1.  Home/
  2. Blog/
  3. Farooq Bahaul Haq/
  4. OIC Conference Aur Dakhli Intishar

OIC Conference Aur Dakhli Intishar

او آئی سی کانفرنس اور داخلی انتشار

21اگست 1969کو ایک آسٹریلوی عیسائی ڈینس مائیکل نے یروشلم میں مسجد اقصیٰ میں موجود 800 سالہ قدیم منبر کو آگ لگا دی جس کی لپیٹ میں مسجد اقصیٰ کی چھت بھی آ گئی۔ اِس واقعہ کے بعد پورے عالمِ اسلام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اُس وقت کے مفتیٔ اعظم فلسطین امین الحسینی نے سخت احتجاج کیا اور پورے عالمِ اسلام کو اِس واقعہ پر مضبوط موقف اختیار کرنے کی دعوت دی۔

مفتی اعظم فلسطین کی پکار پر سعودی عرب اور مراکش نے قائدانہ کردار ادا کیا، جن کی کوشش سے مراکش کے شہر رباط میں مسلم دنیا کے سربراہ اکٹھے ہوئے۔ 25ستمبر 1969کو اسلامی سربراہی کانفرنس کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ اس کے چھ ماہ بعد ایک مرتبہ پھر سعودی عرب آگے بڑھا اور اسلامی ممالک کے تمام وزراء خارجہ کا پہلا باقاعدہ اجلاس جدہ میں منعقدہ کیا۔ 1972میں او آئی سی کو باقاعدہ تنظیم کی شکل دی گئی اور یہ طے پایا کہ اس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہر سال منعقد ہوگا جب کہ سربراہی اجلاس ہر تین سال بعد منعقد ہوا کرے گا۔

او آئی سی کے چارٹر میں کہا گیا تھا کہ اسلامی، اقتصادی اقدار کا تحفظ، آپس میں یکجہتی کا فروغ، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کے فروغ، عالمی امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے گا،۔ یہاں پر ایک اور دلچسپ حقیقت کا ذکر کرنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔ 1924میں خلافتِ عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد موتمر عالمِ اسلامی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تھا، اس وقت کے سعودی حکمران شاہ عبدالعزیز نے حج کے موقع پر مسلم امہ کے سربراہ اور اسکالرز کو اکٹھا کیا اور مشترکہ موقف اپنانے کے لیے ایک تنظیم کی داغ بیل ڈالی۔

1931میں بیت المقدس کے مقام پر موتمر عالمِ اسلامی کے پہلے انتخابات منعقد ہوئے جس میں مفتی اعظم فلسطین کو عالمِ اسلام کا باقاعدہ سربراہ منتخب کیا گیا۔ دنیا کے تمام براعظموں سے ایک اہم شخصیت کو بطور نائب صدر منتخب کیا گیا، اسلامی کانفرنس اور موتمر عالمِ اسلامی کی تاریخ اگرچہ قابلِ رشک نہیں رہی، عالم اسلام کو درپیش مشکلات پر او آئی سی کا موقف کبھی جاندار نہیں رہا۔

ابتدائی طور پر تو اس کو امریکی بلاک سے تعلق رکھنے والے ممالک کی تنظیم کہا جاتا تھا لیکن 1974ءمیں ہونیوالی اسلامی سربراہی کانفرنس سے یہ تاثر کافی حد تک زائل ہوا جب امریکی بلاک کے ساتھ ساتھ روسی بلاک سے تعلق رکھنے والے ممالک نے بھی اِس کانفرنس میں بھرپور شرکت کی۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کے سربراہی اجلاسوں کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس ابھی تک واحد کانفرنس ہے جس میں دنیا کے سب سے زیادہ ممالک نے شرکت کی۔

