Khuda Ki Simt Chale To Qarar Tak Pohanche
خدا کی سمت چلے تو قرار تک پہنچے
دادی جان بس کریں نہ مجھے جانے دیں۔ وین نکل جائے گی۔ دادی جان ہاتھ پکڑے کوئی دعا پھونکنے کی تیاری میں تھیں۔ جب سماویہ نے بے نیازی سے ہاتھ کھینچا، بیگ کندھے پر لٹکایا اور یہ جا وہ جا۔ آئے ہائے آج کل کی لڑکیاں نہ خود کچھ پڑھتی پڑھاتی ہیں۔ نہ دوسروں سے کوئی دم درود کرواتی ہیں۔ ایک ہم تھے ماں باپ کی ایک گھوری پہ کسی کونے کھدرے میں گھس جاتے توبہ توبہ۔
دادی جان کی ڈانٹ ڈپٹ اسے دور تک سنائی دے رہی تھی۔ احسان بیٹا ذرا بازار گئے تو گلابی رنگ کی تسبح پکڑے لانا کل محفل پہ جانا ہے۔ اچھا اماں لے آوں گا نہ یاد رہا تو کال کر دینا۔ احسان صاحب بائیک سٹارٹ کرتے ہوئے نرمی سے بولے۔ انہیں پتا تھا بیگم کی میچنگ چوڑیاں اور اماں کی میچنگ تسبیح کے بغیر مجال ہےخاندان کی کوئی تقریب انجام پائے۔ چوڑیوں کی تو سمجھ آتی لیکن یہ تسبیح کا شوق عجب تھا۔ چلو خیر مجھے کیااحسان صاحب نے سر جھٹکا اور باہر نکل گئے۔
***
احسان صاحب اس پانچ مرلہ گھر میں اپنی نیک شعار والدہ، نرم مزاج بیوی، اور نازونعم میں پلی خوبصورت اکلوتی بیٹی سماویہ کے ساتھ رہتے تھے۔ بیٹی اپنی خوش مزاجی اور مزاحیہ طبیعت کی بنا پر، ہر کسی کی محبتیں سمیٹتی، لیکن ایک دادی تھیں جن سے اس کی نوک جھونک ہر وقت چلتی رہتی۔ آج بھی صبح صبح دادی جان کی ساری نصیحتیں ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالی گئیں۔ ارے اتنی بھی کیا پابندیاں رات کو سونے لگو تو قبر کی روشنی کا انتظام کرو، صبح جلدی اٹھو خیروبرکت سمیٹنے کے لیے، گھر سے باہر نکلو تو دعائیں پڑھو، داخل ہو تو دعائیں پڑھو، بقول دادی جان کے اپنے باہر کے شیطان باہر اتار کر آئیو۔۔
میں نے سورہ بقرہ پڑھ کر شیطانوں سے گھر پاک کیا ہے۔ بھئی مجھے تو کبھی کبھی یوں لگتا جیسے میری دادی اماں کو گھر میں چلتے پھرتے فرشتے نظر آتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو "کراما کاتبین" کے رجسٹر تو ضرور رات کو چیک کرکے سوتی ہیں کہ آیا آج نیکیوں کا پلڑا بھاری ہے یا برائیوں کا؟ اور تو اوردوسروں کو صبح وشام کے اذکار یاد کروا کر ان کی نیکیاں بھی اپنے "نامہ اعمال" میں ٹرانسفر کرواتی رہتی ہیں۔ سماویہ آج دل کھول کر سائرہ کو دادی نامہ سنا رہی تھی۔ تو پاگل بھلا ہی کرتی ہیں تمھارا دیکھو دعائیں تو ہمارا ہتھیار ہیں۔ جو سارا دن ہماری حفاظت کرتی ہیں۔ سائرہ نے نرمی سے سمجھانا چاہا۔۔ اووو۔۔ ہیلو کلاس میں چلتے ہیں۔ مجھے سمجھانے والے بہت ہیں صبح صبح تم نہ شروع ہوجانا۔
اچھا تمھیں پتا ہے۔ آج ہمیں کون لیکچر دینے آرہا؟ سائرہ نے سرگوشی کی۔ کالج میں ہر جمعہ کے دن ایک گھنٹے کا درس قرآن ہوتا تھا۔ سائرہ کے لیے تو عید کا دن ہوتا لیکن سماویہ کبھی بھی ایسی مجالس میں شرکت نہیں کرسکتی تھی۔ اس کا خیال تھا جو بھی لڑکی اس درس گاہ میں گئی ہے۔ اس کے سارے فیشن ترک ہوگئے۔ نہ تو وہ دوپٹہ اتارتی، نہ کنٹین پر جاتی، اگر کبھی جانا پڑ بھی جائے تو ایسے اچھے طریقے سےچہرے کو ڈھانپ لیتیں کہ اچانک دیکھ کر بندہ ڈرہی جائے کہیں ڈاکو تو نہیں آگے۔
