Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Faria Gul
  4. Khud Shanasi

Khud Shanasi

خود شناسی

خود شناسی کے بغیر خدا شناسی ممکن نہیں۔ اپنی ذات کی تکمیل، خود کو پہچاننے، کھنگالنے اور اپنے اندر سے ملاقات کرنے کو خود شناسی کہتے ہیں۔

جب ہم خود کو پہنچانتے خود کو کھنگالتے ہیں اپنے مقصد حیات کو پا لیتے ہیں پھر ہم اللہ کے قریب تر ہو جاتے ہیں۔ خودی کی تکمیل اتنا آسان نہیں ہے بہت سے کٹھن ادوار سے خود کو گزارنا پڑتا ہیں۔ تب کہیں جا کر انسان خود سے ملاقات کرتا ہے۔ جب وہ ان سوالوں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔

میں کون ہوں؟ میرا مقصد حیات کیا ہے؟ مجھے کیوں اس دنیا میں بھیجا گیا؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ہم خود کو پہچاننے کے بعد دے سکتے ہیں۔

خالی ڈھول سب سے زیادہ شور کرتا ہے۔ جب تک انسان اپنی خودی تک رسائی نہیں حاصل کر لیتا تب تک وہ خود کو اور دوسروں کو صرف باتوں کے ساتھ مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر وہ اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے۔ اک گہرا سکوت ہوتا ہے اس کے اندر، اور باہر کا شور اسے خود کے اندر جھانکنے نہیں دیتا۔

لطیف دشت علاقہ ہے خود شناسی کا!

زیادہ بھیڑ میں خود سے رجوع نہیں ہوتا

خود شناسی کے مرحلے تک پہنچنے کے لئے ہمیں مختلف ادوار سے گزرنا پڑتا ہیں۔

نفسیات دان ابراہم ماسلو کے مطابق انسان کی بہت سی بنیادی ضروریات ہوتی ہیں۔ جن کی تکمیل کے لیے وہ تا عمر جدوجہد کرتا ہےاور ان ضروریات کو مرحلہ وار حاصل کرتا جاتا ہیں۔ آخر کار انسان خود شناسی کے مرحلے تک پہنچ جاتا ہے۔

انسان جب اس دنیا میں آتا ہے اس کی سب سے اہم اور بنیادی ضرورت جسمانی ضروریات ہیں یعنی کھانے پینے کی پہنے اوڑھنے کی انسان کو خود کو زندہ رکھنے کے لیے ان ضروریات کی تکمیل کے لیے تگ و دو کرتا ہے۔ تب ہی وہ اس معاشرہ میں رہنے کے لیے خود کو اس قابل بناتا ہیں کہ جسمانی ضروریات تک رسائی پا سکے۔

جسمانی ضروریات کے بعد اسی معاشی تخفظ کی ضرورت محسوس ہوتی ہیں۔ وہ خود کو اور اپنی فیملی کو تخفظ فراہم کرنے کے لیے گھر بناتا ہیں تا کہ انہیں ایک محفوظ پناہ گاہ مل سکیں۔

جب انسان خود کو محفوظ تصور کرتا ہیں تو وہ دوسروں کے ساتھ سماجی تعلقات اور روابط قائم کرتا ہیں۔ کیونکہ کوئی انسان اس دنیا میں اکیلا نہیں رہ سکتا اسے دوسروں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کی ضرورت ہوتی ہیں۔

خود سے منسلک رشتوں سے چاہت اور محبت کے جذبات محسوس کرتا ہیں۔ ان سے لگاؤ رکھتا ہیں۔ اس دنیا میں زندگی گزارنے کےلیے محبت کی ضرورت ہوتی ہیں۔

اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان خود کو منوانا چاہتا ہیں۔ اپنی صلاحیتوں کو نکھارتا ہیں۔ خود کو سراہتا ہیں۔ اپنا نام بناتا ہیں۔ خود کی پہچان بناتا ہیں۔ اسے توقیر ذات کہتے ہیں۔ یعنی خودی کی پہچان کا مرحلہ۔

تب کہیں جا کر انسان خود شناسی کے مرحلے تک پہنچتا ہے۔ اس میں انسان خود کی تلاش کرتا ہے۔ خود کو پہچانتے ہیں لوگوں کی پرواہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں لوگ کیا کہے گے سے زیادہ اہم ان کے لے اپنی ذات ہوتی ہیں۔

ماسلو کے مطابق دنیا میں صرف دو فیصد لوگ خود شناسی کے مرحلے تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ لوگ خود کو اور دوسروں کی ذات کو تسلیم کرتےہیں۔ مشکلات کو حل کرتے ہیں نہ کے ان سے گھبراتے ہیں۔

نفسیات دان فرائڈ کے مطابق خود شناسی ایک پازیٹو انرجی ہے جو آپ کو کوئی بھی کام کرنے کے لیے اکساتی ہیں۔ آپ کو موٹیویٹ کرتی ہیں، ہر مشکل میں اس کا مقصد ماحول کے مطابق ڈھالنے میں آپ کی مدد کرنا ہیں۔ آپ کی شخصیت کو ازسر نو تعمیر کرنا ہیں۔ جیسے فرائڈ نے خود احتسابی کا نام دیا ہے۔

خودشناسی کے مرحلے میں انسان خود پہ غوروفکر کرتا ہے اپنے اردگرد کے رنگوں کو پہچاننا ہے، مشاہدات کرتا ہے۔ انسان مختلف طرح کے خود سے سوالات و جوابات کرتا ہے اور خود کو کھنگالتا ہے۔ یہ سوالات و جوابات اس کے خیالات کا عکس ہوتے ہیں۔ یہ انسان کی شخصیت کو بنا دیتے ہیں یا بگاڑ دیتے ہیں۔ اپنے خیالات کا جائزہ لیتے رہنا خود شناسی کی بنیاد ہے۔

اور جب انسان خود شناسی کے مرحلے تک پہنچتا ہے تو وہ اللہ کے قریب تر ہو جاتا ہے اور اس کی دی ہوئی نعمتوں پر شکر کرتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں سربسجود ہو جاتا ہے اللہ اس پر اپنی حکمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔ اپنے مقصد حیات کو پا لیتا ہے۔

"میرے نزدیک عقلمند وہ ہے جو اپنی ذات کو پہچانے" (الحدیث: سنن بن داؤد)

ہمیں بھی اپنی ذات کو وقتا فوقتا کھنگالتے رہنا چاہیۓ تا کہ ہم مقصد حیات کو پا سکیں۔ اس دنیا میں آنے کے اپنے اصل مقصد کو جان سکیں۔ اپنے اندر جھانک سکیں۔ اک با مقصد زندگی گزار سکیں۔ خود کو دیکھیں ہم کس مرحلے پہ ہیں اور ہمیں کس مرحلے تک رسائی حاصل کرنی ہیں۔

ہم تا عمر اللہ کو مندروں مسجدوں درباروں میں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ مگر اللہ تو کہیں ہمارے اندر ہیں جس کی تلاش ہمیں کرنی ہیں۔

"یہ دنیا تمہاری جانوں کا قید خانہ ہے"

اس لئے اس طرف بڑھو جہاں خدا تک رسائی آسان ہو۔ اپنے نفس کو ٹٹولوں خارجی حالاتوں پر قابو پاو خود پر باہر والے حالات کو حاوی مت ہونے دو۔ اور جب تم اپنی ذات تک رسائی حاصل کر لو گے تو یہ تمہیں تمہارے منزل کے قریب لے جانے میں تمہاری مددگار ہوگی۔

Check Also

Aik Sach

By Kashaf Mughal