Shayari
شاعری
شاعری زندگی اور سماج کا آئینہ ہے۔ ہماری روز مرہ زندگی میں رونما ہونے والے واقعات ہی دراصل شاعری ہے۔ شاعری کے بارے میرا خیال ہے کہ معاشرے کا حساس ترین فرد ہی شاعر بنتا ہے یعنی کے وہ شخص جو کسی بھی مسئلے کو باریکی سے دیکھ کر اس کی جڑ تک پہنچ جائے شاعر بن سکتا ہے یا پھر کسی بھی شخص کے دکھ درد کو اپنے سینے میں محفوظ کرے اور پھر اسے الفاظ کا روپ دے شاعر بن سکتا ہے۔
دیکھا جائے تو اک شاعر ی طبقہ ہی ہے جو اپنے رازوں کو چھپاتی نہیں بلکہ سر عام بیان کرتی ہیں گر نہ سماج کا کوئی بھی طبقہ چاہے سیاسی ہو یا مذہبی طبقہ یا پھر کاروباری طبقہ سبهی اپنے رازوں کو چھپائے پھرتے ہیں۔ شعراء کرام کی خواہش شدید ہوتی ہے کہ ان کے شعر پر واہ واہ کہا جائے تالیاں پیٹی جائیں۔ (چاہے شعر باوزن ہو یا نہ ہو) میں ایسی خواہشات کا بہت احترام کرتا ہوں۔
ویسے شاعری کا ہی جادو ہے کہ جو باتیں اک عام شخص مجلس میں کہنے سے شرماتا ہے یا ہچکچاتا ہے وہ شاعری با آسانی جملوں کے ردیف و قافیہ کو سنوار کر بھری مجلس میں کہہ دیتے ہیں۔ عوام بھی اس لئے لطف اندوز ہوتی ہیں کہ ٹیلی ویژن کی بدولت بچہ بچہ بالغ ہوچکا ہے۔جیسے شعر ہے۔
چادر عشق پہ تازہ لہو کے چهینٹے ہیں
حدود عشق سے آگے نکل گیا ہے کوئی
(اپنے فہم کے مطابق تشریح کیجئے یہ آپ پر ہے کہ شعر کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں )
مگر ہمارے ہاں معاملہ مختلف ہے۔ ہمارے ہاں عموماً تعداد ان شاعروں کی ہے جو یا تو عشق میں ناکام ہوگئے یا پھر بے روزگار ہیں۔ اور عمدہ ترین شاعر وہی ہیں جو عشق میں ناکام ہوکر محبوبہ کے کئے گئے عہد و پیمان کے پورا نہ ہونے پر اتنا دلبرداشتہ ہوتے ہیں کہ چرس، شراب کے عادی ہوجاتے ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے یا رومانوی موسم ہوتا ہے تو ان پر شاعری طاری ہوجاتی ہے۔ پھر گلاس اٹھا کر اس میں شراب انڈیلتے ہیں یا پھر سگریٹ میں حشیش ملا کر جب دم پہ دم لگاکر مکمل مدہوش ہوتے ہیں تو سرور میں ان سے اشعار سر زد ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ایسے ہی ایک شاعر فرماتے ہیں
میں سگریٹ کو ہتھیلی پر الٹ کر خالی کرتا ہوں
پھر اس میں ڈال کر یادیں تمہاری خوب ملتا ہوں
زرا سا غم ملاتا ہوں ہتھیلی کو گماتا ہوں
بسا کر تجھ کو سانسوں میں، میں پھر سگریٹ بناتا ہوں
لگا کر اپنے ہونٹوں سے محبت سے جلاتا ہوں
تجهے سلگا کہ سگریٹ میں، میں تیرے کش لگاتا ہوں
دھواں جب میرے ہونٹوں سے نکل کر رقص کرتا ہے
میرے چاروں طرف کمرے میں تیرا عکس بنتا ہے
میں اس سے بات کرتا ہوں وہ مجه سے بات کرتا ہے
یہ لمحہ بات کرنے کا بڑا انمول ہوتا ہے
تری یادیں تری باتیں میرا ماحول ہوتا ہے
کچھ شاعر جنہیں بدقسمتی سے کوئی صنف مخالف نہیں ملتا پیار کرنے واسطے وہ تخیلاتی محبوب بنا کر ان سے کی جانے والی باتوں کو شاعری کا روپ دیتے ہیں۔مگر معاشرے میں جس طرح سے چرسی اور پوڈری شاعر بن رہے ہیں بعید نہیں کہ آنے والے وقتوں میں شاعری کے لئے زبان پر عبور کے ساتھ ساتھ چرس اور شراب پینا بھی بلکل ایسے ہی واجب ہو جیسے کسی قوال کا پان خور ہونا۔