لو جی کینٹین والوں سے روز کا واسطہ پڑتا ہے۔ ہمارے بھائیوں جیسے ہی ہوتےہیں۔ پتہ نہیں کیوں سب محرم نامحرم کی رٹ لگائےرکھتے؟ نہ بھئی مجھ سے نہیں ہوتی اتنی پابندیاں، میرا گھر بھی کسی درس گاہ سے کم نہیں۔ جو یہاں بھی جاکے سر کھپاوں ویسے بھی جتنا پتہ ہے اتنا عمل کرلوں کافی ہے۔ پتہ نہیں کن خیالوں میں کھو گئی ہو۔ میں کہہ رہی ہوں پتہ ہے آج کون شرکت کررہا ہماری کلاس میں سائرہ نے ذرا زور سے کہا۔۔ آں ہاں۔۔ کیا ہے جو بھی آئے میں نہیں جارہی۔ اتنا اچھا موسم ہے جمعہ کے دن لاسٹ ٹائم تو ملتا انجوائے کے لیے وہ بھی گنوادوں؟
سماویہ نے ناک سے مکھی اڑائی۔ آج میم رابیل آرہی ہیں۔ سائرہ نے آہستگی سے کہا۔۔ ہیں۔۔ میم رابیل وہی جو نیٹ پر کیلی گرافی سکھاتی ہیں۔ سماویہ نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔ ہاں نیٹ پر تو ان کی آواز ہی سننے کو ملتی آج لائیو دیکھتے ہیں۔ آدھا کالج آرہا آج کے درس میں تم بھی چلو نا پلیز سائرہ نے نرمی سے سماویہ کا بازو دبایا۔ اچھا چلو چلے ہی جاتے لیکن پہلی اور آخری دفعہ آئندہ کبھی نہ کہنا۔ کیا یاد کرو گی آج کا جمعہ تمھارے نام سماویہ نے آنکھ دبائی۔ بہت "شکریہ"چلو اب سائرہ نے کہتے ہوئے کتابیں اٹھائیں اور وہاں سے چل دی۔
***
میم رابیل جیسے ہی ہال میں داخل ہوئیں۔ سب طالبات ایک ساتھ کھڑی ہوگئیں السلام عليكم میم جی! وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ عزیز طالبات کیسی ہیں آپ سب؟ میم نے نرمی سے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کی اجازت دی۔ میم رابیل کی شاندار شخصیت اور پروقار انداز گفتگو نے ماحول پہ سحر سا طاری کردیا۔ چونکہ آج جمعہ ہے۔ تواس دن کونسی سورہ پڑھتے ہیں؟ میم رابیل نے نرمی سے بات کا آغاز کیا۔ سب نے یک زبان ہوکرکہا میم "سورہ الکہف" جی ہاں بالکل جلدی سے اس کے پڑھنے کی فضیلت بتادیں۔ لیکن ہر کوئی ایک ایک فضیلت بتائے گا۔
سب سے پہلے سائرہ نے ہاتھ اٹھایا۔ میم اس کی پہلی اور آخری دس آیات صبح و شام پڑھنے سے ہم دجالی فتنوں سے محفوظ رہیں گے۔ شاباش اس کے بعد؟ میم جی ایک "حدیث کا مفہوم ہے" کہ جمعہ کے دن اس کی تلاوت کرنے والے کے لیے دوسرے جمعہ تک ایک نور روشن کردیا جاتا ہے سماویہ نے جوش سے بتایا۔ ارے واہ سماویہ تم نے یہ حدیث خود پڑھی سائرہ نےتعجب سے پوچھا۔ نہیں یار دادی نے صبح سنائی تھی تو دماغ میں رہ گئی۔ اچھا جی۔ پھراس نور کو ہم کس طرح دیکھ سکتے؟ میم نے اگلا سوال کیا۔
سب طالبات آپس میں سرگوشیاں کرنے لگیں۔ چلیں میں بتاتی ہوں یہ نور ہمارے معاملات میں نظر آئے گا۔ جب ہم جمعہ کے دن اس سورہ مبارکہ کی تلاوت کرتے ہیں۔ تو ہم جو بھی کام کریں گے اسکا اچھا یا برا ہونا ہم پر واضح ہو جائے گا۔ اور اللہ تعالٰی اس کی روشنی سے ہماری رہنمائی فرمائے گا۔ چلیں پھر اس خوبصورت کلاس کا آغاز "سورہ کہف" کی آیت 28 سے کرتے ہیں۔ میم جی میں کروں تلاوت؟ سائرہ نے جلدی سے ہاتھ کھڑا کیا اورخوب صورت تجوید کے ساتھ تلاوت کی میم رابیل نےترجمہ پڑھا۔
