تنازعے میں بھی جرگے کے مجموعی کردار کے ساتھ تعاون رہا تھا تاہم متذکرہ بالا جیّد علمائے کرام کی دوراندیشی سے اس قدر شناسائی نہیں تھیں۔
اب جبکہ دیامر میں حالیہ دنوں جاری تنازعات کی بیخ کنی پر مبنی معروضی حالات پر مفصل نشست سے یہ بات نوشتہ دیوار ہو چکی ہے کہ وہ ان قبائلی تنازعات کیلئے نہایت مخلصانہ جدوجہد پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں، ایک مثالی اور بالیدہ معاشرے کی تشکیل کیلئے بطور معاشرہ ہمارا اوّل و آخر کردار اعتدال، میانہ روی، موقف میں نرمی و لچک، تحمل مزاجی، فراخدلی اور اعلی ظرفی ہی ہمیں اجتماعی تنازعات سے فراغت اور تعمیر و ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