Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farooq Bahaul Haq
  4. IMF Ka Shikanja

IMF Ka Shikanja

آئی ایم ایف کا شکنجہ

پاکستانی معیشت حقیقی معنوں میں اس وقت آئی سی یو میں ہے۔ روپے کی سانس اکھڑ رہی ہے۔ درآمدات اور برآمدات کا توازن بری طرح مجروح ہو کر رہ گیا ہے۔ معیشت کے میدان میں کہیں سے بھی اچھی خبر سننے کو نہیں مل رہی۔ سعودی عرب اور عرب امارات کے دورے بھی اس طرح فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکے جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ آئی ایم ایف کی معاشی ٹیم اس وقت تک مذاکرات کرنے پر آمادہ نہیں جب تک سبسڈیز ختم نہ کی جائیں۔

لیکن میاں شہباز شریف کی حکومت اس سنگینی سے آگاہ ہے کہ اگر سبسڈی ختم کر کے قوم پر پٹرول اور بجلی کا بم گرایا گیا تو اس کے ناقابل تلافی معاشی اور سیاسی نقصانات ہونگے۔ پاکستان کا قرضہ 53 سے 5 کھرب روپے ہو چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کے ساڑھے تین برس کی حکومت میں پاکستان کے مجموعی قرضوں میں 23 سے 7 کھرب روپے اضافہ ہوا۔

آسان الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ساڑھے تین برسوں کی حکومت میں پاکستان کے قرضوں میں 80 فیصد اضافہ ہوا جو گزشتہ دو حکومتوں کے لیے گئے قرضوں سے دو گنا ہے۔ بجٹ خسارہ 5 سے 5 کھرب روپے اور کرنٹ خسارہ 14 ارب ڈالرز تک پہنچ رہا ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کا بظاہر واحد راستہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا ہے۔

ان شرائط پر عمل کرنے سے پاکستان کے گرد ایسا معاشی شکنجہ کس دیا جائے گا جس سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو کر رہ جائے گی اور اگر عالمی مالیاتی فنڈ کا یہ پروگرام اختیار نہ کیا جائے تو خاکم بدہن پاکستان میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں پاکستان سمیت کئی ترقی پذیر ممالک نے آئی ایم ایف کا پروگرام کامیابی سے مکمل بھی کیا۔ اگر اداروں میں موجود بد انتظامی پر قابو پا لیا جائے تو اب بھی اس گرداب سے نکلا جا سکتا ہے۔

اس مشکل صورتحال سے نکلنے کیلئے وفاقی حکومت گو مگو کا شکار ہے۔ میاں شہباز شریف اتحادیوں کے نرغے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ ان کی بے بسی ان کے چہرے سے عیاں ہے۔ وفاقی حکومت کو علم ہونا چاہئے کہ عالمی مالیاتی فنڈ کے 5 ارب ڈالر بھی ملک کو معاشی استحکام نہیں دے سکیں گے۔ اگر مسلم لیگ ن نے فوری انتخابات کا فیصلہ نہ کیا تو اس پر مہنگائی اور بد انتظامی کا ایسا داغ لگے گا جو ایک عرصہ تک دھل نہیں سکے گا۔

پاکستان کی تاریخ میں اتنے مشکل معاشی حالات کبھی پیدا نہیں ہوئے جس طرح کی صورتحال کا سامنا آج کرنا پڑ رہا ہے۔ اس معاشی بد حالی کے براہ راست اثرات پاکستان کی سلامتی پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کے دشمنوں کی آنکھ میں ہمارا ایٹمی پروگرام کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ خاکم بدہن اس طرح کے ناگفتہ بہ حالات میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے کی بات بھی کی جا سکتی ہے۔

