1.  Home
  2. Blog
  3. Bilal Hassan Bhatti
  4. Khanda Aur Faramoshi Ki Kitab

Khanda Aur Faramoshi Ki Kitab

خندہ اور فراموشی کی کتاب

میلان کنڈیرا کو آج کے دور میں اردو قارئین اور ادیبوں کے ہاں بہت پزیرائی مل رہی ہے۔ ان پر سب سے زیادہ اور اولین کام محمد عمر میمن صاحب کا ہے۔ انہوں نے نہ صرف کنڈیرا کے ناولوں کا ترجمہ کیا ہے بلکہ ناول کی تنقید و تفہیم پر اس کی اہم سمجھی جانے والی کتاب "ناول کا فن" کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ عمر میمن صاحب کے بعد حال ہی میں سعید نقوی صاحب نے ان کے دو ناولوں کا ترجمہ کیا ہے۔ انڈیا میں خالد جاوید صاحب نے میلان کنڈیرا پر ایک تفصیلی کتاب لکھی ہے۔ اس مضمون میں میری کوشش کنڈیرا کے فن پر بات کرنا اور اس غلط تناظر پر بات کرنا ہے جو ہمارے ادیب میلان کنڈیرا کی ناول نگاری کے متعلق صرف اس لیے پھیلا رہے ہیں کہ وہ اپنے فن پارے کی اہمیت کو بڑھا سکیں۔

اردو میں نثری تنقید اور خاص کر ناول کی تنقید میں دور دور تک کوئی خاص نام نظر نہیں آتا۔ اگرچہ حسن عسکری صاحب جیسے بڑے نقاد کے ہاں ادب کے اہم اور بڑے مسائل کا ادارک تھا۔ وہ اردو ادب میں پائے جانی والی کمزوریوں اور ادب کی تخلیقیت میں شامل عوامل پر تو بات چیت کرتے رہے ہیں لیکن ان کے ہاں بھی کسی مخصوص افسانے یا ناول کی پرکھ پڑچول بہت کم نظر آتی ہے۔ انہوں نے اگر اس سلسلے میں کوئی کام کیا ہے تو وہ مضمون ہیں جو انہوں نے غلام عباس یا منٹو کے مجموعی فن پر لکھا ہے۔ وارث علوی صاحب کے ہاں نمونے کے طور پر ہی سہی "سرزنش خار" کے چند مضامین مل جاتے ہیں۔ اسی قحط الرجال کے سبب ہمارے ہاں کسی ادیب کے مکمل کام پر تفصیلی رائے ملنا مشکل ہے۔

اگر کسی مغربی ادیب کے کام پر کوئی رائے موجود ہے تو وہ زیادہ تر موضوعاتی ہے۔ پہلے تو کسی ادیب کے کام کو جنسیت، خارجیت، تاریخ جیسے موضوعات تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ جدید دور میں صرف لفظ تکنیک کا اضافہ ہوا ہے۔ تکنیک جیسی اصطلاح کو پکڑ کر اب ویسا دھوبی پٹکا دیا جا رہا ہے جیسے ترقی پسند، داخلیت، خارجیت یا تاریخی شعور جیسی اصطلاحات کو پرانے زمانوں میں دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس کی تکنیک پر مکمل گرفت اور اس کا تفصیلی ذکر کہ وہ تکنیک ہے کیا؟ کس طرح کسی فن پارے کو منفرد تجربہ بنانے میں مدد دیتی ہے؟ یا اس تکنیک کی اپنی ادبی اہمیت کیا ہے۔ یہی مسئلہ کنڈیرا کے فکشن پر بات کرتے اور اس کے ابتدائی ناول کی تکنیک کو ڈیل کرتے ہوئے سامنے آتا ہے۔

کنڈیرا کے ہاں the book of laughter and forgetting میں پلاٹ سے انحراف کی جو تکنیک اپنائی ہے یا اپنے ناولوں کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے اور ناول کا ہر حصہ الگ مکمل کہانی ہونے جیسی تکنیک کا استعمال ہے وہ اردو میں اشعر نجمی صاحب نے اپنے ناولوں میں اپنایا ہے۔ یا اپنے انٹرویو میں جو ناول کی تفہیم انہوں نے کی ہے وہ اردو میں خالد جاوید صاحب کے ناولوں میں نظر آتی ہے۔ اشعر نجمی صاحب اور خالد جاوید صاحب کے ناولوں بارے تفصیلی رائے کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ فل حال بات "خندہ اور فراموشی کی کتاب" پر کرتے ہیں۔

