Khud Par Yaqeen
خود پر یقین
تھامس ایلوا ایڈیسن امریکی سائنس دان تھا۔ یہ ایک گاؤں میلان میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین بہت غریب تھے۔ ایک دن تھامس سکول سے گھر لوٹا تو اس کے ہاتھ میں ٹیچر کا لیٹر تھا۔ اس نے بولا کہ ماما یہ میری مس نے دیا ہے اور بولا ہے کہ صرف اپنی ماں کو دکھانا ہے۔ اس کی ماں نے خط کھولا اور پڑھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے خط تھامس کو پڑھ کر سنایا:
آپ کا بیٹا تھامس بہت زیادہ ذہین ہے اور یہ سکول اس کے لیے بہت چھوٹا ہے۔ یہاں کے ٹیچرز اس کی تربیت نہیں کرسکتے کیونکہ وہ اس قابل ہی نہیں ہیں۔ پلیز آپ اپنے بیٹے کو خود ہی گھر پر پڑھائیں۔
تھامس نے گھر میں اپنی والدہ سے ہی تعلیم حاصل کی کیوں کہ اس کی والدہ دنیا میں وہ انسان تھیں جو اس کو سمجھتی تھی۔ بارہ سال کا ہوا تو ریل گاڑی میں کتابیں بیچنے کا کام کرنے لگا۔ اسے تمباکو نوشی کے ڈبے میں تھوڑی سی جگہ دے دی گئی تھی۔ کچھ عرصے بعد اسی ڈبے میں ایک چھوٹا سا پرنٹنگ پریس لگا لیا اور اپنا اخبار چھاپنے لگا۔ وہیں اس نے ایک کیمیاوی تجربہ گاہ بنا رکھی تھی۔ بعد ازاں تار برقی کا کام سیکھ کر ڈاک خانے میں ملازم ہو گیا۔
اپنی ماں کی وفات کے کچھ سالوں کے بعد تھامس پوری دنیا میں مقبول ہو گیا لیکن اس کو ماں بہت یاد آتی تھی۔ ایک دن گھر میں بیٹھا تھا کہ ماں کا خیال آیا تو اس نے الماری کھولی اور وہ خط نکالا، پڑھا۔۔ اس کی نرسری کی مس نے لکھا تھا:
محترمہ آپ کا بیٹا پاگل ہے، اس کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے، ہم اس کو اس سکول میں نہیں پڑھا سکتے۔ یہ خط آپ کو مطلع کرنے کے لیے ہے کہ اس کو سکول سے خارج کر دیا گیا ہے۔
تھامس ایڈیسن اپنی صدی کے سب سے بڑے اور نامور سائنسدانوں میں سے ایک تھا اور اس کی ایجادات میں ایک جو ہم دن رات استعمال کرتے ہیں وہ ہے لائٹ بلب۔ تھامس کو بہت بار ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا مگر اس نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی منزل کی جانب روادوا رہا یہ اکثر کہا کرتا تھا۔
"I have not failed 10000 times, I've successfully found 10000 ways that will not work"
میں اگر دس ہزار بار بھی فیل ہوا ہو تا تو میں فیل ہو کہ بھی فیل نہیں ہوا بلکہ میں نے دس ہزار کامیابی کے راستے تلاش کیے ہیں جو پہلے کوئی نہیں جانتا تھا۔
اس کی ہر ناکامی میں لوگوں نے یہی کہا یہ کچھ نہیں کر سکتا مگر اسے خود پہ یقین تھا۔ جنہیں خود پر یقین ہو دنیا کی کوئی طاقت انہیں ہرا نہیں سکتی۔ کٹھن سے کٹھن حالات بھی ان کی ہمت اور محنت کے آگے گھٹنے ٹیک لیتے ہیں۔۔
ہر وہ انسان جو آج دنیا کا مشہور و معروف انسان ہے اس نے اپنی زندگی میں کامیابی و نا کامی دونوں کا سامنا کیا ہے مگر اس نے کوشش نہیں چھوڑی۔ یہ اس کوشش کا ہی نتیجہ ہے جو اس نے 999 ناکامیوں کے بعد ایک ایسی کامیابی حاصل کی جس کا نام تاریخ کے سنہری حروف میں لکھا گیا۔ لوگوں کو آج بھی اس کی ایجادات کے بارے میں معلوم ہے۔
ہر کامیاب شخص کو ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر مستقل مزاجی اور مسلسل کوشش سے وہ آخر کار اپنی منزل پہ پہنچ جاتے ہیں۔
تھامس کو بھی اپنے حالات اور قسمت سے زیادہ خود پر بھروسہ تھا۔ اور اسی بھروسے کی بنا پر وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی تگ دو کرتا رہا۔ اور اپنی ایجادات کی بنا پر وہ اپنی صدی کے مشہور سائنسدانوں میں سے ایک بن گیا۔
Great things take time
عظیم چیزوں میں وقت لگتا ہے۔
آسماں کی بلندیوں کو چھونے کے لیے۔ سمندر کی گہرائیوں کو ماپنے کے لیے۔ وقت لگتا ہے۔ ہم میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں وہ راتوں رات ترقی کی منازل طے کر لیں، یا دنیا کے امیر ترین انسان بن جایئں۔ کیا ایسا کرنا ایک رات میں ممکن ہے؟
ہر گز نہیں آج تک دنیا میں جتنے بھی عظیم لوگ گزرے ہیں انہوں نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز کیا اور اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں انہیں بہت سے سال لگے مگر انھوں نے کوشش ترک نہیں کی۔ اسی لئے آج تاریخ میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا ہے۔ دنیا انہیں ان کے نام اور کام سے جانتی ہے۔
اس کامیابی کے سفر میں انھوں نے بہت سی مشکلات و مصائب کا سامنا کیا مگر اپنے مقصد کو ترک نہیں کیا۔ اپنے سفر کی جانب رواں دواں رہے۔ لگن، محنت، جستجو۔ ہمت، حوصلہ سے انھوں نے حیرت کن ایجادات کیں۔ جن کا پہلے نام و نشان بھی نہیں تھا۔ تاریخی اوراق ایسے ہیروز کے کارناموں سے بھڑے پڑے ہیں۔
اگر ہم بھی مسقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہم بھی کامیابی کی بلندیوں پر ہوں گے۔ ایک دن ہمارا نام بھی سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
یاد رکھے کامیابی قدم در قدم ملتی ہے بس ہم کو ایک قدم آگے بڑھانا ہے۔ رکنا نہیں بلکہ اپنی راہ میں آنے والے ہر مشکل کا ہمت و حوصلے کے ساتھ سامنا کرنا ہے۔ مسلسل محنت کرنے والوں کا اللہ بھی دوست ہوتا ہے۔ اپنےمنزل کی طرف روادواں رہے ہمت مت ہاریں ثابت قدمی کے ساتھ ہر مشکل کا ڈٹ کر سامنا کریں۔