"اور اپنے دل کو ان لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو۔ کیا تم دنیا کی زینت پسند کرتے ہو؟ کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریق کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔
پیاری طالبات! کیا سمجھ آئی ان آیات سے آپ کو؟ میم رابیل نے نرمی سے باری باری سب کےچہروں کو دیکھا۔ میم جی اس سے مجھے یہ سمجھ آئی کہ جو نیک ہو اس کو دوست بنانا چاہیے جو برا ہو اسے چھوڑ دینا چاہیے۔ اریبہ نے مختصر سا جواب دیا۔ ہاں لیکن پھر ہم اچھائی پھیلانے والے کس طرح بنیں گے؟ اگر ہم نے ہی غلط باتوں پر ٹوکنا چھوڑ دیا۔ توہمارا اس دنیا میں آنے کا کیا مقصد؟
بیٹا! نیکی کے کاموں کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہی تو ہماری ڈیوٹی ہے۔ جو ہمیں اللہ تعالی نے دی۔ کیاآپ کو پتا ہے جب کوئی اپنی ڈیوٹی کے ساتھ خیانت کرتا ہے۔ تو اس کا کیا انجام ہوتا؟ مثلا اگر آپ گھر میں نوکرانی رکھیں گی۔ جو آپ کے کام کاج کرتی ہے۔ اگر وہ کام نہ کرے، یا کم کرے، یا کرے بھی تو اچھے طریقے سےنہ کرے۔ تو آپ اس کو کتنے دن اپنے گھر میں مزید رکھیں گی؟ یقینا آپ اس کو نکال باہر کریں گی۔ کہ بھئی یہ تنخواہ تو پوری لے رہی کام کرتی نہیں۔ یہی حال ہمارا ہے ہم کام تو کرتے نہیں جو اللہ تعالی نے ہمیں دیا ہے۔ لیکن اس کی نعمتوں سے دن رات انصاف کررہے۔ اور اس کی نعمتوں میں صرف کھانا پینا ہی نہیں بلکہ صحت، وقت، ذہانت بھی نعمت ہی ہے۔
اس نے جو صلاحیت ہمیں دے رکھی ہے اس کا حساب بھی دینا ہے۔ مثلا اگر کسی کی آواز خوبصورت ہے۔ تو وہ قرآن یا نعت کو خوبصورتی سے پڑھنے کی بجائے فحاشی والے گانے گانا شروع کردے۔ ایک تو معاشرے میں خرابی پیدا ہوگی۔ مزید اللہ تعالٰی کی دی ہوئی صلاحیت کا غلط استعمال بھی ہوگا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی لکھناجانتا ہے۔ تو وہ برائی کے خلاف کالم، بلاگ افسانے لکھ کر معاشرے میں شعور پیدا کر سکتا ہے۔ غرضیکہ ہر انسان کے پاس کوئی نہ کوئی صلاحیت ہے۔ اب اس کی مرضی کہ وہ اللہ تعالٰی کی دی ہوئی نعمت کا غلط استعمال کرکے گمراہ لوگوں میں شامل ہو یا صحیح طریقہ پر چل کر صالحین میں شمار ہو۔ اس کے علاوہ جو لوگ ہمیں اللہ کی یاد دلاتے ہیں۔
ہمیں دین کی باتیں بتاتے ہیں ہماری بھلائی چاہتے ہیں۔ ہمیں ان کی معیت میں مطمئن رہنے کا حکم دیا ہے۔ دنیاوی زندگی اور نفس کی خواہشات میں پڑے ہوئے لوگوں سے دور رہنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ لوگ ہمیں بھی اپنے جیسا بنا سکتے ہیں۔ میم جی کیا اللہ تعالٰی کی یاد سے مسلمان بھی غافل ہوسکتے؟ سائرہ نے سوال کیا، ہاں بلکل ہوسکتے ہیں۔ ہم دراصل کفار کو ہی سمجھتے ہیں۔ کہ وہ اللہ کی یاد سے غافل ہیں۔ اور برے کاموں میں پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو بہت سی مثالیں ملیں گی جیسے ایک بندہ مسلمان گھرانے میں پیدا تو ہوا ہے۔ لیکن آج تک اس نے پابندی سے نماز ادا کی نہ قرآن کو کبھی ترجمہ کے ساتھ سمجھ کر پڑھنے کا تکلف کیا۔
