1.  Home/
  2. Blog/
  3. Farooq Bahaul Haq/
  4. Shahbaz Ki Parwaz

Shahbaz Ki Parwaz

شہباز کی پرواز

آخر کار اقتدار کا ہما میاں محمد شہباز شریف کے سر پر بیٹھ ہی گیا۔ میاں شہباز شریف کی طرز سیاست سے اختلاف رکھنے والے بھی ان کی انتظامی صلاحیتوں کے قائل ہیں۔ وہ مشکل سے مشکل حالات سے نبرد آزما ہونے کا ہنر جانتے ہیں، اگر انہیں مرد بحران کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا وہ پاکستان کے تجربہ کار سیاستدانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے کے لئے طویل انتظار کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بھائی کے وفادار ساتھی بھی ثابت ہوئے۔

انہیں متعدد مرتبہ میاں محمد نواز شریف سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ مسلم لیگ نون کا ووٹ بینک صرف اور صرف میاں نواز شریف کی شخصیت کے ساتھ منسلک ہے۔ وہ اپنے بڑے بھائی کے ہر فیصلے کے ساتھ کھڑے رہے۔ گزشتہ تین ہفتوں کے اعصاب شکن ماحول سے گزرنے کے بعد قومی اسمبلی نے انہیں قائد ایوان منتخب کیا، اس دوران وہ کچھ ہوا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ قومی اسمبلی کے اراکین ایک لمبے عرصے کیلے اسلام آباد میں موجود رہے۔

عدالتوں نے دن اور رات کا فرق ختم کیے رکھا، جناب عمران خان نے اپنا بیانیہ عوام کے سامنے بھرپور انداز میں پیش کیا، لیکن یوں لگتا تھا کہ جیسے اس مرتبہ قدرت میاں شہباز شریف پر مہربان ہوگئی۔ میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم جس کا عنوان ہی "شہباز شریف کا اطمینان "تھا اس میں لکھا تھا کہ تمام تر سیاسی تلاطم کے باوجود میاں شہباز شریف کا اطمینان اس بات کا غماز ہے کہ وہ سمندر کی تہ میں اٹھنے والے طوفان سے باخبر ہیں اور آنے والے حالات کے متعلق خود کو تیار کرنے میں مصروف ہیں اور پھر ایسے ہی ہوا۔

یہ کون سوچ سکتا تھا کہ آصف علی زرداری انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کرنے کے لیے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔ عمران خان نے بھی آخر وقت تک اپنے اعصاب پر قابو رکھا، کچھ نا گفتنی باتوں کے باوجود انجام بخیر ہوا اور ایک آئینی طریقے سے انتقال اقتدار کا ایک بڑا مرحلہ مکمل ہوا۔ میں میاں شہباز شریف کو گزشتہ 20 برس سے قریب سے جانتا ہوں، ان کے انداز حکمرانی سے بھی آگاہی ہے۔

لیکن ایک حقیقت ان کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ وزارت عظمیٰ کی کرسی پھولوں کی سیج نہیں، یہاں پر ذوالفقار علی بھٹو جیسے مدبر، محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی عالمی ویژن رکھنے والی شخصیت، اور میاں نواز شریف جیسے ٹھنڈے دل و دماغ رکھنے والے گہرے انسان کو بھی اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں ملا۔ عمران خان کا حشر ابھی کل کی بات ہے، میاں شہباز شریف کو وہ آزادی حاصل نہیں جو پہلے وزراء اعظم کو حاصل تھی۔ میاں نواز شریف کی آرا اور ہدایات کو نظر انداز کرنا ان کے لیے ممکن نہ ہوگا۔

فیصلہ سازئ میں ان کے ہاتھ بندھے ہوے ہوں گے۔ اسلام آباد کے حالات لاہور سے قطعی مختلف ہیں، یہاں انہیں بڑے چیلنجز درپیش ہیں، مہنگائی کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے پوری دنیا کی معیشت کو لرزا کر رکھ دیا ہے، روس اور یوکرائن کی جنگ نے نئ عالمی صف بندی کی طرف قدم بڑھایا ہے، افغانستان سے بھی اچھی خبریں نہیں ہیں، ایف اے ٹی ایف کی تلوار بدستور لٹک رہی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے جا رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ماضی میں اشتراک اقتدار کا تجربہ کچھ کامیاب نہیں رہا۔ جناب آصف علی زرداری، مسلم لیگ نون اور شریف برادران کے متعلق ایک مخصوص رائے رکھتے ہیں۔ دوسری طرف ایم کیو ایم کے مطالبات کی ایک طویل فہرست ہے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اتحادیوں کے معاملات بھی الگ طرح کی توجہ کے متقاضی ہیں اب دیکھنا یہ ہوگا کہ میاں شہباز شریف ان معاملات سے کیسے عہدہ برا ہوتے ہیں؟

