Sunday, 22 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Khuda Janibdar Nahi Ho Sakta

Khuda Janibdar Nahi Ho Sakta

خدا جانبدار نہیں ہو سکتا

میری عمر چالیس سال ہوگئی۔ مجھے کان پڑی پہلی آذان تو یاد نہیں بس اتنا معلوم ہے کہ ابا نے خود دی تھی۔ ہاں، یہ یاد ہے کہ جیسے ہی بدن شعور و لاشعور کے مابین کروٹ لے رہا تھا (میٹرک کے زمانے میں) میں نے اخباری شہہ سرخی دیکھی "کوئٹہ کے اطراف میں معدنی تیل کے ذخائر دریافت"۔ ابا جی تفصیل میں بتاتے تھے کہ یہ ذخیرہ اتنا بڑا ہے کہ ایران سے زیادہ تیل ہے۔ پھر مزید تفصیل میں بتاتے کہ پاکستان کی سطح ایران سے اونچی ہے دراصل ہمارا تیل زیر زمین بہہ کر ایران جاتا ہے اور وہ نکال لیتے ہیں۔

پھر کچھ عمر بڑھی تو سنائی دیا کہ سوات میں زمرد کی کانیں دریافت۔ مالیت کا اندازہ لگانا ناممکن۔ گیم چینجر۔ پاکستان کا مستقبل مالا مال۔ پھر کچھ عمر بڑھی تو مجھے بتایا گیا کہ گوادر سونے کی کنجی، بلوچستان سونے کی کانیں، تھر کوئلے کا کوہ ہمالیہ، چنیوٹ لوہے کا عظیم خزانہ، شمال میں زمرد کے پہاڑ، جنوب میں گیس کے ذخائر، مشرق میں اجناس کا سرپلس اور مغرب میں تیل ہی تیل ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ دراصل یہ کہانیاں سنڈریلا ان ونڈرلینڈ کا مقابلہ کرنے کو سنائیں گئیں ہیں۔

کہانی کرانا اور کہانیوں پر یقین کرنا ہمارے جنیاتی کوڈ میں شامل ہے۔ برصغیر کی دھرتی فوک لور (ثقافتی کہانیوں) کی دھرتی ہے۔ آج اگر آپ یہ سُن رہے ہیں کہ ہمارے پہاڑ سونے کے اور ہماری مٹی دراصل چھ ٹریلین ڈالرز کی معدنی مٹی ہے تو کچھ عجب نہیں۔ جب آپ چالیس کے ہو جائیں گے کہانی دم توڑ جائے گی۔ تب تک دل بہلانے میں کیا حرج ہے؟ ہاں، دُکھ ہوتا ہے جب تپتے سورج کی تیز کرنیں آنکھیں کھُلنے پر بینائی کا ریپ کرتے اسے چندھیا دیتی ہیں۔ بہرحال، خواب دیکھنا سب کا حق ہے اور کہانیاں کرانا اس ملک کے اصل کرتے دھرتوں کا حق ہے۔ یہ تمام وسائل پر قابض ہو کر آپ کو بتاتے ہیں کہ دراصل بھوک و خوف تو خدا کا امتحان ہے اور امتحان میں صابر کی جیت ہوتی ہے۔

اسی طرح میں نے جب ہوش سنبھالا تو پی ٹی وی واحد خبری و انٹرٹینمنٹ چینل تھا۔ اس دور سے لے کر آج تک چینلز کی تعداد تو شمار سے باہر ہوگئی مگر کئی جملے ایسے پکے جملے ہیں جو آپ کو ہر دور میں ہر جگہ اور ہر خبری چینل پر سُننے کو ملتے ہیں۔ مجھے تو اب یہ تک معلوم ہو جاتا ہے کہ اس میڈیائی رپورٹ یا خبر یا پریس کانفرنس میں اگلا جملہ کیا بولا جانے والا ہے۔ مثال کے طور پر

۔ شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں

۔ اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا

۔ دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جائے گی

۔ تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی ہے

۔ دشمن ہماری شرافت کو ہماری کمزوری نہ سمجھے

۔ کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا

۔ وقار پر گزند نہیں آنے دیں گے

۔ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے

۔ سیاست سے کوئی تعلق نہیں

۔ وزیراعظم نے نوٹس لے لیا

۔ آئین سے کوئی بھی ماورا نہیں

۔ پارلیمنٹ سپریم ہے

۔ وزیراعظم عوام میں گھُل مل گئے

۔ باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا

۔ قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی

۔ سول و ملٹری قیادت ایک پیج پر ہے

۔ غریب کو اس کی دہلیز پر انصاف ملے گا

۔ قوم بیرونی دشمنوں کے خلاف متحد ہے

۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے گی

۔ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا

۔ الیکشن کا انعقاد بروقت یقینی بنایا جائے گا

ہر جلسہ کامیاب نہیں انتہائی کامیاب ہوتا ہے، ہر جلسے میں لوگوں کی سادی شرکت نہیں جوق در جوق شرکت کرتے ہیں۔ ہر "عظیم" رہنما کا استقبال نہیں ہوتا فقید المثال والہانہ استقبال ہوتا ہے۔ ہر نعرہ نعرہ نہیں جب تک فلک شگاف نہ ہو۔ کوئی جلوس جلوس نہیں ہوتا جب تک اسے ملین مارچ نہ بتایا جائے۔ ہر "عظیم" رہنما لاکھوں عوام کے ٹھاٹیں مارتے سمندر سے ہی خطاب کرتا ہے۔

