1.  Home
  2. Blog
  3. Bilal Hassan Bhatti
  4. Sukhan Aur Ahl e Sukhan

Sukhan Aur Ahl e Sukhan

سخن اور اہل سخن

مظفر علی سید صاحب کی ہمیشہ بہت تعریف سنی ہے۔ سخن اور اہل سخن ان کی تنقید سے پہلا تعارف تھا اور بلاشبہ اس کتاب نے بہت جاندار تاثر قائم کیا ہے۔ کتاب میں کل بائیسس مضامین ہیں جن میں ایک بھی بھرتی کا مضمون نہیں ہے۔ ترجمے کی جدلیات، ادب کا تاریخی شعور یا شاعروں اور ادیبوں کے فن کا احاطہ کرتے مضمون ہوں ہر جگہ مظفر علی سید نے نہ صرف اپنی انفرادیت قائم رکھی بلکہ اردو ادب میں متن سے وفاداری قائم رکھنے والی تنقید کی روایت کو مضبوط کیا۔

اس کتاب میں نہ تو روایتی مکتبی تنقید نظر آتی ہے اور نہ ہی سید صاحب مغربی تنقید کی عینک چڑھائے کسی ادیب کے فن کا احاطہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کے متن سے ضرورت کے مطابق مطالب نکالنے اور ادیبوں پر شدید طنز والے جملے بھی کہیں نظر نہیں آتے۔ بعض جگہوں پر آپ پورا مضمون مکمل پڑھ لیں تو دوبارہ دیکھنے پر آپ کو فن پارے پر سید صاحب کی تنقیدی رائے سے مکمل آگاہی ملتی ہے۔

اس کا یہ ہرگز مقصد نہیں کہ وہ کوئی حکیمانہ یا مصالحتانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ ہرگز نہیں انہوں نے اپنے معاصرین پر ان کی زندگی میں اور وفات کے بعد بھی ہر تعصب سے پاک ہو کر تنقید کی ہے۔ نہ تو انتظار حسین کو بڑا افسانہ نگار مانتے ہیں اور نہ ہی ناصر کو دانشور شاعر سمجھتے ہیں۔ راشد اور ایران کے متعلق ان کا مضمون اب تک راشد کی شاعری پر لکھے مضامین میں مجھے سب سے زیادہ پسند آیا ہے۔۔ آپ مشتاق احمد صاحب کی مرتب کردہ "معانی کی صبحیں" اور مجلس ترقی ادب سے رفاقت علی شاہد صاحب کی مرتب کردہ کتاب "ن م راشد حرف و معنی کی جستجو" میں شامل مضامین کو پڑھ کر تقابل کر سکتے ہیں۔ ان دونوں کتابوں میں راشد کے فن پر اردو کے تمام بڑے معاصر نقادوں کے مضامین شامل ہیں۔ منٹو، بیدی اور غلام عباس جیسے بڑے افسانہ نگاروں کے علاوہ میر، ناصر، میرا جی، مجید امجد اور دیگر شعرا کے فن پر طویل مضامین شامل ہیں۔

مظفر علی سید صاحب اپنے مضامین میں خود کو عالم ثابت کرنے کی رتی برابر کوشش کرتے نظر نہیں آتے لیکن جن تفصیلات اور بریک بینی سے وہ متن کا جائزہ لیتے ہیں ویسا توازن اردو نقادوں کے ہاں خال ہی نظر آئے گا۔ وہ نہ تو کسی کو اردو کا سب سے بڑا افسانہ نگار یا شاعر قرار دیتے ہیں اور نہ ہی کسی کے ادبی محاسن سے پہلو تہی برتتے ہیں۔ متن کو لے کر ایسا تنقیدی انداز اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کرتے مضامین بہت کم پڑھنے کو ملتے ہیں۔ عربی فارسی اور انگریزی ادب پر ان کی نظر اور ان زبانوں سے براہ راست تعلق بھی انہیں اپنے معاصر نقادوں سے ممتاز کرتا ہے۔ اپنے ہمعصروں کے کام پر ان کی توجہ، پبلشرز کے متعلق ان کے خیالات اور ہمارے پبلشرز کا ماضی اس ایک اقتباس کو پڑھ کر سمجھ آ جاتا ہے۔ حال سے تو آپ تھوڑے تھوڑے واقف ہو چکے ہوں گے۔

