Farz Karen
فرض کریں
فرض کریں عدم اعتماد کے جال میں پھڑپھڑاتے وزیر اعظم اقتدار سے محروم ہو جائیں، فرض کریں تمام سیاسی جماعتوں کے جتھے اسلام آباد میں آکر سیاسی تبدیلی کا بگل بجا دیں۔ فرض کریں انتقا ل اقتدار کے نتیجے میں وزارتِ عظمیٰ کا ہما جناب میاں شہباز شریف کے سر پر بیٹھ جائے، فر ض کریں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا تاج چوہدری پرویز الہٰی کے سر پر سج جائے، فر ض کریں جناب میاں شہباز شریف تمام اتحادیوں کو لے کر بطریق احسن حکومت چلانا شروع کر دیں۔
فرض کریں پاکستان پیپلز پارٹی جناب شہباز شریف حکومت کیلئے مشکلات پیدا نہ کرے، فرض کریں پنجاب میں تحریک انصاف مسلم لیگ نون کی راہ کا کانٹا نہ بنے، تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ملک میں فوراََ دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی؟ ایف اے ٹی ایف کے گرداب سے پاکستان نکل آئے گا؟ آئی ایم ایف کی شرائط کا شکنجہ نر م ہوجائے گا؟ بھارت کی طرف سے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششیں ماند پڑ جائیں گی؟ ہچکولے کھاتی معیشت کی کشتی ساحل آشنا ہوجاے گی؟
ڈالر کی اڑان رک جائے گی؟ پٹرول کی قیمتیں اپنی جگہ پر برقرار ہو جائیں گی؟ بد زبانی کے جس کلچر کو فروغ دیا گیا ہے وہ تھم جائے گا؟ مجھ جیسا سیاست کا طالبعلم یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر ایسی کیا افتاد آن پڑی تھی کہ حکومت کے آخری برس میں تحریک عدم اعتماد لانے کی ضرورت پیش آگئی۔ پاکستانی سیاست پر نگاہ رکھنے والے تجز یہ نگار حیران ہیں کہ سیاسی طور پر اپنے انجام سے دوچار ہونے والی تحریک انصاف کی حکومت کو آکسیجن فراہم کرکے کس سیاسی عقلمندی کا ثبوت دیا جارہا ہے؟
مہنگائی کے عفریت کو بوتل سے نکالنے والوں کو سیاسی شہید بنانے کی کوشش کرنے کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہو سکتے ہیں؟ چھ ماہ یا ایک ڈیڑھ سال کی حکومت سے پی ڈی ایم، ملک میں کس انقلاب کی امید لگاکر بیٹھی ہے؟ ملک میں موجودہ سیاسی بھونچال اگلے ہفتہ دس دنوں میں ختم ہو جانے کی امید ہے۔ جب یہ گرد بیٹھ جائے تو ان سربرآوردہ سیاسی رہنماؤں میں سے کوئی رہنما ہمیں بھی یہ سمجھا دے کیا آخر اس ساری مشق کا مقصد کیا تھا؟
عمران خان اقتدار سے ہٹ جاتے ہیں تو اس سے ملک کو کون سے فوائد ملیں گے اور اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جاتی ہے تو وہ کون سے عظیم منصوبے ہیں جن کی تکمیل کی طرف تیزی سے کام شروع ہو جائے گا؟ اس مشق کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اشاروں کنایوں میں اس ادارے کی طرف اشارے کیے جارہے ہیں جس کے افسر اور جوان سرحدوں پر جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ دوسری طرف اس خطہ کی دہلیز پر جنگ کے شعلے بھڑکے ہوئے ہیں۔
روس اور یوکرین کی جنگ نے پورے علاقے کو دہکتا ہوا انگارہ بنا دیا ہے۔ امریکی صدر کے دورہ پولینڈ نے بین السطور یوکرائن کے ساتھ کھڑا ہونے کا عندیہ دیا ہے اس جنگ کے اثرات سے ایشیا کا کوئی ملک نہیں بچ سکتا۔ افغانستان کے اندر عدم استحکام نے پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات میں یکدم اضافہ کر دیا ہے۔ عالمی منظر نامے پر بنتے اور ٹوٹتے نئے بلاک تمام ممالک کی اندرونی سیاست پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ پاکستان بھی ان اثرات سے محفوظ نہیں۔
پریڈ گراؤنڈ جلسہ میں جناب عمران خان نے بھٹو کے انداز میں ایک کاغذ لہرا کر اس خیال کو تقویت دینے کی کوشش بھی کی، ان اثرات کے ساتھ ساتھ اگر انسانی ترقی کے سفر پر نظر ڈالی جائے تو موجودہ صدی میں انسانیت نے جتنی فقید المثال ترقی کی ہے ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انسان نے خلا سے گزرتے ہوئے نئے سیاروں پر دنیائیں تلاش کر لی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک اک نئے تجربات سے گزر کر اپنی قوم کے لئے تر قی کی نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان نے ترقی معکوس کا سفر شروع کر دیا۔
پاکستان ووٹ کی طاقت سے معرض وجود میں آیا تھا لیکن ووٹ کی حرمت اور تقدس کو جس طرح پامال کیا گیا اس کے نتائج قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستانی سیاست جس طرح بازیچہ اطفال بنی رہی وہ ہماری تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ ہم نے بھٹو کا عروج دیکھا اور پھر تحریک ِنظامِ مصطفیٰؐ کے ذریعے انہیں تختہ دار پر جھولنے کا منظر بھی قوم نے دیکھا۔ ضیاء الحق کا اسلامی مارشل لا دیکھا اور پھر اس کے بعد بنتی بگڑ تی جمہوریتوں کو بھی ملاحظہ کیا۔
90 کی دہائی کی رسہ کشی تو ابھی کل کی بات ہے۔ جب اسلام آباد کے اقتدار کی کرسی میوزیکل چیئر کا منظر پیش کرتی رہی۔ اس وقت جلسوں میں جو زبان استعمال کی جاتی تھی اس زمانے کے مطابق اس کی کسی بھی باشعور طبقے نے تعریف نہیں کی تھی۔ میثاق جمہوریت کے بعد یہ امید بندھ چلی تھی کہ شاید اب ہمیں بھی صحیح جمہوری پاکستان دیکھنا نصیب ہوگا لیکن" اے بسا کی آرزو کہ خاک شدہ"۔ جلسوں اور بیانات کا مقابلہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔
حکومتی ترجمان اور اپوزیشن راہنما سنبھالے سنبھل نہیں رہے۔ منہ سے جھاگ اڑ رہی ہے۔ آستینیں چڑھا کر ایک دوسرے کے وہ لتے لیے جارہے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔ حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے بھرپور جلسوں کے بعد سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔ عدم اعتماد سے جڑے کچھ معاملات اعلیٰ عدلیہ میں بھی زیر سماعت ہیں۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ گزشتہ ایک دہائی میں عدالتی فیصلوں کا براہ راست اثر ملکی سیاست پر مرتب ہوا۔ 2007 کے بعد اعلیٰ عدلیہ کا ایک طاقتور کردار نمایاں ہوا۔
2012 میں عدالتی فیصلے کے نتیجے میں سید یوسف رضا گیلانی کو وزارتِ عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے جبکہ 2017 میں پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد میاں محمد نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔ اس تناظر میں صدارتی ریفرنس نے اہمیت اختیار کر لی ہے۔ سیاسی میدان، پارلیمنٹ اور عدالتوں میں جاری قانونی اور سیاسی لڑائی کا نتیجہ کچھ بھی نکلے، پاکستان کی سیاسی اقدار کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کیلئے سیاسی قیادت کو مل کر بیٹھنا ہوگا۔
عالمی صف بندی میں پاکستان کے نئے کردار کا تعین کسی ایک سیاسی جماعت کے بس کی بات نہیں بلکہ اجتماعی دانش سے اس چیلنج سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