Intikhabat Se Qabl Deal Ki Afwahen Tashveeshnak Hain
انتخابات سے قبل ڈیل کی افواہیں تشویشناک ہیں
پاکستانی سیاست میں کچھ سیاسی اصطلاحات کا استعمال بڑی فراخدلی سے ہوتا ہے جن میں ڈیل، مک مکا، دھاندلی اور لاڈلا بہت ہی معروف ہیں۔ اگر دو سیاسی جماعتیں کسی ریاستی معاملے میں اکٹھی ہوجائیں تو ان کے لئے مک مکا کی اصطلاح پکی ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر انتخابات سے پہلے خاص مہربانیاں کسی پر ہونی شروع ہوجائیں تو اس کی جیت دھاندلی، ڈیل اور لاڈلے پن کی نظرہو جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی تاریخ ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اور کئی خوش نصیب ایسی مہربانیوں کے اہل تو ٹھہرے مگر ان کو ہضم کر لینے کی ابھی تک کوئی بھی مثال موجود نہیں۔
ابھی ماضی قریب ہی کی بات ہے جب عمران خان پر مہربانیاں ہوئیں جن سے انہوں نے لاڈلے کا لقب پایا جو ان کو ہضم نہ ہو پائیں اور 2022 تک ان کی مقبولیت انتہائی کم ہوچکی تھی بعد میں ان کی حکومت ختم ہونے اور پی ڈی ایم کے مہنگائی کنٹرول نہ کرپانے سے ان کی مقبولیت پھر سے جاگ اٹھی جس کو وہ اپنی غلطیوں کی وجہ سے سنبھال نہ پائے اور آج پھر سے نواز شریف اور ان کی جماعت کی مقبولیت اوپر جارہی ہے جس کی بنیاد ان سے وابسطہ بہتر معیشت کی امیدیں ہیں۔
کہا جارہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور دوسری جماعتوں کو بھی اگلی حکومت میں ان کے مناسب حصے کی یقین دہانی کروائی جاچکی ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف چونکہ 9 مئی کے واقعات کی وجہ سے قانون کی زد میں ہےاور اس کی سنئیر قیادت جماعت کو چھوڑ چکی ہے جس سے ان کے ساتھ ناروا سلوک کا تاثر پیدا ہو رہا ہے۔ اسی طرح نواز شریف کی آمد اور مقدمات میں ضمانتوں اور سزاؤں کی معطلیوں سے یہ تاثر بھی ابھارا جارہا ہے کہ ان کو خاص مہربانیاں حاصل ہیں۔ اس طرح کے تاثرات انتخابات کے پراسیس کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور غیر جانبداری و شفافیت مشکوک ہوتی جارہی ہے۔
پاکستان اس وقت جس معاشی امتحان سے گزر رہا ہے ایسے میں اس طرح کی افواہوں اور لغزشوں کا متحمل نہیں ہوسکتا اس لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ اور شفاف طریقے سے ملک کی باگ ڈور منتخب حکومت کو سونپی جانی چاہیے تاکہ جمہوریت کو نقصان پہنچنے سے بچایا جاسکے۔ ادارے نیوٹرل ہونے سے کسی کو فائدہ پہنچتا ہے تو اس سے اس طرح کا تاثر پیدا کرنا اداروں کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچانے کے متبادل ہے۔ اس طرح کی افواہوں پر حکومت اور الیکشن کمیشن کو بھی ایکشن لینا چاہیے اور اگر ضروری سمجھیں تو تحقیق کے بعد جوابدہی بھی ہونی چاہیے۔ میڈیا کو بھی اس معاملے کو سنجیدہ لیتے ہوئے بے بنیاد الزامات سے پرہیز کرنی چاہیے۔ عوام اور ریاست کے اداروں کو مل کر اس طرح کی سازشی تھیوریوں سے نمٹنا ہوگا۔