"جنون و حکمت (حیدر آباد دکن، 1970ء) کے راشد نمبر" کے لئے جدید فارسی شاعری پر ایک مقالہ بھی لکھا جاتا ہے جو پھیلتے پھیلتے ایک کتابچہ بن جاتا ہے، جسے منیر نیازی لاہور سے شائع کرتے ہیں۔ ترجموں اور اصل نظموں کے ساتھ پوری کتاب کو لاہور اور الہ آباد (مکتبہ شبخون) سے شائع کرنے کا اعلان ہوتا ہے تعین کتاب کا مسودہ جو فیض صاحب کے ذریعے مجلس ترقی ادب لاہور کے ناظم جناب احمد ندیم قاسمی تک پہنچتا ہے، کئی سال مجلس کے سرد خانے میں پڑا رہتا ہے۔ بالآخر جب یہ 1987ء میں یعنی مرتب ہونے کے 17 سال کے بعد سامنے آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے تین پورے شاعر اور تقریبا آدھی نظمیں غائب ہو چکی ہیں۔

ناظم مجلس اس کی یوں توجیہہ کرتے ہیں کہ مجلس کی انتظامیہ نے تراجم کو اصل نظموں کے ساتھ چھاپنے کا فیصلہ کیا تھا اور تاخیر کا یہ عرصہ ان کی تلاش میں بسر ہوا۔ جبکہ راشد کے مطبوعہ دیباچے میں یہ فقرہ بھی ملتا ہے کہ موجودہ مجموعے میں، اصل نظموں اور ان کے ساتھ ان کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔ معلوم نہیں یہ دونوں چیزیں کس مرحلے پر جدا ہو ئیں اور راشد کی زندگی میں بقیہ پانچ سال تک ان کا دوبارہ حصول کیوں ممکن نہ ہوا۔ جن پروفیسر صاحب کی مدد سے ساٹھ ایک نظموں کا متن کئی برسوں میں جا کے جمع ہوا، ان کی دسترس میں تین اچھے خاصے معروف شاعر (م - آزاد، سیاوش کسرائی اور نصرت رحمانی) نہ آ سکے، نہ مہدی اخوان ثالث کی نظم زمستان اور نادر نادرپور کی "ستارہ دور جو جدید فارسی شاعری کے مشہور ترین اور سہل المحصول نمونوں میں شامل ہیں، انہیں دستیاب ہو سکے۔ ان کے علاوہ کئی اور نظمیں جن کا دیباچے میں صراحت کے ساتھ ترجمہ ہونے کا تذکرہ ہے، ان کے متن بھی ہاتھ نہ لگ سکے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جن نظموں کی فارسی اصل نہ ملی، ان کے تراجم کو بھی کتاب سے خارج کر دیا گیا اور ان کی فہرست تک نہ دی۔

اس کے مقابلے میں جب راشد کی محنت کا خیال آتا ہے تو اپنے اشاعتی نظام بلکہ پبلک خزانے سے قائم شدہ علمی و ادبی اداروں کی فعالیت کے معیار پر افسوس ہوتا ہے۔ ترجمے کرتے ہوئے راشد کو بعض جگہ فطری طور پر، جدید محاورے اور شاعر کے شخصی اسلوب کے سلسلے میں کچھ مشکلات پیش آئی تھیں جن کو حل کرنے کے لئے پہلے انہوں نے اپنے دفتر (مرکز اطلاعات ملل متحد، تہران) کے ادب دوست ہمکاروں سے مدد لی لیکن یہ کافی ثابت نہ ہوئی تو شعراء کو خطوط لکھوائے بلکہ کئی شامیں خود ان کی نظمیں انہی سے یا دوسروں سے سبقا سبقا پڑھیں۔ ان میں ایرانی ادب کے عمائدین احمد شاملو، نادر نادر پور، منوچهر آتشی، اسمعیل خوئی اور م - سرشک (شفیعی کدکنی) بھی شامل تھے۔

اس کے علاوہ انہوں نے ڈاکٹر رضا برانی، ڈاکٹر پرویز ناتل خانلری، اسمعیل نوری علاء اور عبد العلی دستغیب کے مقالات اور تصانیف سے استفادہ کیا۔ مرحومین میں سے نیما یوشیج اور فروغ فرخزاد کی متعدد نثری تحریروں کو جمع کرکے ان سے بصیرتیں حاصل کیں۔ فروغ فرخزاد کے والد سے مرحومہ کی زندگی پر گفتگو ریکارڈ کی اور اس کی قبر کی زیارت بھی۔ شاید ہی کسی مترجم نے (کم از کم اپنے یہاں ترجمے کے لئے اتنے کشٹ اٹھائے ہوں اور یہ تو واضح ہے کہ کسی بھی ملک کی معاصر شاعری پر (جس میں مترجم کی اولاد کے عمر لکھنے والے بھی شامل ہوں ) شاید ہی کسی مرد واحد نے ایسی توجہ صرف کی ہو۔

Check Also

Ab Wohi Stage Hai

By Toqeer Bhumla