بڑوں سے بدتمیزی کرتا ہے، گانے سنتا ہے، ڈرامے دیکھ کر ان کے جیسے فیشن اپناتاہے، گھر کا ماحول کفار کی طرز پر بنانا چاہتا ہے۔ کوئی نصیحت کرے تو الٹا اسے جھاڑ کر چپ کروادیتا ہے۔ یہ غفلت ہی کی نشانیاں ہیں۔ میم جی یہ غفلت پھر ختم کیسے ہوگی سماویہ نے شرمندگی سے پوچھا۔ دیکھو بیٹاکیا ہم انگریزی کی کتاب بغیر معنی کے پڑھ کر پاس ہو سکتے ہیں؟ جب کہ ہمیں علم ہی نہ ہو کہ اس میں لکھا کیا ہے؟ کوئی کتاب اٹھالیں آپ پہلے اس کے تمام فارمولے قائدے پڑھیں گے۔ معنی دیکھیں گے پھر ہی سمجھ آئے گی کہ اس میں ہے کیا؟ تو پھر ساری غفلت ہماری دنیا و آخرت سنوارے والی اس کتاب قرآن عظیم کے ساتھ ہی کیوں ہے؟
کیوں ہمیں ہر سبجیکٹ کو پڑھنے کے لیے تو ٹیچر کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن قرآن کو بس جو بچپن میں پڑھ لیا تو اس پر ہی اکتفا کر لیا۔ جب کہ ہمارا دنیا میں آنے کا اصل مقصد قرآن کی تعلیمات پر عمل ہی تو ہے۔ ہم قرآن کی تعلیمات پر غوروفکر کر نے کے لیے ہی علم حاصل کرتے ہیں۔ تاکہ کائنات میں جو کچھ ہورہا قرآن کی روشنی میں تحقیقات کرسکیں۔ لیکن ہم اتنے غافل ہو چکے ہیں کہ جس کو سمجھنے کے لیے علم حاصل کرنا تھا۔ اس کتاب کو چھوڑ کر سارے علوم میں مہارت حاصل کرکے دنیا فتح کرنا چاہتے ہیں۔ پھر ہم کامیاب کیسے ہوسکتے ہیں؟
ہماری کامیابی کا انحصار قرآن وسنت سے ہی ممکن ہے۔ سماویہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکی۔۔ کتنی غافل ہوں میں، یہ ذہانت کس کام کی اگر میں نے اپنا اصل مقصد نہ پہچانا۔ مجھے اللہ تعالٰی نے اس لیے تو نہیں پیدا کہ جیسے چاہوں زندگی گزاروں۔ مجھے تو ایک کتاب دی گئ ہے۔ جس پر عمل کے بغیر میری نجات ممکن نہیں۔ افففف۔۔ میں سماویہ احسان ہر سبجیکٹ میں"پورے نمبر" لینے والی اپنی کتاب حیات کو کیسے بھول سکتی ہوں۔ کیا شیطان میرا رفیق بن گیا ہے؟ (دل نے ایک تاویل پیش کی)جو مجھے بہکاتا رہتا۔ نہیں وہ تو دور سے دیکھ کر گزر جاتا ہوگا۔ میں تو اس کے نقش قدم پر پہلے ہی چل رہی ہوں۔ اسے کیا ضرورت ہے مجھ پر محنت کرنے کی۔ آخر میں میم عندلیب کو دعا کے لیے بلایا گیا۔ سماویہ نے ہاتھ اٹھائے تو آنکھوں سے آنسو گرنے کو بے تاب تھے۔ شرمندگی کے آنسو، توبہ کے آنسو، یاالہی تیرے کلام کی ایک آیت دل بدل دیتی ہے سارا قرآن توزندگی بدل دے گا۔
اسے آج احساس ہوا تھا۔ کہ اصل نجات کس میں ہے۔ یاالہی مجھے "صراط مستقیم" دکھا دے۔ اس کے دل نے بڑی شدت سے یہ دعا کی۔ سب ہال سے نکل رہے تھے۔ سائرہ نے سماویہ کا کندھا جھنجھوڑا ارے اٹھو چھٹی ہوگی۔ سماویہ سست روی سے چلتی ہوئی گیٹ تک آئی۔ آج اس کے اندر کی دنیا باہر کی دنیا سے بہت مختلف تھی۔ آج کسی کو اسے دعائیں یاد کروانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ آج تو اس کی زبان پر خود بہ خود ہی اذکار جاری تھے۔ آج کا بدلاو دادی سے بھی چھپ نہ سکا۔ میری بیٹی آگئی۔ دادی نے پیار سے ساتھ لگا کر ماتھے پہ بوسہ دیا۔۔
ہمارے پاس کئی راستے تھے لیکن ھم
خدا کی سمت چلے تو قرار تک پہنچے