یہاں ہر بندہ اپنے کاز یا دھرتی کے لئے خون کا آخری قطرہ بہانے کو ہمہ وقت آمادہ ہے مگر پہلا قطرہ بہانے کو ایک بھی تیار نہیں۔ یہاں ہر با اختیار فرد برائی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے بے تاب ہے یہ جانے بغیر کہ پہلی کیل ٹھیک سے لگی بھی کہ نہیں۔

اب جب یہ سب دیکھتے، سُنتے اور سہتے عمر چالیس کے پار اُتر رہی ہے تو میں انتہائی سکون سے میاں صاحب کے مافق ایک ہی جملہ بولتا ہوں"شکیل! کج کھان نوں ہے؟"۔ صرف اس ترمیم کے ساتھ کہ شکیل کی جگہ بیگم کا نام ہوتا ہے۔ آپ بھی اس سماج میں ہر قیمت پر پرسکون اور خوش رہنے کے طریقے تلاشیں۔ ورنہ پھر کرہ ارض پر واقع سب سے بڑے پاگل خانے کا حصہ بن کر اپنا لہو و توانائی ضائع کرتے رہیں۔ فیصلہ آپ کا۔

سعادت حسن منٹو کا افسانہ "ٹوبہ ٹیک سنگھ"ہے۔ پاکستان کی آزادی کے موقع پر سکھوں کی سیاسی پہچان پر طنز کے لئے منٹو نے ایک سکھ کی کہانی لکھی جو پاکستان کی سرحدوں کو خلط ملط کرتا رہتا ہے۔ اسے پاگل بنا کر پیش کیا ہے تاکہ اس کنائے میں سرحدوں کے ساتھ آبادی کی تقسیم کو پاگل پن بتایا جا سکے اور کوئی الزام بھی نہ آئے۔

اس سکھ کا اصل نام بشن سنگھ تھا جو ایک کھاتا پیتا زمیندار تھا لیکن اس کے رشتے دار اس کی زمین ہتھیانے کے لئے اسے پاگل قرار دلوا کر پاگل خانے میں داخل کر گئے۔ جہاں ہندو، مسلمان اور سکھ سب ایک ہی پاگل خانے میں جمع تھے۔ پاگل خانے میں خبر لیک ہوگئی کہ پاکستان بننے والا ہے اور پاگلوں کا بھی تبادلہ ہوگا۔ کرتے کرتے ہندو ہندوستان چلے گئے۔ اب صرف مسلمان رہ گئے تھے یا بشن سنگھ۔ اس کے رشتے دار ہندوستان جا چکے تھے۔ اس لئے وہ ملنے بھی نہیں آتے تھے۔ اس کی زمین اب کسی مسلمان کے قبضے میں تھی۔ بشن سنگھ کے لئے سوال تھا کہ اس کا ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں جائے گا۔ پاکستان میں یا ہندوستان میں۔

اس کے لئے یہ جاننا ضروری تھا کہ وہ کہاں جائے گا۔ سنجیدہ مسئلہ تھا اس لئے سوال انگریزی میں کرنا ضروری تھا۔ سوال براہ راست بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے لئے مناسب تمہید بھی چاہئے لیکن اشارے اور کنایے میں۔ چنانچہ اس نے بہت سوچ سمجھ کر سوال یوں ترتیب دیا "اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین "۔ منگ دی دال یعنی مونگ کی دال کا سادا سا کنایہ اصل میں دال یعنی وال یعنی دیوار یعنی سرحد کی مانگ کی جانب اشارا تھا۔ جب اس سوال کا جواب نہ ملا تو اس نے "لال ٹین " کی بجائے "وال آف دی پاکستان گورنمنٹ " اور جب اس پر بھی خاموشی رہی تو پاکستان کی بجائے "وال آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ"کا پوچھنا شروع کر دیا۔

ہوسکتا ہے سکھوں نے مسلمانوں کی طرح ٹوبہ ٹیک سنگھ بنا لیا ہو۔ ان پاگلوں میں ایک خود کو خدا سمجھتا تھا۔ بشن سنگھ نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ ہم نے ابھی فیصلہ نہیں کیا۔ ابھی ٹوبہ ٹیک سنگھ کہیں نہیں۔ بار بار یہی جواب سن کر ایک دن بشن سنگھ کا پاگل پن بھی جواب دے گیا۔ ایسے خدا کی بات کیسے مان لیتا جو مسلمانوں کی طرفداری کر رہا تھا اور فیصلے کو لٹکائے جا رہا تھا۔ آخر کو اس کی توحید پرستی بول پڑی۔ اب تک جو دل میں چھپائے بیٹھا تھا وہ پورا سوال نعرہ بن کر زبان پر آ گیا۔

"اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف واہے گورو جی دا خالصہ اینڈ واہے گورو جی کی فتح جو بولے سو نہال، ست سری اکال "۔

خدا جانبدار نہیں ہو سکتا۔ فتح پاکستان کی ہے نہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی، فتح ہے تو صرف گوروجی کی۔

آپ چاہیں تو یہی ورد کچھ ترمیم کے ساتھ کرکے اس پاگل خانے میں بقیہ عمر بسر کر سکتے ہیں"فتح نہ پاکستان کی ہے نہ عوام کی، فتح ہے تو صرف ان کی جو کہانیاں کراتے ہیں"۔

Check Also

Dard Hoga Tu Delivery Hogi

By Muhammad Saqib