نواز شریف بھی اس تاثر کو قطعاً اپنے حق میں نہ سمجھیں یہ ان کے خلاف کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سازش بھی ہوسکتی ہے اس سے ان کے ساتھ کی گئی تمام زیادتیاں جن پر ان کو عوام سے ہمدردیاں ملنی تھیں ان سے مکمل توجہ ہٹتی جارہی ہے۔ گویا لوگ ان سے کی گئی زیادتیوں کو تو بھول ہی گئے ہیں۔ ہر کوئی ضمانتوں اور آرڈرز کی معطلی کی بات تو کرتا ہے مگر جن مقدمات میں ضمانتیں ہوئیں یا آرڈرز معطل ہوئے ہیں ان کی حقیقت کو کوئی خاطر میں ہی نہیں لا رہا۔ لوگ جسٹس شوکت عزیز صدیقی اور جج ارشد ملک کی عدالتی مخبریوں کو بھی بھول گئے ہیں کہ ان کے ان فیصلوں اور سزاؤں بارے کیا انکشافات تھے۔
وہی مقدمات ہیں وہی عدالتیں ہیں مگر صرف اداروں کے سربراہان بدل جانے سے ملکی حالات یکسر تبدیل ہو گئے ہیں۔ اور اس کا فائدہ نواز شریف کو ہی نہیں ہر ایک کو ہورہا ہے۔ نیب قوانیں میں ترامیم کے کالعدم ہونے کے بعد سے اب تک کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔ دراصل پہلے حالات خاص سوچوں کے زیر عتاب تھے اور ان کو جیسے ہی آزادی ملی تو اس سے تبدیلی واقع ہونے لگی۔ اور ان حالات کا اثر ہی تو ہے کہ اختیارات کے محور تک بدل گئے ہیں اور ججز اور جرنیلوں کے احتساب کی باتیں ہونے لگی ہیں اور انہی تبدیلیوں سے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے فیصلے بھی کالعدم ہوئے۔ نیب کی سربراہی بدلنے سے وہ پہلے والی نیب کے کارناموں کا وزن اٹھانے سے معذرت کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے جب بڑی بڑی فائلیں ثبوتوں سے خالی ہوں تو محض ان کے وزن کو تول کر تو کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی سابقہ لوگوں کی وفاداریوں کی تاب کا بھاری بوجھ اپنے کندھوں پر ڈالا جاسکتا ہے۔ اگر ان فائلوں میں ثبوت ہوتے تو پچھلی حکومت اپنے دور میں ہی سزائیں دلوا لیتی جب ساری انگلیاں گھی میں تھیں اور سب ان کے ساتھ ایک پیج پر تھے۔
ماضی کی سیاسی ثقافت اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انتخابات میں جس کی حمائت میں ظلم کے خلاف ہمدردیوں کی ہوا چلی اس کو فائدہ ہوا مگر جس پر مہربانیوں کی خبریں چلیں وہ متنازع بن گیا۔ اس لئے اس طرح کے تبصروں سے سیاسی جماعتوں اور عوام میں تشویش سے نواز شریف کو فائدہ عارضی اور کم مگر نقصان زیادہ پہنچنے کا خطرہ ہے بلکہ جمہوریت کے مستقبل کے لئے بھی اچھا نہیں۔
لہذا جیسے بھی ہو نواز شریف صاحب کو اپنے بارے ایسی خبروں یا تجزیوں سے ابھرنے والی ڈیل کے تاثر کو ٹھیک کرنا ہوگا کیونکہ ایسے ماحول میں انتخابات کو متنازع ہونے سے بچانا مشکل ہوجائے گا۔ ہماری سیاسی ثقافت کی یہ اب ریت بن چکی ہے کہ جس کے خلاف فیصلہ آجائے وہ اس کو ماننے سے انکاری ہوجاتا ہے اور جو انتخاب میں ہار جائے وہ دھاندلی کی رَٹ لگانا شروع کر دیتا ہے۔