خندہ اور فراموشی کی کتاب میں تاریخی شعور، سماجی مسائل، ہجرت کا غم، فاشزم، خارجیت پسندی، جنسیت کے علاوہ کرداروں کی داخلی کیفیت جیسی تمام باتیں موجود ہیں۔ لیکن اس ناول کو جو چیز اہم بناتی ہے وہ اس کی تکنیک اور تکنیک کے ذریعے پیدا کی گئی فضا ہے۔ یہ ناول سات باب میں تقسیم ہے اور ہر باب میں نئے کردار، نیا زمان و مکان، نئی کہانی اور نئے موضوع کو شامل کیا گیا ہے۔ لیکن اس قدر مختلف ہونے کے باوجود ناول کے اندر کلیت کا ایک احساس قراعت کے دوران مسلسل رہتا ہے۔ تو کیا چیز ہے جو اس قدر مختلف موضوعات کو چھیڑتی ہے اور پھر بھی بے شمار نئے کرداروں کو متعارف کراواتے اور پھر معدوم کرتے ناول میں کلیت کا احساس ذائل نہیں ہونے پاتا۔ وہ چیز اس ناول کی تکنیک اور فضا ہے۔

جہاں ناول کے ہر حصے میں نیا کردار اور نئی کہانی ہے وہیں تہمینا کے کردار نے اس ناول کو سات حصوں میں بٹا ہونے کے باوجود جوڑے رکھا ہے۔ اگرچہ وہ پہلے حصے میں موجود نہیں ہے لیکن یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ اسی کی کہانی ہے۔ اور خود میلان کنڈیرا کہانی میں بطور راوی یہ ذکر کرتا ہے کہ یہ کہانی تہمینا کی ہے۔ تہمینا ایک بیوہ ہے جو اپنے ملک سے ہجرت کر گئی ہے۔ کسی یورپین ملک میں رہتے ہوئے اسے ان خطوط کو حاصل کرنے کی خواہش ہے جو اس کے شوہر نے اسے لکھے تھے۔ اس کا شوہر کون ہے؟

اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے قاری پہلے حصے والے میورک کے بارے میں بھی سوچتا ہے کیونکہ وہ بھی ایسے ہی اپنے خطوط کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں نظر آتا ہے۔ پھر جیسے باقی کرداروں کو ان کے اپنے حصوں میں ختم کر دیا گیا ہو۔ تہمینا کا کردار توقع کے برعکس اگلے حصوں میں بھی جاری رہتا ہے۔ تہمینا کی وفات، کسی اجنبی کے عشق میں ایک تحیر آمیز جگہ پر اس کا جانا اور وہاں ہونے والے واقعات کے بعد خود کو پانی کے حوالے کر دینا اس بات کا اشارہ ہے کہ اس کی زندگی کس قدر بے معنی ہوگئی تھی۔

یہیں میجیکل رئیلزم کے استعمال نے تہمینا کی زندگی کو معنی دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کا خود کو پانی کے حوالے کر دینا اور پھر بچنے کی امید لگانا اس کی اس کنفیوزن کا نتیجہ ہے جو ہجرت نے اس کے اندر پیدا کر دی ہے۔ چیکوسلواکیہ میں پڑے اس کے شوہر کے خطوط کو حاصل کرنا ہی اس کی زندگی کا مقصد تھا اور جب اس سے زندگی کا مقصد ہی چھین لیا گیا تو اس نے خود کو ختم کر لیا۔ ہجرت کاٹتے اور بیسوی صدی کی بڑی جنگوں اور بعد میں سرد جنگ سے پیدا کی گئی خانہ جنگیوں نے انسانوں کے ایک بڑے ہجوم سے زندگی کا مقصد چھین کر ان کو ناکارہ کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ تاریخ کا حوالوں کا استعمال، مختلف مقامات پر کہانی کے اندر شامل ہو کر مختلف موضوعات پر بطور راوی اپنی رائے کا اظہار کرنا اور مسلسل خندہ اور فراموشی کی فضا قائم رکھنا جیسی تکنیک کا استعمال اس ناول کو بغیر کسی مخصوص پلاٹ کے ایک وحدت کے طور پر جوڑے رکھتا ہے۔ اردو میں لکھنے والے ادیبوں کے ہاں تمام تر "پھوں پھاں" کے باوجود ایسی جرات کی واضح کمی ہے کہ وہ ان تاریخی حوالوں کا ذکر کر دیں جہاں سے انہوں نے اسے لیا ہے۔ پھر مصنف کا بطور کردار کہانی میں ظاہر ہو کر رائے کا اظہار کرنے کے باوجود کہانی کے تسلسل میں کسی رکاوٹ کا نہ آنا فنکارانہ جرات اور مہارت کا عمملی نمونہ ہے۔

Check Also

Muhabbat Se Kab Tak Bhago Ge?

By Qurratulain Shoaib