Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Faria Gul
  4. Main

Main

میں

جہاں میں کا اختتام ہوتا ہے۔

ہمیشہ وہیں سے رب کا کلام ہوتا ہے۔

میں اک تکبر، میں اک انا۔

میں سناٹے میں برپا ہوا شور۔

میں خزاں میں طوفاں۔

میں اک اجڑی ہوئی داستاں۔

یہ لفظ صرف کچھ ہجوں سے مل کر بنا ہے۔ مگر اس کی جڑیں ہمارے اندر تک پھیلی ہوئی ہیں، یہ تناور شجر کی مانند ہیں جو ہمیں ہمارے ہی اصل سے جدا کر دیتی ہیں، ہماری اصلی پہچان تو بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ مگر میں کی جھنکار ہر سو سنائی دیتی ہے۔ ہمارے اندر باہر میں کی پکار ہمیں بہرہ اور اندھا کر دیتی ہے۔ ضمیر کہیں گہری نیند سویا ہوتا ہے۔ بس ہماری میں کا پرچم ہمیشہ سر بلند رہے۔

انسان نفسیاتی طور پر ذہنی کشیدگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ دوسروں کو قبول نہ کرنا اپنی ذات کو ہمیشہ معتبر تصور کرنا انسان کی شخصیت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ ہمیں ہمارے اردگرد ہمارا ہی عکس دیکھائی دیتا ہے۔ آپ ایک ایسے کمرے میں چلے جایئں جہاں ہر طرف آئینے ہی آئینے ہیں۔ آپ کو وہاں سے باہر نکلنے کا رستہ نہیں سجھائی دیتا بس اپنا ہی عکس ہر سو نظر آ رہا ہے۔ چاروں اطراف اوپر نیچے صرف آپ ہی آپ ہیں۔

آپ انہیں سے اپنا آپ ٹکڑا ٹکڑا کر خود کو لہولہان کر لیتے ہیں۔ پہلے پہل آپ کو اپنا عکس دیکھنا اچھا لگتا ہے اور آپ کے پاس واپسی کا رستہ بھی ہے مگر آپ اس کے اسیر ہو کر اس رستے کو بھول جاتے ہیں۔ مگر جونہی آپ اس سے مانوس ہوتے جاتے ہیں۔ پہلے پہل خوشی ہوتی ہے، پھر عادت اور پھر اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ پھر یہی اکتاہٹ آپ کا پاگل پن بن کر اسی آئینے کی دیواروں سے سر ٹکڑانے پر مجبور کر دیتی ہے۔

یہی حال انسان کا ہے۔ آغاز میں اسے اپنا آپ اچھا لگتا ہے پھر اس کے اختلافات بڑھنے لگتے ہیں۔ اس کے اندر کنڈلی مار کر جو میں کا سانپ بیٹھا ہے وہ وقتاََ فوقتاََ اسے ڈستا رہتا ہے۔ اس کا زہر اس کی رگ رگ میں سرایت کر جاتا ہے۔ ایسا انسان صرف اپنی میں کی بدولت اکیلا رہ جاتا ہے تن تنہا کوئی اس سے بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ میں ہوں اور بس میں۔ اندر کا شور باہر کے حسیں مناظر کو گہری دھند میں نظروں سے اوجھل کر دیتا ہے۔ اور میں کی پکار کانوں کے پردے پھاڑ رہی ہے۔

میں اک انا ضد ہوں

میں رقص تماشا ہوں

میں اور بس میں ہی ہوں

جنون ہے خودی کا

معلوم ہے تجھ کو یہ ہے کیا

افسوس زیاں اور بس

لہجوں کا فقداں اور بس

کہانیوں کا اختتام اور بس

میں اور میں ہی بس

نفس کے سوداگر، تجلی عرضاں اور بس

دنیا کھیل تماشا اور بس

میں اک کٹھ پتلی اور دنیا مداری کے اس بین کی مانند ہے جو دھن پہ ساز چھیڑ کے اس کٹھ پتلی کو اپنے اشاروں پہ نچاتا ہے۔ میں جو ڈھول کی تھاپ پہ دھمال ڈالوں تو نہ نظر آنے والی بیڑیاں مجھے خود میں جکڑے ہوئے ہے، میری میں کے گرد منڈلاتی رہتی ہے۔ میں اک ایسا سانپ ہوں جو خودی کو نوچ ڈالے۔ اپنے زخموں پر ماتم کناں میں اور بس میں ہی میں۔

فقط سوچیں اخیر ہیں اور میں ہوں بس۔

Check Also

Aik Sach

By Kashaf Mughal