Aaj Har Shakhs Khudi Se Nalaan Hai
آج ہر شخص خودی سے نالاں ہے
پلٹ کر اس گزری صدی میں قدم رکھتے ہیں
تم اپنے لب خاموش رکھنا
صرف ان لمحوں کی قید میں خود کو محسوس کرنا
وہ پر امن لمحے جب محبتوں کا پرچار تھا
بے غرض رشتے تھے
جہاں ڈھول کی تھاپ پہ سب رقص کرتے تھے
وہ گھر امن کا گہوارہ تھا
قہقہے، کھلکھلاہٹیں اور من موجی سی زندگی
انسان کے ہونے کا پتہ دیتی تھی
جینے کیلۓ کسی وجہ کا ہونا ضروری نہیں تھا
سب سانجھا تھا
اب خلوص بے مول بکتا ہے
محبتوں کی بولی لگتی ہیں
ہر دروازے پہ تالا ہے
انسان تنہائی کا ڈسا خودی سے نالا ہے
آج اس نفسا نفسی کے دور میں ہم اپنی روایات، تہذیب و تمدن، اپنے اخلاقیات سب کو پیچھے چھوڑے بس بھاگے جا رہے ہیں۔ جہاں جھوٹ ہر زبان پہ عام ہے، اور سچ ایک ایسے زہر کی شکل اختیار کر چکا ہے جسے بولنے سے شاید موت واقع ہو جائے۔ صد افسوس ہماری جھوٹ کی سیاست نے ہمارے اخلاقیات کو بھی تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ جہاں اخلاقی اقدار و روایات کو پس پشت ڈالے جیتنے کی خواہش میں اپنے توقیر ذات کو ہرائے جا رہے ہیں۔ وہاں ہر شخص خود کو منوانا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کی صلاحیتوں کو سراہا جائے مگر دوسروں کو روند کر محل بنانے والے شاید یہ بھول بیٹھے ہیں کہ
وَاللّـٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ۔
اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
وہ گر چاہے تو ایک کن پہ سب ملیا میٹ کر دے۔ اک غیر متوقع دوڑ میں ہر کوئی دیکھا دیکھی شامل ہو رہا ہے۔ سائنس نے جہاں خود کو منوایا ہے وہی ہمارے ذہنوں کو اخلاقیاتی طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ ہمارے بچوں میں قوت برداشت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک ایسی نسل پروان چڑھ رہی ہیں جن میں قوت مدافعت اور آباؤ اجداد کی روایات ناپید ہیں۔ خلوص، مروت، راواداری سے شاید ہی اب کوئی لینا دینا ہو۔
ہمیں اب اس نہج پہ سوچنا ہو گا کہ جس رستے پر ہم چل نکلے ہیں اس کی منزل کیا ہے۔ کیونکہ پہلے علم کم عمل زیادہ تھا اب عمل کم علم زیادہ ہے۔ ہم ہر بات پہ بڑے باشن تو دے سکتے ہیں۔ مگر ہماری تعمیر کی ہوئی عمارتیں اتنی پختہ نہیں کہ طوفانوں کی زد میں شان و شوکت سے کھڑی رہ سکے۔ یہ دور اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے کا خودی سے لڑنے کا، حق کے آگے ڈٹ جانے کا، ہر مشکل سے نبرد آزما ہونے کا ہے۔ اگر اب نہیں تو کبھی نہیں۔
ایک صدی پیچھے چلے جائیں جہاں قائدین و سیاسی لیڈر مسلمانوں کے جوش و جذبے کو ابھارتے ہوئے، ان کی سوئی ہوئی غیرت کو للکارتے ہوئے، اب یا کبھی نہیں کا نعرہ لگاتے ہوئے ایک نظریے پہ یکجا نظر آتے تھے۔ تب جنگ کے لیے مد مقابل کوئی اور تھا اور آج خودی سے، اپنے نفس سے لڑنا ہے۔ تب دین اسلام کے دفاع کی لڑائی تھی آج مسلمان کی مسلمان کے اختلافات اور فرقہ واریت کی لڑائی ہے۔