پاکستان کی سیاست اب اس قدر انتشار کی عادی ہوچکی ہے کہ آزادانہ طور پر کسی بھی امر کوچلانا انتہائی مشکل ہوتا جارہاہے۔ لہذا اس وقت انتخابات کروانا یا حکومت بنانا اتنا بڑا معرکہ نہیں جتنا انتخابات کے بعد سیاسی استحکام کو یقینی بنائے رکھنا ہوگا۔ سیاسی انتشار ہی کا نتیجہ ہے کہ آزاد ماحول سے 9 مئی جیسے واقعات نے جنم لینا شروع کر دیا ہے۔ حکومت تو 2013 میں بھی بنی مگر سیاسی استحکام مسئلہ ہی رہا۔ انتخابات تو 2018 میں بھی ہوئے جیسے تیسے بھی تھے جب ممبران نے حلف اٹھا لئے تھے تو پھر چاہیے تو تھا کہ ساری سیاسی جنگیں پارلیمان کے اندر ہی لڑی جاتیں مگر حکومت اور اپوزیشن دونوں سیاسی کھیل چوک چوراہوں میں ہی کھیلتے رہے۔ 2022 میں عدم اعتماد کے بعد دو چار ووٹوں کا فرق تھا مگر سیاسی جنگیں چوک چوراہوں میں ہوتی رہیں۔ آخر کار پارلیمان کو ویران کرنے کے لئے قومی اسمبلیوں کی نشستوں سے استعفےٰ اور دو صوبائی حکومتوں کو بھی قربان کر دیا گیا صرف اس لئے کہ وفاقی پارلیمان کو کسی طریقے سے فارغ کیا جاسکے۔
کہا تو جاتا ہے کہ ہم آئینی بحران کا شکار ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ ہم آئینی نہیں بلکہ اخلاقی بحران کا شکار ہوچکے ہیں۔ جس کا حل شائد آئین کے پاس بھی نہیں۔ آئین کی بے چاری کتاب کیا کرے جب اس کی تشریحات ہی بدل لی جائیں۔ جب اس کی توقیر اور عملداری کو موافقت سے مشروط کر لیا جائے تو پھر اس کی حیثیت ایک ریاستی ہتھیار جیسی ہی ہے جس کے ہاتھ میں ہوگا وہ اس کا استعمال اپنی مرضی اور ڈھال کے کے طور پرکرے گا۔
ہمیں محض انتخابات ہی نہیں کروانے بلکہ ان کو قابل قبول اور ایک مضبوط پارلیمان کے زریعے سے ریاستی مسائل کے حل کرنے کے قابل بھی بنانا ہے۔ جس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں کو انتخابات سے پہلے کوئی ایسا لائحہ عمل سوچنا ہوگا جس پر عملدرآمد سے سیاسی استحکام کو ممکن بنایا جاسکے۔ انتخابات میں ہار جیت سے زیادہ قوم و ملک کی خدمت کے جذبے سے حصہ لینا ہوگا اور یہ نیت ہونی چاہیے کہ خدمت کا موقعہ اقتدار میں ملے یا حزب اختلاف میں اس کو خدمت سمجھ کر نبھانا ہے۔ عملی طور پر کچھ دکھانا ہوگا محض لفاظیوں سے کام نہیں چلے گا آج استحکام کے نام کے سائے میں بیٹھے ہوؤں نے پچھلے دور میں سب سے زیادہ ریاست کوعدم استحکام کا شکار کیا ہے اور اب وہ استحکام کے سائے تلے پھر شاہیں کی اڑان پکڑنے کو تیار بیٹھے ہیں۔
سیاستدان اور سیاسی جماعتیں جب برابری کی بنیاد پر حصہ لینے کا مطالبہ کرتی ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ حکومتوں میں رہنے کے باوجود وہ ریاست کے اداروں سے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر وہ استطاعت نہیں جو ان کو اصولی سیاست کی بلندیوں تک پہنچا کر جمہوریت کو مضبوط بنانے کا اہل بنا سکے۔ وہ اصلاحات کے مواقع ضائع کر دیتے ہیں اور پھر آسروں کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ اگر اسی طرح سب اداروں کی طاقت کا پرچار کرکے اپنی سیاسی بساط کو لپیٹتے رہیں گے تو پھر ان سے سنجیدہ سیاست اورجمہوریت پر قائم رہنے کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