Saturday, 07 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Jagga Tax

Jagga Tax

جگا ٹیکس

پنجابی فلموں میں اکثر دیکھایا جاتا تھا کہ جو نیا نیا بدمعاش بنتا تھا۔ وہ اپنی پہچان بنانے کے لئے سب سے پہلے جگا لینا شروع کرتا تھا۔ جو انکاری ہوتا اس بدمعاش کے حواری اس شخص کے کس بل نکال دیتے تھے۔ شریف لوگ اپنی عزت کا خیال کرتے ہوئے جگا ٹیکس دینے میں ہی عافیت محسوس کرتے تھے۔ اب ویسے تو حالات نہیں ہیں۔ لیکن جہت بدل گئی ہے۔ وہ کام اب گورنمنٹ اداروں نے اپنے ذمہ لے لیا ہے۔ چاہے وہ بجلی کا محکمہ ہو یا اسلحہ لائسینس اتھارٹی۔

سوال یہ ہے کہ اگر محکمہ کی غفلت یا سستی یا کوتاہی یا اس محکمہ کی وزارت کی پالیسی کا دیر سے بننا اس وجہ سے اگر آپ کے لائسینس کی رینئول تاریخ گزر جائے تو اس کا خمیازہ لائسینس ہولڈر کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پہلے جب محکمہ ڈاک ٹکٹیں لگا کر رینئو کرتا تھا تب بھی ڈاک خانے کے چکر لگا لگا کر جوتیاں گھس جاتی تھی۔ ٹکٹیں اکثر ناپید رہتی تھی اور تاریخ گزرنے کے بعد ہی جرمانہ ادا کرکے لائسینس تجدید ہوتی تھی۔ تب فیس زیادہ نہیں تھی اور لوگ باآسانی اس بد معاشی کو قبول کر لیتے تھے۔

اب تجدیداسلحہ لائسینس کی فیس بہت زیادہ کر دی گئی ہے۔ پانچ ہزار فی سال ادھر تک بھی بات سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن ایک بندہ جس کا لائسینس دو سال تجدید کے لئے نادرا یا متعلقہ محکمہ کی پالیسی کی وجہ سے تجدید نہ ہو پایا ہو اس کو جرمانے کی سزا کیوں؟ کیا اس پر کوئی ادارہ جواب دہ نہیں۔

اب جن کے لائسینس 2022 میں تجدید نہیں ہو پائے محکمہ کی اپنی پالیسی اناؤس نہ کرنے کی وجہ سے اب جب وہ بندہ تجدید کے لئے گیا تو اس سے بیس ہزار کی ڈیمانڈ کی جاتی پانچ ہزار فی سال کا اور پانچ ہزار جرمانہ مطلب دس ہزار ہر سال کے حساب سے جگا ٹیکس جب کہ وہ تجدید کے لئے نادرہ کے چکر کاٹتا رہا وہاں سے یہی جواب سننے کو ملا کہ ابھی تجدید کی کوئی پالیسی اناؤس نہیں ہوئی ہم تجدید نہیں کر سکتے۔ یہ عام آدمی کے لئے بہت تکلیف دہ امر ہے۔

مطلب دوسال حکومت کی غفلت کا حرجانہ بھی کنزیومر ادا کرے مزید لازمی ایک سال آپ کو تجدید کروانی ہوتی تو یہ سب ملا کر تقریبا 30000تک رقم پہنچ جاتی ہے۔ غریب آدمی بجلی کے بلوں کی وجہ سے دماغی پریشانی میں ہے۔ جس میں ایسے ٹیکس اور ایسے طریقے سے پیسے نکلوائے جا رہے کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ مزید بالائے ستم تجدید کے نام پر لوگوں کی جیبیں زبردستی خالی کروائی جا رہی۔ کوئی ایسا طریقہ کار وضع ہونا چاہئے کہ گورنمنٹ کی غفلت کی سزا عام آدمی کو نہ ملے۔

وزیر اعلی پنجاب کو یہ احساس ہونا چاہئے تھا کہ پالیسی دیر سے نافذ کرنے کی وجہ سے جن کے لائسینس تاریخ گزر چکی ہے۔ ان کو ریلیف دیا جاتا۔ نا کہ وہ یہ سمجھیں کہ لائسینس بنوا کر غلطی کی اس سے تو بہتر کہ بغیر لائسئنس کے ہتھیار رکھ لیا جائے۔ اگر اسی طرح لوگوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا گیا اور اسی طرح ناکردہ گناہ کی سزا ملتی رہی تو لوگ لائسینس بنوانا یا تجدید کروانا چھوڑ دیں گے۔ پہلے ہی اس ملک میں غیر قانونی اسلحہ کی بھرمار ہے۔ اس طرح کی بے پر کی ٹامک ٹوئیاں اور زیادتیاں لوگوں کو غیر قانونی اسلحہ کی طرف راغب کریں گی۔ جو جائز طریقے سے اسلحہ رکھنا چاہتے ان کی حوصلہ شکنی ہوگی۔

زرا غور فرمائیں کہ صوبہ پنجاب میں کتنے لوگ جو لائسینس رکھتے ہیں۔ صرف حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے وہ تجدید نہیں کروا پائے۔ اب ان سے جرمانے کی مد میں کتنا فنڈ حاصل ہوا ہوگا۔ اگر فنڈ حاصل کرنا مقصود تھا تو یہ ایک سیدھی سیدھی غنڈہ گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ پرانے دور کے اس بد معاش میں جو لوگوں سے زبردستی جگا ٹیکس لیتا تھا موجودہ گورنمنٹ میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا کیونکہ اس وقت بھی اس انسان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا تھا اب بھی اس ظلم کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ ہم تو پڑھتے آئے ہیں کہ ریاست تو ماں جیسی ہوتی ہے۔ پر ایسے طریقوں سے لوٹنے والی ریاست ماں جیسے عظیم رشتے پر سیاہ دھبہ ہے۔

میری قانون دان حضرات سے گزارش ہے کہ اس من مانی جابرانہ پالیسی پر آواز اٹھائیں تا کہ کہیں سے تو سکھ کا سانس آئے۔ اسی لئے کہتے کفر کا نظام چل سکتا ہے ظلم کا نہیں یہ حکومت تو قدم قدم پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہی ہے۔ آخر کب تک؟

Check Also

Bachpan Ke Riwaiyati Khel

By Mubashir Aziz