اس کانفرنس کو کامیاب کرنے میں بھی سعودی سربراہ شاہ فیصل نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ یہی وہ کانفرنس تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، معمر قذافی اور یاسر عرفات عالمی لیڈر بن کر اُبھرے۔ پاکستان میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں پہلی دفعہ فلسطین کو علیحدہ مملکت کا اسٹیٹس دیا گیا، بعد میں اسی بنیاد پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔ 1974میں لاہور میں منعقد ہونے والی سربراہ کانفرنس میں مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، فلسطین سے ہی یاسر عرفات، شاہ فیصل، یوگنڈا سے عیدی امین، تیونس سے بومدین، لیبیا سے کرنل قذافی، مصر سے انور سادات، شام سے حافظ الاسد، بنگلہ دیش سے شیخ مجیب الرحمان، ترکی سے فخری کورو سمیت تمام بڑے رہنما شریک تھے۔

اس تنظیم کے عروج کا تو یہ عالم تھا کہ 1980میں پاکستان کے صدر محمد ضیاء الحق نے امت مسلمہ کے متفقہ لیڈر کے طور پر اقوامِ متحدہ سے خطاب کیا اور ان کے خطاب سے قبل ریکارڈڈ تلاوت قرآن بھی چلائی گئی اور پھر زوال کا یہ عالم ہوا کہ ایران عراق جنگ کو بند کرانے میں ناکامی ہوئی، یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ فورم غیرمؤثر ہوتا چلا گیا۔ کشمیر اور فلسطین کے مسائل جوں کے توں رہے۔ کویت پر صدام حسین کے حملے کا آبرو مندانہ حل نہ نکل سکا۔

او آئی سی کے ساتھ ایک دردناک حقیقت یہ بھی وابستہ ہے کہ اس کے عروج سے جڑے تمام کردار آہستہ آہستہ غیر طبعی موت مر گئے لیکن تاریخ میں آج بھی ان کا نام محفوظ ہے۔ 22مارچ سے شروع ہونے والی اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس پاکستان کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ 1974کی اسلامی سربراہی کانفرنس نے بھٹو کو عالمی لیڈر بنا دیا تھا اب دیکھتے ہیں کہ عمران خان اس کانفرنس سے کتنا فائدہ سمٹ سکیں گے۔

بعض حکومتی نا اہلیوں کے باعث پاکستان کا بین الاقوامی تشخص اچھا نہیں رہا۔ ان حالات میں دنیا بھر کے اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے وزرائے خارجہ کی پاکستان تشریف آوری پاکستان کے سافٹ امیج کو بہتر بنانے میں مدد دے گی۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے شاندار انتظامات کیے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق اس کانفرنس میں سو سے زائد قراردادیں منظور ہونے کی توقع ہے۔ یہ کانفرنس ایسے ماحول میں منعقد ہو رہی ہے جب پاکستان میں سیاسی انتشار عروج پر ہے، کانفرنس کے میزبان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں پیش ہو چکی ہے، ملک میں شدید سیاسی تناؤ کا عالم ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی بیڈ گورننس کے باعث اپنے مخالفین کو کھیل کھیلنے کا موقع فراہم کردیا ہے، وزیراعظم کی غیرمحتاط گفتگو نے سیاسی کلچر پراگندہ کر دیا ہے۔ دونوں اطراف سے متضاد دعوے کیے جا رہے ہیں۔ معزز اراکین پارلیمنٹ کی وفاداری تبدیل کرنے کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں۔ سیاسی اخلاقیات کا جنازہ ہی نکال دیا گیا ہے۔ ہماری نوجوان نسل حیران ہوکر یہ مناظر دیکھ رہی ہے۔

او آئی سی کانفرنس کے متعلق بلاول بھٹوزرداری کے غیر ذمہ دارانہ بیان نے ایک مرتبہ تو تمام حلقوں کو ششدر کر دیا تھا تاہم اپوزیشن کے مشترکہ اعلامیہ نے اس زخم پر مرہم رکھنے کی پوری کوشش کی۔ 28سالہ نوجوان سیاستدان سے لے کر 70سالہ بزرگ رہنماؤں تک کے غیر محتاط رویے نے قوم کو مایوس کیا ہے۔ حکومت کی بد انتظامی، نااہلی اور کرپشن کی داستانیں زبان زد خاص و عام ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 28 مارچ کو اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

Check Also

Gandum, Nizam e Taleem, Hukumran Aur Awam (2)

By Zia Ur Rehman