1.  Home/
  2. Blog/
  3. Farooq Bahaul Haq/
  4. Siyasi Ikhlaqiat Ka Janaza

Siyasi Ikhlaqiat Ka Janaza

سیاسی اخلاقیات کا جنازہ

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی ہے۔ عمران خان نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ اپنا کھیل کھیلا ہے۔ متحدہ اپوزیشن کے خواب تعبیر آشنا نہیں ہو سکے اور نہ چاہتے ہوئے بھی عام انتخابات کا میدان سج گیا ہے۔ معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے لیکن 2اپریل 2022بروز اتوار کی سہ پہر پاکستان کی قومی اسمبلی کے وسیع و عریض ہال میں جو کچھ ہوا، وہ متحدہ اپوزیشن کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔

آپ تھوڑی دیر کے لیے اس بات کو بھول جائیں کہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین اور قانون کے مطابق ہے یا نہیں، آپ اس بات کو بھی پس پشت ڈال دیں کہ ایک دن پہلے وزارتِ قانون کا قلمدان سنبھالنے والے فواد چوہدری کی گفتگو آئین اور قانون کی عکاس تھی یا نہیں، آپ سردار ایاز صادق کی صدارت میں قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی کو بھی نظر انداز کر دیں۔

اجلاس کے بعد حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں کی میڈیا ٹاک کو بھی ایک طرف رکھ دیں، لیکن پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اس بات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح تحریک عدم اعتماد کے دوران اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن نے اراکینِ پارلیمنٹ کی خرید و فروخت کر کے پرانی سیاست کو ایک دفعہ پھر زندہ کردیا۔ چھانگا مانگا کی دم توڑتی سیاست میں نئی زندگی ڈال دی۔

معزز اراکینِ پارلیمنٹ نے اپنی بولی لگوا کر پوری قوم کے سر شرم سے جھکا دیے۔ ایک لحاظ سے یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایک اہم لیڈر محترمہ مریم نواز اِس خرید و فروخت سے ایک فاصلے پر نظر آئیں، اور اپنا دامن آلودہ ہونے سے محفوظ رکھا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) محترمہ مریم نواز کی قیادت میں آگے بڑھی تو اس کا رنگ ڈھنگ کیسا ہوگا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف، جو اس خطہ کے سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان ہیں، نے اس سارے عمل کے دوران خاموشی اختیار کیے رکھی، یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ بھی اس غیرجمہوری طرز عمل کی حوصلہ افزائی کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں، محترمہ بےنظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے مابین طے پانے والے میثاقِ جمہوریت میں بھی اس عمل کی حوصلہ شکنی کی گئی تھی۔

لیکن متحدہ اپوزیشن کو اقتدار کے حصول کی اتنی جلدی تھی کہ برسر عام سندھ ہاؤس اور ایک مہنگے ہوٹل میں قومی نمائندوں کی منڈی لگا دی گئی، اور میڈیا پر اس کی خوب تشہیر بھی کی گئی۔ اِس ساری کہانی کا ایک المناک پہلو یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جو ابھی اپنی سیاست کے ابتدائی دنوں میں ہیں، ان کی تربیت میں ان کے والد محترم نے خریدوفروخت کا عنصر شامل کر دیا۔

پاکستان پیپلزپارٹی ماضی میں اس عمل کے اثراتِ بد بھگت چکی ہے لیکن بلاول بھٹو زرداری اپنا دامن اس سے محفوظ نہ رکھ سکے۔ مستقبل میں وہ کیسی سیاست کرینگے، اس سے کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستانی سیاست کے اعلیٰ ترین ایوان میں ہونے والے اس عمل نے پاکستانی معاشرے پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ وفاداریاں تبدیل کرنے کو گالی خیال کیا جاتا تھا لیکن اب ہر سطح کے منتخب نمائندے اپنی بولی لگوانے میں خوشی محسوس کرینگے۔

اب اس امر کی پیش گوئی کیسے کی جا سکتی ہے کہ کسی یونین کونسل یا میونسپل کمیٹی کا چیئرمین اخلاقی طور پر اسی جماعت یا گروپ سے وابستہ رہے جس کے نام پر اس نے ووٹ حاصل کیے تھے کیونکہ اس کے سامنے تو اراکینِ قومی اسمبلی کی مثال موجود ہے۔ متحدہ اپوزیشن کے اس عمل کی وجہ سے پاکستانی سیاسی اخلاقیات کی دیوار میں ایک بڑا شگاف پڑ گیا ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے یہ واویلا اب بے معنی ہے کہ حکومت نے غیر آئینی اقدامات کیے۔ جب ایک طرف سے تمام اخلاقی اور سیاسی اقدار بلڈوز کی جا رہی ہوں تو حکومت کی طرف سے فیئر پلے کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے۔ عمران خان کے گرد بھی وہی لوگ ہیں جو متحدہ اپوزیشن کا حصہ رہے۔ ان کی سیاسی تربیت بھی اسی جگہ ہوئی جہاں اپوزیشن نے تربیت حاصل کی۔ حکومت بچانے کیلئے عمران خان نے وہ تمام حربے استعمال کیے جو وہ کر سکتے تھے۔

ہم ان سے توقع کر رہے تھے کہ وہ خود کو پاکستان کے دیگر سیاستدانوں کے مقابلے میں مختلف سیاست دان ثابت کریں گے۔ عدم اعتماد کی صورت میں سیاسی وقار کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو عوام کی عدالت میں لے جائیں گے۔ لیکن انہوں نے امریکہ سے آئے ہوئے مراسلے کا بہانہ بنا کر وہ سب کچھ کیا جو دوسری جماعتیں کر رہی تھیں۔ جلسوں میں اپنے مخالفین کیلئے غیرمعیاری زبان استعمال کر کے وہ پہلے ہی اپنی ساکھ کمزور کر چکے تھے۔ البتہ اس شر سے خیر کا پہلو یہ نکلا کہ ہمارے اداروں نے مکمل غیر جانب دار ہونے کا ثبوت دیا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے دو ٹوک انداز میں اس عمل سے لاتعلقی کا اظہار کر کے ادارے کا وقار بڑھایا۔ البتہ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ نے بروز اتوار اپنی عدالت کے تالے کھول دیے، یہ الگ بات کہ اُنہی عدالتوں میں سزائے موت کے قیدی اپیل لگنے کے انتظار میں زندگی کی قید سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ جب ایک بیوہ ماں کے جوان بیٹے کے قاتل دندناتے پھرتے ہیں، اس وقت عدالتی ایکٹو ازم کیوں سست پڑ جاتا ہے؟ کیا انصاف کا حصول سیاسی اشرافیہ کا حق ہے؟ کیا انصاف کا نظام صرف بڑے لوگوں کیلئے تیار کیا گیا ہے؟

اِس ملک کے 22 کروڑ عوام کے سینے میں یہ بات خنجر کی طرح پیوست ہے کہ ان کے مقدمات لیفٹ اوور ہوتے ہیں جبکہ اشرفیہ کیلئے ضابطے نرم کر دیے جاتے ہیں۔ آخر کیوں؟ ہماری معزز عدالتوں کو عام مقدمات میں بھی اسی طرح کی تیز رفتاری دکھانا ہوگی جیسی سیاسی مقدمات میں نظر آتی ہے۔ ورنہ اس نظام پر عوام کا اعتماد ختم ہوکر رہ جائے گا جو کسی صورت میں سود مند نہ ہوگا۔

Check Also

Danda Peer Aye Shuf Shuf

By Zafar Iqbal Wattoo