Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Farooq Bahaul Haq
  4. Dr Amjad Saqib Aur Nobel Inam

Dr Amjad Saqib Aur Nobel Inam

ڈاکٹر امجد ثاقب اور نوبل انعام

ایک قابل فخر پاکستانی شہری ڈاکٹر امجد ثاقب کی نوبل انعام کیلئے نامزدگی کی خبر نے پوری قوم کو خوشی سے نہال کردیا ہے۔ سیاسی بکھیڑوں، معاشی الجھنوں، اور معاشرتی ناہمواری کی شکار پاکستانی قوم کیلئے یہ خبر باد نسیم کا ایک جھونکا ثابت ہوء ہے۔ دنیا کے سامنے پاکستان کا مثبت چہرہ مزید نمایاں ہوا ہے۔

اس وقت پاکستان میں متعدد ادارے سماجی خدمت کے شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ عبد الستار ایدھی، محترمہ بلقیس سیدھی۔ مادام رتھ فاؤ اور دیگر کئی شخصیات اور ادارے مصروف عمل ہیں۔ تاہم ڈاکٹر امجد ثاقب کی خدمات اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ ایک تو انہوں نے تعلیم پر فوکس کیا ہے اور دوسرا انہوں نے قوم کو امداد کے بجاے کاروبار کی راہ پر لگایا ہے۔ انہوں نے ثابت کیا پاکستانی قوم کو نہ صرف محنتی اور خوددار ہے بلکہ دیانت دار بھی ہے۔

اخوت فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اس کی طرف سے جاری کیے گئے قرضوں کی واپسی کی شرح اٹھانوے فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ اور ہر قابل آدمی کی طرح سول سروس میں شمولیت اختیار کی۔ جس عہدے پر فائز رہے وہاں پر اپنی قابلیت، اہلیت اور دیانت کے گہرے نقوش ثبت کیے۔۔

انہوں نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر 2001 اخوت فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ اور دس ہزار روپے کی رقم سے سے بلا سود قرضوں کے حیرت انگیز نظام کا آغاز کیا۔ وہ شعوری طور پر یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کا سرمایہ دارانہ نظام عام آدمی کے لیے کسی شکنجے سے کم نہیں۔ اگر کوئی شخص کسی بھی بینک سے قرض کے چنگل میں پھنس جاتا ہے تو پھر سود در سود کے چکر سے نکلنا ممکن نہیں ہوتا۔

انہوں نے پاکستانی قوم کے لیے بلا سود قرضوں کی روایت کی بنیاد رکھی۔ ان کی پہلی قرض خواہ لاہور کے مضافاتی آبادی میں رہنے والی چند خواتین تھیں جو سینے پرونے کا کام کرتی تھی۔ ڈاکٹر امجد نے ان خواتین کو خیرات دینے کے بجائے بلا سود قرضے فراہم کیے۔ جس سے قوم میں بھکاریوں کے بجائے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے والے مفید شہریوں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ کیا۔ انہوں نے 2003 میں ملازمت سے استعفیٰ دے دیا اور اپنی ساری توجہ اخوت فاؤنڈیشن کی طرف سے مبزول کر دی۔

آج قریب دو دہائیاں گزر چکی ہیں۔ دس ہزار روپئے سے شروع ہونے والا ادارہ اب تک تقریباً 160ارب روپے بطور قرض دے چکا ہے۔ آج اس ادارے کے 826 سے زائد دفاتر ملک کے 400 چھوٹے بڑے شہروں میں موجود ہیں اور سات ہزار سے زائد ملازمین اس فاؤنڈیشن میں تنخواہ پر کام کر رہے ہیں۔ اس وقت تک قریب تیس لاکھ لوگ اخوت فاؤنڈیشن کے قرضوں سے مستفید ہوچکے ہیں۔

اخوت فاؤنڈیشن کو ملنے والے عطیات میں سے محض پانچ یا چھ فیصد ادارے کے انتظامی امور پر صرف ہوتے ہیں باقی رقم غریب لوگوں کو غربت کی دلدل سے نکالنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ اخوت فاؤنڈیشن کا طرہ امتیاز یہ بھی ہے کہ یہاں پر قرض خواہوں کو صرف یاددہانی کرائی جاتی ہے انہیں عدالت میں نہیں لے جایا جاتا۔ قرضوں کی فراہمی کے مرکزی پروجیکٹ کے ساتھ ساتھ کئی دیگر فلاحی منصوبے بھی جاری ہیں۔