ایک طرف ملک میں معاشی انارکی عروج پر ہے دوسری طرف سیاسی جماعتیں اور ادارے ایسے محیرالعقول کارنامے سر انجام دے رہے ہیں کہ جنہیں پڑھ کر سر چکرا جاتا ہے کہ کسی مہذب معاشرے میں ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ قومی اسمبلی میں اپنی جماعت سے غداری کرنے والے لوگوں کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین اور اپوزیشن لیڈر بنایا جا رہا ہے۔ گورنر پنجاب جس طرح آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے رہے وہ بھی اپنی جگہ پر نادر واقعہ ہے۔

پنجاب اسمبلی میں وزیراعلیٰ کے انتخابات کے وقت جو کچھ ہوا وہ تو اپنی جگہ پر ہے۔ لیکن تحریک عدم اعتماد جس تیزی سے نمٹائی گئی وہ بھی ملک کی پارلیمانی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ سیاسی جماعتوں میں بدزبانی کا کلچر عروج پر ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں خواتین کی کردار کشی پر اتری ہوئی ہیں۔ کوئی وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ پر بات کرتا ہے تو عمران خان بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے اور ذومعنی جملوں کے استعمال سے حاضرین سے داد وصول کر رہے ہیں۔

یہاں پر اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے پاکستان میں سیاسی جلسوں کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ ملتان سمیت ان کے تمام جلسوں نے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان نے مسلم لیگ ن کا بیانیہ پس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ یہاں تک کہ مذہبی جماعتوں سے مذہب کا نام چھین لیا ہے۔

اس کے زور بیان کا یہ عالم ہے کہ نوجوان اپنے والدین کے نقطہ نظر سے اختلاف کرنے لگے ہیں۔ 25 مئی کے دھرنے کیلئے ایسے اقدامات سے گریز کرنا ہو گا جس سے خدانخواستہ ماحول نا خوشگوار ہو جائے۔ میں نے گزشتہ کالم میں بھی عرض کیا تھا کہ مسلم لیگ نون کے پاس عمران خان کے بیانیے کا توڑ کرنے کیلئے میاں نوازشریف سے بہتر اور کوئی شخصیت موجود نہیں لیکن ان کی علالت اور جلا وطنی کے باعث یہ خلا پورا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔

حالیہ دنوں میں پاکستان کی عدالتوں نے بھی کارکردگی کی نئی مثالیں قائم کی ہیں۔ اب تو خیر سے کوئی بھی با اثر آدمی گرفتار ہوتا ہے تو اسی وقت وہ زنجیر عدل ہلاتا ہے اور کھٹ سے انصاف کا در کھل جاتا ہے۔ ان کے لیے اتوار کو بھی عدالتیں کھل جاتی ہیں۔ سزائے موت کی اپیلوں کے منتظر قیدی جو کئی سال سے انصاف کے متلاشی ہیں اور بعض تو دوران قید ہی زندگی کی قید سے بھی آزاد ہو جاتے ہیں شاید ان کا ریاست اور ریاستی اداروں پر کوئی حق نہیں۔

البتہ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر دسویں جماعت کی طالبہ کو جس مہارت اور تیزی سے بازیاب کیا گیا اس سے یہ ثابت ہوا کہ عدلیہ اور پولیس اگر غریب کو انصاف مہیا کرنا چاہیں تو کر سکتی ہیں۔ عدالت عالیہ کا حکم اور پنجاب پولیس کی کارکردگی تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہے۔ اب ہر پاکستانی کے لبوں پر یہ سوال ہے کہ ایسا کب تک چلے گا؟ نا اہل حکمرانوں کی سزا عوام کو کب تک ملتی رہے گی؟ انصاف کا دہرا نظام کب تک غریب عوام کا منہ چڑاتا رہے گا؟

اے حکمران اشرافیہ؟ خدا کا خوف رکھتے ہوئے پھر اکٹھے ہوں۔ پاکستان کے غریب عوام کی زندگی آسان بنانے کیلئے اقدامات کریں۔ ایسا نہ ہو کہ عوام خود عدالتیں لگائیں اور خود انصاف مہیا کرنے لگیں۔

Check Also

Nakara System Aur Jhuggi Ki Doctor

By Mubashir Aziz