وہ خوب جانتے ہوں گے کہ مرکز اور صوبے کے انداز حکمرانی میں بھی واضح فرق ہے اور یہی شہباز شریف کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ ان کی طرف سے ٹیم کا انتخاب ان کی ترجیحات کو واضح کرے گا۔ میں پاکستان کی عملی سیاست کا طالبعلم ہونے کے ناطے یہ ضرور عرض کروں گا کہ وہ بیوروکریسی کے بجاے منتخب نمائندوں پر انحصار کریں۔ فیصلے کرنے میں اپنے سیاسی دوستوں کی آرا کو اہمیت دیں۔ مسلم لیگ کی تنظیم میں اہل اور قابل افراد کو اپنے دائرہ مشاورت میں لےآئیں۔

حکمرانوں کے گرد غیر منتخب افراد اور افسران کا ایسا دائرہ بن جاتا ہے جو انہیں عوام اور عوامی نمائندوں سے دور کرتا ہے حالانکہ انہیں تو عوام سے طاقت حاصل کرنا ہوتی ہے۔ میاں شہباز شریف کو یقیناً علم ہوگا کہ پاکستان کے نوجوانوں کی بھاری اکثریت آج بھی عمران خان سے بے پناہ محبت کرتی ہے۔ گزشتہ دنوں لاکھوں افراد نے ان کے حق میں ٹویٹ کیے۔ اندرون ملک اور بیرون ملک لاکھوں افراد سڑکوں پر نکلے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں یہ بھی ایک انوکھا واقعہ ہے کہ اقتدار کے خاتمے کے بعد عوام سڑکوں پر نکلے ہوں۔

تحریک انصاف کا اقتدار ختم ہونے کے بعد میں نے نوجوانوں کو افسردہ دیکھا ہے۔ ان کے لہجے میں تلخی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا وطیرہ بن چکا ہےکہ جب انہیں اقتدار سے محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو مقتدر اداروں کو نشانہ پر رکھ لیا جاتا ہے۔ اس طرز عمل کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ موجودہ سیاسی بحران کے دوران اپوزیشن جماعتوں کے چوٹی کے راہنما انہی اداروں سے مداخلت کا مطالبہ کرتے رہے تاہم انہوں نے غیر جانبداری کا تاثر قائم رکھا۔

لیکن الیکٹرانک میڈیا کے بعض حصوں نے یک طرفہ تجزیاتی رپورٹنگ کر کے اپنے وقار کے منافی جانبدارانہ رویہ کا مظاہرہ کیا۔ تحریک انصاف کو بھی اپنی نالائقی، نااہلی اور بیڈ گورننس کا ملبہ فوج پر ڈالنے کے بجائے اپنی اداؤں پر غور کرنا چاہیے۔ رخصت ہوتے حکمرانوں کے قابل تحسین اقدامات کی تعریف رواج نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں، اسلاموفوبیا کے خلاف جرات مندانہ موقف اختیار کرنے، یکساں نصاب تعلیم کے نفاذ، اور گستاخانہ خاکوں کے خلاف ٹھوس موقف جیسے اقدامات کو ہمیشہ یاد رکھا جاے گا۔

اب عمران خان کے لیے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ عوام میں نکلیں۔ اپنی جماعت کو ضلع تحصیل اور یونٹ لیول پر منظم کریں۔ نظریاتی لوگوں کو ٹکٹ دیں۔ الیکٹیبلز کے چکر سے خود کو آزاد کریں۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں اس وقت صوبائی اور علاقائی جماعتوں کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ اگر عمران خان نے اپنی جماعت کی تنظیم پر توجہ نہ دی تو یہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوگی۔ انہیں چاہیے کہ وہ پاکستانی سیاست کو ایک صحت مند سیاسی مقابلے کی طرف لے جائیں۔ الزام تراشیوں، دشنام طرازیوں، اور گالم گلوچ سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔

Check Also

Kahaniyan Zindagi Ki

By Mahmood Fiaz