ان میں اخوت کلاتھ بینک، اخوت ہیلتھ سروسز، اخوت ڈریمز پروجیکٹ، اخوت ایجوکیشن اسسٹینٹس پروگرام اور اخوت فری یونیورسٹی اور خواجہ سراؤں کی فلاح و بہبود کے کء پروگرام شامل ہیں۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے پاکستانی قوم کو بھکاری قوم کے بجائے بہادر قوم بنانے کی طرف پیش رفت کی ہے۔ انہوں نے معاشرے میں سماجی اگاہی پروگرام کیلے قابل قدر کام کیے ہیں۔ انہیں نوبل انعام کے لیے نامزد کیے جانے سے نہ صرف پاکستان کے بین الاقوامی امیج میں مثبت اضافہ ہوگا بلکہ سماجی شعبے میں کام کرنے والے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی ہو ممکن ہو سکے گی۔

میری ڈاکٹر امجد ثاقب سے پہلی ملاقات آج سے کچھ سال قبل اپٹما کے اس وقت کے چیئرمین ایس ایم تنویر کے ہمراہ لاہور ایک نجی کلب میں ہوئی جہاں پر انکی کتاب کامیاب لوگ کی تقریب رونمائی کا پروگرام تھا۔ لیکن ان سے زیادہ شناسائی اس وقت ہوئی جب ان کی کتاب چار آدمی پڑھنے کا موقع ملا۔ میں شعوری طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر امجد ثاقب کی یہ کتاب سب بچوں کو پڑھانی چاہیے۔ اور عملی زندگی میں قدم رکھنے والے نوجوانوں کے لیے یہ کتاب ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ میں کتاب کے آخری صفحات پڑھ رہا تھا کہ یہ خوش کن خبر سننے کو ملی۔

نوبل انعام کیلئے نامزد پاکستان کے قابل ترین شخص ڈاکٹر امجد ثاقب نے اپنی کتاب میں یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کامیابی کے لیے پیسے سے زیادہ محنت اور مستحکم ارادہ کی ضرورت ہے۔

رمضان المبارک کے مقدس ماہ میں اخوت فاؤنڈیشن کے ساتھ ساتھ میں ان سماجی تنظیموں کا تزکرہ بھی ضروری سمجھتا ہوں جو اپنے فلاحی کاموں کی بدولت پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کر رہی ہیں اور قوم کی خصوصی توجہ کی مستحق بھی ہیں ان میں فاطمید فاؤنڈیشن، سندس فاونڈیشن، انجمن ہلال احمر، مسلم ہینڈز انٹر نیشنل، ایل آر بی ٹی، ضیاالامہ فاؤنڈیشن، مسلم گلوبل ریلیف، مسلم چیرٹی، المصطفی ویلفیئر سوسائٹی، المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ(برطانیہ، پاکستان) اور الخدمت فاؤنڈیشن نمایاں ہیں۔

مسلم ہینڈز انٹرنیشنل کا لنگر پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا منفرد پراجیکٹ ہے جو برصغیر، افریقی ممالک کے علاؤہ یورپ میں بھی بے سہارا اور مزدوروں کو مفت کھانا فراہم کررہا ہے۔ اسی طرح لاہور گرامر سکول جوہر ٹاؤن برانچ کے بچوں نے "فلاح "کے نام سے ایک سماجی تنظیم قائم کر رکھی ہے جس کا نعرہ "خدمت سے خدا ہے"۔

طلبہ کی یہ تنظیم موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے لوگوں کو آگاہ کرنے میں متحرک ہے، جب کہ رمضان المبارک میں مستحق لوگوں کی باوقار اور باعزت طریقے سے خدمت کی جا رہی ہے، ان سب اداروں کی خدمت اور اعانت ہم سب کا فرض ہے۔ رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے میں سیرت النبی ﷺ کے ایک منفرد موضوع پر خوبصورت کتاب سالار اعظم کے نام سے منظر عام پر آئی ہے۔

یہ کتاب حضور ضیاء الامت رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند ارجمند میجر ریٹائرڈ محمد ابراہیم صاحب نے تحریر کی ہے۔ اس میں رحمت عالم ﷺ کی سیرت کو ایک فوجی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اور حضور اکرم ﷺ کی مختلف غزوات میں جنگی حکمت عملی پر مفصل گفتگو کی گئی ہے۔ فوج سے تعلق رکھنے والے افسران نے اس کتاب کو سیرت النبی اور غزوات نبی میں ایک مفید اضافہ قرار دیا ہے۔ اس کا مطالعہ بھی کا قارئین کے لیے مفید ہوگا۔

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad